سیاست نہیں ریاست بچاؤ

تحریر : فضل حسین اعوان

ڈاکٹر طاہر القادری تازہ اعلان کے مطابق اور نئے ایجنڈے کے ساتھ 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر وقوع پذیر ہونے والے ملینز کے جلسہ عام میں ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ ان کے ایجنڈے ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ“ نے بڑے بڑوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ملکی سیاست میں ”کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے“ کی سی کیفیت ہے۔ رن کانپنے سے یاد آیا کہ مولانا عبدالستار خان نیازی حلف برداری کیلئے قومی اسمبلی میں داخل ہوئے تو کسی جیالے نے پورا مذکورہ مصرع دہرا دیا جس پر حضرت مولانا نے برملا کہا تھا یوں کہو ”رن کانپ رہی ہے“۔ ڈاکٹر طاہر القادری چند سال کیلئے عبوری قومی حکومت کے قیام کیلئے کوشاں ہیں۔ جو ہر قسم کا سیاسی گند صاف کر کے قومی سیاست کو درست سمت میں گامزن کر دے۔ ڈاکٹر صاحب سیاست سے دور رہتے ہوئے اس مجوزہ عبوری حکومت کا حصہ بننے کے خواہاں نہیں ہیں وہ اس ایجنڈے کا پرچم ملک و قوم کی بھلائی کیلئے اٹھا اور لہرا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ڈاکٹر صاحب کی یہ ادا ان سیاستدانوں کو تو پسند نہیں آئیگی، جو اسی سیاست میں پلے بڑھے ہیں جو آج سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایجنڈہ پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کو کیسے وارے میں آسکتا ہے جو اتحاد کے بل بوتے پر مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنانے کا زعم رکھتی ہے۔ مسلم لیگ ن ضمنی الیکشن میں 9 میں سے 6 نشستیں جیت کر آئندہ عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے حصول کی دعویدار ہے۔ ضمنی الیکشن کے نشے میں بے سدھ ہو کر ن لیگی قیادت اور متوالے بے خود سے ہو رہے ہیں۔ مخالفین پنجاب حکومت پر ایک طرف دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف کائرہ قوالی کر رہے ہیں کہ ن لیگ نے اپنی ہی سیٹیں جیتی ہیں۔ بہرحال ن لیگ کی ضمنی الیکشن میں کامیابی سے دوسری پارٹیوں کے ہوا کا رخ دیکھ کر سیاست کا تعین کرنے والے امیدواروں کی نظریں اب ن لیگ کا شکار کرنے یا ہونے پر گڑ چکی ہیں۔

عمران خان کو قومی معاملات سدھارنے کیلئے چونکہ کچھ کر گزرنے کا عزم رکھنے والے 100 لیجنڈز کی تلاش ہے۔ وہ تو ”100 نامی گرامیوں“ کی بات کرتے ہیں جس کو سونامی یعنی سمندری طوفان سے تعبیر کر لیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی بھی ملک میں سیاسی ہلچل مچانے پر یقین رکھتی ہے اس کو بھی ڈاکٹر صاحب کے ایجنڈے سے اتفاق نہیں ہو سکتا۔ چند سال کی عبوری حکومت یا سیاست نہیں ریاست بچا ایجنڈا، ڈاکٹر طاہر القادری کا اپنا ہے یا کسی طرف سے ان کے کان میں پھونکا گیا ہے، کچھ محب وطن حلقوں کی نظر میں یہ عین قومی و عوامی امنگوں کے مطابق ہے تاہم مخالفت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں جو براہ راست اس سے متاثر ہوتے ہیں‘ وہ طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے ہیں۔ کچھ یہ کہہ کر بھڑاس نکال رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے نامِ نامی میں طوالت در طوالت ہو رہی ہے۔ پوچھا کیا طوالت ہے تو فرماتے ہیں، محمد طاہر القادری اصل نام ہے جو آج شیخ الاسلام ڈاکٹر پروفیسر علامہ طاہر القادری ہو گیا۔ بشارت پر امام دوراں بھی کہلا سکتے ہیں اس کے بعد.... ہمیں شیخ الاسلام کے نام میں طوالت پر اعتراض نہیں‘ اس سے لمبے نام بھی پڑھے اور سنے ہیں۔ برادرم وڑائچ صاحب نے 25 سال کی عرق ریزی سے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ اس کی محض پروف ریڈنگ پر چھ سات سال لگے ہیں۔ اس پرمترجم کا نام یوں تحریر ہے۔ اعلٰحضرت شہنشاہ الفاظ سلطان المعانی، تاجدار سخن، علامہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ۔۔۔ نام کی طوالت سے یاد آیا انگریز دور میں گوالیار کی ریاست کے مہا راجہ کا لقب تھا۔ ”ہزہائی نس۔ مہاراجہ مختیار الملک‘ عظیم الاقتدار‘ رفیع الشان والا شکوہ‘ مہتہ شام دوراں‘ عمدۃ الامراء‘ مہا دیو راجا عالیجاہ‘ حسام السلطنت‘ جارج جیواجی را سندھیا بہاقدر‘ شری ناتھ منصور الزمان‘ فدوی حضرت مالک عظیم‘ رفیع الدرجات انگلستان‘ مہا راجہ آف گوالیار“۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے عین انتخابات کے انعقاد کی دہلیز پر ''سیاست نہیں‘ ریاست بچا''  کا نعرہ بعض حلقوں کے نزدیک معنی خیز ہے۔ اس سے ان لوگوں کے دعوے کو بھی تقویت ملتی ہے جو باصرار کہتے ہیں 2013ء میں انتخابات نہیں ہوں گے۔ معذرت سے ساتھ‘ ڈاکٹر صاحب کے اس نعرے کہ سیاست نہیں ریاست بچا سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا‘ ریاست کے ساتھ ساتھ سیاست بھی بچ جائے تو حرج ہی کیا ہے؟ سیاست نہیں ریاست بچا، سے تاثر ملتا ہے کہ جیسے اس نعرے کا خالق جمہوریت کی لُٹیا ہی ڈبونا چاہتا ہے۔ جمہوری نظام اسلام کے شورائی نظام سے قریب تر ہے جس کا حصہ ڈاکٹر صاحب خود بھی رہے ہیں۔ آپ جمہوریت کو سنوارنے کی کوشش ضرور کریں تھوڑی سی بے احتیاطی سے یہ ڈی ریل ہوئی تو دہائی ڈیڑھ دہائی کی آمریت مسلط ہو سکتی ہے، ویسے ہمارے سیاست دانوں کے اندازِ حکمرانی نے اس میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے سے قبل تمام پارٹیوں کو ایک جگہ بٹھا کر تین سال کے عبوری حکومت کے قیام پر متفق کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں۔اگر بات نہیں بنتی تو اپنے گھوڑے ضرور دوڑا دیں۔

تبصرہ