بھکر کا شمار جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں سے ہوتا ہے۔ بھکر کو ضلع کا درجہ 1981 میں دیا گیا۔ اس کی چارتحصیلیں ہیں۔ دریا خان، کلورکوٹ، بھکر، منکیرہ۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر کھیتی باڑی ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولیات کے اعتبار سے جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی آبادی تقریبا 12 لاکھ کے قریب ہے۔ 2014 میں PP48 نجیب اللہ نیازی کی سیٹ اس کی وفات کی وجہ سے خالی ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے ضمنی انتخاب کے اعلان کے بعد تین اہم امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا۔ انعام اللہ نیای، احمد نوازنوانی، نذرعباس کہاوڑ۔
پاکستان عوامی تحریک نے نذر عباس کہاوڑ کو مقامی تنظیم کی سفارش پر ٹکٹ دیا۔ اس حلقہ کے رزلٹس کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہاں کے مقامی حالات اورالیکشن پر اثر انداز ہونے والے مختلف پہلووں کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ یہاں پر نوانی خاندان کا سیاسی اعتبار سے بہت اثر رسوخ ہے اور ان کے مختلف لوگ وزارتوں پر بھی متمکن رہے حمید اکبر نوانی دو بار ضلع ناظم بھی رہے اور ضلع بھر میں تمام سرکاری اداروں میں گذشتہ 30 سال سے سیاسی بنیادوں پر نوانی براران نے اپنے سیاسی ورکرزکوعہدوں پر بٹھارکھا ہے۔ اسی طرح نیازی برادران کابھی اس علاقہ میں کافی سیاسی اثرہے۔ مذہبی اعتبار سے یہاں کا ووٹ بنک دو حصوں میں تقسیم ہے۔ شیعہ اور سنی۔ شیعہ ووٹ بہت زیادہ ہے اور الیکشن کا رزلٹ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقامی طور پر روایتی جاگیرداروں، وڈیروں کا اثر رسوخ بہت زیادہ ہے۔
PP48 حلقہ تحصیل دریا خاں پرمشتمل ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کا تحصیل بھکر اور کلورکوٹ میں بہت مضبوط نیٹ ورک ہے جبکہ دریاخاں میں مضبوط نیٹ ورک نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دریاخان میں عوامی تحریک کے ورکرز کی تعداد 100کے قریب ہے۔ الیکشن سے پہلے بہت سے کارکنان انقلاب مارچ اور دھرنے کے دوران زخمی اور 555 گرفتار ہوئے تھے۔ پنجاب پولیس کی غنڈہ گردی اور وحشیانہ تشددکی وجہ سے دو کارکن شہید بھی ہوئے تھے۔ ان تمام نامساعد حالات میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو الیکشن لڑنے کا تجربہ ہو، کیونکہ پاکستان عوامی تحریک نے 2002 کے الیکشن کے بعد بوجوہ حصہ نہیں لیاتھا۔ اور ایسے امیدوارکو ٹکٹ دیا گیا جو باقی امیدواروں کی نسبت اچھی شہرت رکھتا تھا۔
انقلاب مارچ اور تاریخی دھرنا کے بعد جب عوامی تحریک نے اپنی حکمت عملی بدلی اور ہر ضلع میں عوام الناس تک اپنا انقلابی پیغام پہنچانے کا فیصلہ کیا تو ظالمانہ نظام کے محافظ مفاد پرست ٹولہ نے عوامی تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولت کو دیکھ کر ہواس باختہ ہوگئے۔ تحریک اور قائد تحریک کے خلاف منظم پروپیگنڈہ مہم شروع کردی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کی بولیاں لگائی گئیں اور ان سے تحریک کے خلاف سازشی پروپیگنڈہ کروایا گیا مگر عوامی تحریک کے جانثار کارکنوں نے ان حالات کا مقابلہ کیا اور بھکر میں تمام حکومتی اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود ایک تاریخ ساز جلسہ عام منعقد کیا اور دریاخان میں کامیاب دھرنا دیا جو قائد عوامی تحریک ڈاکٹر طاہرالقادی کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کا واضح ثبوت تھا۔
الیکشن مہم کے آخری دنوں میں لشکر جھنگوی اور سپہ صحابہ نے انعام اللہ نیازی کی سپورٹ کا اعلان کردیا۔ اور پورے حلقہ میں فرقہ واریت کی ایک فضا بن گئی، الیکشن خالصتا فرقہ وارانہ الیکشن بن گیاتھا۔ پاکستان عوامی تحریک جو فرقہ واریت جیسے مسائل کو قوم کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے اس فرقہ وارانہ سوچ اور مسائل سے دور رہی۔ عوامی تحریک نے فیصلہ کیا کہ ہم فرقہ واریت کو ہوا نہیں دیں گے اور نہ ہی اپنی فکر، اصول، نظریہ پر سمجھوتا کریں گے۔ جبکہ نوانی خاندان نے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے حمایت یافتہ امیدوار انعام اللہ نیازی کے مقابلے میں شیعہ کارڈ استعمال کیا فرقہ وارانہ ماحول پیدا کیا۔ اور اپنا دیرینہ اثر رسوخ استعمال کرکے ووٹرز کو ڈرایا دھمکایا جس کی وجہ سے اہل تشیعہ کا ووٹ بنک نے عوامی تحریک کے امیدوار کے مقابلے میں نوانی کی طرف Shift ہوگیا۔ جس نے انعام اللہ نیازی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً نذر عباس کہاوڑ کی اپنی آبائی یونین کونسل جس میں اسے 2013 میں 8050 ووٹ ملے تھے اب اس یونین کونسل سے 5870 ووٹ ملے ہیں۔ یہ ووٹ اس کی ذات کی وجہ سے کم ہوئے ہیں جبکہ اب کچھ پولنگ سٹیشنز کا جائزہ لیتے ہیں مثلا یونین کونسل جمعت شمالی کے پولنگ نمبر 1نذر عباس کو 2013 میں 17 وووٹ ملے اور اب 124 ووٹ ملے، پولنگ سٹیشن نمبر 2 سے 2013 میں صرف 1 ووٹ ملا اب 135 ووٹ ملے اسی طرح 3 نمبر پولنگ سے 2013 میں صرف 6 ووٹ ملے تھے اب 99 ملے ہیں پولنگ نمبر 5 سے 2013 میں 10 اور اب 183 ووٹ ملے ہیں یہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں عوام میں عوامی تحریک کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔ نذر عباس کے اپنے ذاتی ووٹ کم ہوئے ہیں جبکہ عوامی تحریک کی وجہ سےبہت سی یونین کونسلوں اور پولنگ سٹیشنز اسے زیادہ وووٹ ملے۔ یونین کونسل بارنگاہ کے پولنگ بوتھ نمبر 17 سے 2013 میں صرف 1 ووٹ ملا جبکہ 2014 میں 141 ووٹ ملے اسی طرح دریا خاں کے پولنگ بوتھ 5 سے 2013 میں 10 اور اب 41 ووٹ ملے۔ یہ چندمثالیں تھیں اور بھی بہت سے پولنگ بوتھ کے رزلٹس ایسے ہی ہیں۔
سب سے اہم محرک اس الیکشن کا کہ عوامی تحریک کو جو ووٹ ملے وہ خالصتاً انقلاب کے لئے اور اس ملک سے ظالمانہ، استحصالی نظام کے خاتمے کے لئے ملے۔ یہ ووٹ قائد انقلاب کے 70 دنوں کے تاریخ ساز دھرنے سےہونے والے خطابات اور عوامی بیداری شعور کی اس مہم کا نتیجہ تھے جس کو عوام کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ پاکستان عوامی تحریک کی نہ تو وفاق میں حکومت تھی اور نہ ہی صوبائی حکومت تھی جس کے وسائل کو استعمال میں لا کر وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں تھی اور نہ ہی عوامی تحریک کے امیدوار کو ووٹ دینے والوں کو یہ امید تھی کہ یہ امیدوار جیت کر ان کے مسائل حل کروائے گا ان کے مدنظر صرف ایک نظریہ تھا جس نظریہ کو وہ پاکستان کے مسائل کا واحد حل سمجھتے تھے۔ وہ ووٹ اس نظریہ کے لئے اور قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادی کے لئے تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان مساعد حالات میں اتنے ووٹ لینا پاکستان عوامی تحریک کی کامیابی ہے۔ اور ان کارکنان کی قربانیوں کا صلہ ہے جو تحریک کے کارکنان نے نظام کی تبدیلی کے لئے دیں۔
عوام میں بیداری کی لہر اس بات کا ثبوت ہے کہ آنے والا وقت پاکستان عوامی تحریک کا وقت ہے۔ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب پاکستان سے ظالمانہ، جابرانہ، استحصالی نظام کاخاتمہ ہوگا۔ اور اشرافیہ کے نظام کی جگہ ایسا نظام آئے گا جس میں ظلم، استحصال، جبر کا نام ونشاں تک بھی نہیں ملے گا۔ اور قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دس نکاتی ایجنڈہ پر عمل درآمد کے بعد پاکستان خوشحال پاکستان بنے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کارکنان باطل طاقتوں کی مخالفتوں، اور مخاصمتوں، الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں کو پس پشت ڈال کر منزل کی جانب بڑھتے چلے جائیں۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لئے
تبصرہ