مینار پاکستان میں 23 دسمبر کو 19 کروڑ عوام کا نمائندہ اجتماع
ہوگا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
یہ اجتماع 1947ء سے لے کر آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہوگا، شیخ الاسلام
نظام انتخابات میں اصلاحات کیے بغیر 100 بار بھی الیکشن کروا لیں تبدیلی نہیں آ سکتی۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
23 دسمبر کی تشہیری مہم پر عوام اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہیں۔ شیخ الاسلام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 23 دسمبر 2012ء کو وطن واپسی سے پہلے الیکٹرانک میڈیا پر ان کے انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے۔ 10 دسمبر 2012 ء کو شب 10 بجے نیوز ون پر آپ کا خصوصی انٹرویو پروگرام ‘‘معذرت کے ساتھ’’ پیش کیا گیا۔ میزبان سیفان خان کے ساتھ یہ انٹرویو لائیو نشر ہوا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ تبدیلی اور انقلاب کے نعرے تو ہر کوئی لگاتا ہے لیکن صرف نعرے لگانا اورفي الواقع تبدیلی و انقلاب كا رونما ہونا، ان دو باتوں میں واضح فرق ہے۔ اس کي وجہ يہ ہے کہ اگر یہ نظام صحیح چل رہا تو آپ تبدیلی کس چیز میں چاہ رہے ہیں؟میرا اشارہ نظام انتخاب کی طرف ہے۔ كيونكہ یہی نظام منتخب نمائندو ں کو پارلیمنٹ میں لاتا ہے۔ اگر اس نظام انتخاب میں کوئی خرابی نہیں ہےاور آپ اس کو تبدیل کرنے کی بات نہیں کرتےبلكہ اس کرپٹ سیاسی نظام میں داخل ہو رہےہیں اور اس میں آپ حصہ بھی لے رہے ہیں۔ اور اسي ميں وننگ ہارسز کھڑے کر رہے ہیں اور اس کی بنیاد پر الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں آ رہے ہیں تو پھر آپ کیسے تبدیلی لا سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ میں نے 1989ء میں پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی، موچی دروازہ میں پہلا تاریخی جلسہ کیا، جس میں ہم نے اعلان کیا تھا کہ ہم اس ملک میں الیکشن کو دو بار آزمائیں گے۔ پھر اس کے بعد الیکشن میں نہیں جائیں گے۔ بس ہم نے 1990 اور پھر 2002ء میں انتخابات میں حصہ لیا۔ 2002ء کے الیکشن میں، میں خود توممبر پارلیمنٹ بن گیا۔ لیکن میری پارٹی سے کوئی دوسرا امیدوار نہیں جیت سکا۔ میں نے وڈیروں، لٹیروں، بدمعاشوں، جاگیرداروں اور وننگ ہارسز کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیے۔ اس میں میرا قصور یہ تھا کہ میں نے الیکشن میں پی ایچ ڈیز، ڈاکٹرز، وکلاء، سائنسدانوں، صحافیوں اور دانشوروں کو ٹکٹ دیئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نظام انتخاب نے انہیں اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ اس لیے جب تک یہ نظام انتخاب ہے، اس میں انقلابی تبدیلیاں نہیں کی جا تی، اس وقت تك سو بار بھی انتخابات کروا لیں تو اس سے کبھی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
ایک سوال پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ 23 دسمبر کا اجتماع ایسا نہیں ہوگا جو لوگ تصور کر رہے ہیں۔ یہ اجتماع پوری 19 کروڑ عوام کا نمائندہ اجتماع ہوگا۔ پاکستانیوں کی تاریخ میں آپ نے کبھی اتنا بڑا پرامن اجتماع نہیں دیکھا ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں کبھی ایسا جلسہ نہیں ہوا ہوگا۔ جس میں غریب آ رہے ہیں، کسان آ رہے ہیں، تاجر آ رہے ہیں، ہر طبقہ شرکت کر رہا ہے۔ اور میں اس دن لوگوں کو مایوس واپس نہیں جانے دوں گا۔ میں اس دن لوگوں کو ایک امید اور روشن مستقبل کی کرن دے کر گھروں کو واپس بھیجوں گا۔ اس اجتماع میں کسی پارٹی پر تنقید نہیں ہوگی۔ ہم قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو جوڑ کر اس ملک کو ایک محفوظ پاکستان بنائیں گے۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ 23 دسمبر کو میری آمد کے سلسلہ میں تشہیری مہم پر جو پیسہ خرچ ہوا ہے وہ کسی کی جیب سے نہیں ہور ہا، بلکہ عوام خود اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہیں۔ تشہیری مہم میں کسی ایک بڑے تاجر کا ایک پیسہ تک نہیں ہے۔ اس میں غریب لوگ، دکاندار، چھوٹے کاروباری لوگ اور پورا معاشرہ شامل ہو گیا ہے۔ یہ وہی غریب محروم طبقات ہیں جنہوں نے 23 دسمبر کو مینار پاکستان آنے کے لیے بس بک کروانے کے لیے اپنے گھر بیچ ديے ہیں، اپنی جائیداديں بیچ دی ہيں، اپنا زیور بیچ دیا ہے۔ جس کے پاس موٹر سائیکل تھی اس نے وہ بیچ دی ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ ان کی اس کوشش سے اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
جمہوریت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال میں شیخ الاسلام نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کا نام لے لیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کو پاکستان میں کبھی داخل نہیں ہونے دیا۔ آج اگر مغربی ممالک میں جمہوری اقدار ہیں تو انہیں اس میں ایک طویل عرصہ لگا ہے۔ جس میں ان کے ہر طبقہ کا کنٹری بیوشن ہے۔ لیکن ہم نے جمہوریت کے پودے کے لیے زمین بھی تیاری نہیں کی۔ سیاسی حکومت کا یہ حال ہے کہ اس نظام ميں حقیقی جمہوریت لانے کے لیے، عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے، لا اینڈ آرڈر کے نفاذ کے لیے کوئی ایک پالیسی نہیں بنائی جاتی۔
شیخ الاسلام نے کہا : جمہوری حوالے سے میں نہ کسی مغربی طاقت کا نمائندہ ہوں اور نہ کوئی مغربی تصورِ جمہوریت لے کر پاکستان آ رہا ہوں۔ میری سوچ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور سماجی حالات اسلامی نظریہ کے مطابق جمہوری اقدار پر پروان چڑھائے جائیں۔ میں پاکستان کو پاکستان کی اپنی سرزمین کی جمہوریت کا ماڈل دینا چاہتا ہوں۔ جس کے لیے میں مغربی دنیا سے بھی جمہوری اقدار لے رہا ہوں اور اسلامی دنیا سے بھی جمہوری ماڈل لے رہا ہوں۔ چین نے آج اپنی جمہوریت کو فروغ دیا ہے۔ جب مغربی ممالک چین پر تنقید کرتے ہیں تو وہ عالمی طاقتوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی جمہوری اقدار ہیں۔ آپ کون ہوتے ہیں ہمیں پوچھنے والے۔ میں 23 دسمبر کو یہی بتانے آ رہا ہوں کہ ہمیں ایک ایسے جمہوری ماڈل کی ضرورت ہے جو پاکستان کے حالات کے مطابق ہو۔ میں اس دن پاکستان کو پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے لوگوں نے ہوائی جہاز کے اندر کار کے پرزے فٹ کر دئیے ہیں۔ میں جمہوریت کی گاڑی کے لیے ان پرزوں کو الگ الگ کرنا چاہتاہوں۔
انہوں نے موجودہ حکومت کے حوالے سے کہا کہ 5 سال مکمل کرنا یا نہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔ جو لوگ آج حکمران ہیں، ان کو کس نے روکا ہے کہ ملک میں مہنگائی ختم نہ کی جائے، ملک سے کرپشن ختم نہ کی جائے، ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر نہ کی جائے، ملک میں بہتر حالات کے لیے قانون سازی نہ کی جائے۔ انہیں کس نے روکا ہے کہ ملک میں پانی، بجلی اور گیس فراہم نہ کی جائے۔ اگر آج پارلیمنٹ اس پر قانون سازی کرے تو انہیں کون روکتا ہے؟
اس ملک میں نہ کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ كےلیےاور نہ کسی فن رکھنے والے چھوٹے ہنر مند کے لیے ملك كي خدمت کےمواقع ہیں۔ آج ہمارا ڈاکٹر، انجينئر سمیت نچلے تکنیکی طبقات میں سے مستری، ترکھان، مزدور اور غرضیکہ ہر فن رکھنے والا ملک سے باہر جانے پر مجبور ہے۔ حکومت کو کس نے روکا ہے کہ وہ ملک میں ایسے لوگوں کو مراعات نہ دے۔
میزبان سفان خان کے ایک سوال پر آ پ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ عوام جن نمائندوں کو منتخب کر کے آگے بھیجتی ہے ان کو یہ بھی اختیار ہو کہ جو ان کی توقعات پر پورا نہ اتریں انہیں اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ ايك سوال كے جواب میں آپ نے کہا :جب عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا تو پھر لوگ سٹرکوں پر کیوں آئیں گے؟
آج ملک میں جو نظام نافذ ہے اس نے غریب عوام کو زندہ نگل لیا۔ اس کو خود کشی پر مجبور کر دیا۔ اس نظام نے لوگوں سے روزگار چھین لیا، روزی روٹی چھین لی، اگر آپ اسی نظام کا حصہ بننے جا رہے ہیں تو پھر آپ کو تبدیلی کا نعرہ نہیں لگانا چاہیے۔ ہم سیاست کی بجائے، ریاست کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمارا کسی اور سے موازانہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
آخر میں میزبان سفان خان نے ایک سوال پوچھا کہ آپ 23 دسمبر کو جو جلسہ کر رہے ہیں، کیا یہ سب کچھ کسی خاص اشارے پر ہو رہا ہے؟ اس سوال پر شیخ الاسلام نے کہا: میں کسی ایسٹبلشمنٹ کو نہیں جانتا۔ میں صرف پاکستان کو جانتا ہوں۔ یہ سارا کام مجھ سے صرف پاکستان کروا رہا ہے۔ یہ سارا کام پاکستان ميں رہنے والی19 کروڑ عوام کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ نہ میرا کسی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ ہے اور نہ میں رابطہ کرنے والا ہوں۔ میرا رابطہ صرف خدا اور مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ اللہ کی مدد سے اور تاجدار کائنات کے نعلین پاک کے تصدق سے میں صرف پاکستان کے اجڑے اور محروم عوام کے لیے آ رہا ہوں۔ میں پاکستان کی اگلی نسلوں کو بچانا چاہتا ہوں۔ پاکستان کے مستقبل کو بچانا چاہتا ہوں۔ میں جو پروگرام دوں گا وہ زندگی کے ہر شعبے میں خوشحال تبدیلی لائے گا۔
تبصرہ