تبدیلی کا نعرہ؟ کیا سچ کیا جھوٹ

تبدیلی۔ حقیقی تبدیلی، نظام کی تبدیلی، عوام کی تبدیلی، قیادت کی تبدیلی۔ آخر کون سی تبدیلی۔ عوام کیا چاہتے ہیں؟ تبدیلی کا نعرہ سبھی لگاتے ہیں لیکن ذرا سوچئے گا کہ تبدیلی ممکن کیسے ہے؟ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، پاکستان عوامی تحریک کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ فضل کریم بھی حقیقی تبدیلی، اسلامی قانون کے نفاذ اور انقلاب کے دعویدار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے ’’جیسا دریا ہے ویسا پانی ہے‘‘۔ کچھ کرنا ہوگا ہمیں اس پاکستان کیلئے، اس ملک کیلئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم اقتدار میں آ کر پاکستان کے اس استحصالی نظام کو تبدیل کریں گے، میری طاقت پاکستان کی نوجوان نسل ہے، لیکن گزشتہ روز ہونے والے ایک کنونشن میں عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو 25% سیٹیں دی جائیں گی، عمران خان نے اس کنونشن میں نوجوان نسل کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے سب کام نوجوان نسل ہی نہیں کر سکتی کچھ کام بوڑھوں کا بھی ہوتا ہے۔ جس طرح عمران خان آہستہ آہستہ بڑھاپے کی طرف جا رہے ہیں اسی طرح کا حساب کتاب جماعت اسلامی کے ساتھ بھی ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل بننے والی جماعت اسلامی آج تک اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ نہ کر سکی۔ جو بھی حکومت بنی اس کے دست و بازو بن کر اس کی حمایت اور مخالفت کر کے اپنے مفادات حاصل کرتی رہی۔ جماعت اسلامی آج تک ملکی تباہی میں برابر کی حصہ دار رہی ہے۔ وہ اس لئے کہ چوری کرنے والے کو دیکھ کر خاموش رہ جانا چوری کرنے والے کی حمایت کے مترادف ہوتاہے۔ 65 سالہ تاریخ پاکستان میں ہر آنے والے جمہوریت کے علمبردار اور ہر آمریت کے حامی نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور جماعت اسلامی اس پر نوحہ کناں ہونے کی بجائے اس کی حمایتی بنی رہی تو نتیجہ قارئین خود اخذ کر لیں۔۔؟؟؟

سنی اتحاد کونسل نے بھی حال ہی میں سیاست میں قدم رکھنے کا اعلان کیا ہے اور لانگ مارچ کا آغاز کیا ہے۔ اسلامی لحاظ سے تو لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لانگ مارچ کی ہر مسلمان تائید کرتا ہے لیکن شاید ’’ کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات‘‘۔ !!! موجودہ نظام انتخاب کو سہارا دے کر اسی نظام کے تحت اسی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر آپ کس اسلامی قانون کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ جس ملک نے اس ملک کی 18/19 کروڑ عوام کو گزشتہ 65 سالوں سے ’’ کھڈے لین‘‘ لگایا ہوا ہے اس ملک میں تبدیلی کی سب سے بڑی رکاوٹ اس ملک کا انتخابی نظام ہے جس کے تحت ہر مولوی صاحب / لیڈر صاحب / جاگیردار صاحب انتخابی مہم میں 20/25 کروڑ روپے لگا کر عوامی خدمت کے دم بھرتے ہیں لیکن جونہی یہ اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی انسان ہیں، لیکن کاش اس عوام کو سمجھ آ جائے کہ یہ تمہارے مسیحا نہیں ہیں۔ انسانیت کا بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے تو پارلیمنٹ خاموش، پاکستان کی خودمختاری پر حملہ کیا جاتا ہے تو پارلیمنٹ خاموش لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ آخر کس طرح جناب ۔۔!! ہمیں بھی بتائیے کس طرح؟؟؟

اب بات کریں ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری کے پرامن عوامی انقلاب کی۔ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا نام اس لئے نہیں لکھ رہا میں تحریک منہاج القرآن کا کارکن ہوں، بلکہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ شخص ملک سے باہر رہ کر بھی اپنے دل میں اس ملک کا درد اس عوام کا درد محسوس کرتاہے۔ صحافی اور کالم نگار جب بھی تحریر لکھتا ہے تو وہ ایک عام انسان بن کر لکھتاہے ، یہ بات بھی واضح رہے کہ جب کالم / تحریر لکھتا ہے تو وہ کسی پارٹی، ادارے، تحریک، جماعت کا کارکن اور عہدیدار نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عوام پاکستان کو 23 دسمبر کو مینار پاکستان میں جمع ہونے کی کال دے دی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ اس نظام کے تحت یہ عوام 65 سال سے تبدیلی سے محروم ہے۔ اس نظام کے تحت تبدیلی کی بات کرنے والے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو ٹارگٹ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان عوام کو جمع کرنے کیلئے اپنی تحریک کے کارکنوں کو دیا ہے وہ پورا ہوتاہے یا نہیں۔۔۔ ٹارگٹ پورا ہو یا نہ ہو لیکن ایک بات واضح اور عیاں ہے کہ پاکستانی قوم کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ اپنے مقدر کو سنوار لے، اپنی آنے والی نسلوں کیلئے کچھ بنادے ورنہ اس قوم کا حال یزید سے بدتر ہوگا، موجودہ نسل کو آنے والی دُنیا سیاہ ترین باب کے طور پر رقم کرے گی۔ عوام پاکستان ہوش کے ناخن لے اور ذرا سوچے۔! ’’ کیونکہ میں تو صرف لکھ سکتاہوں ‘‘ گھول کر کسی کے ذہن / دل میں نہیں ڈال سکتا۔۔ شاید کہ ترے دل میں اُتر جائے میری بات ‘‘۔ !!!!۔ اپنا بہت خیال رکھئے گا۔ اللہ حافظ۔

تبصرہ