تحریر : قیوم نظامی
پاکستان سیاست اور جمہوریت کے ذریعے معرض وجود میں آیا۔ تحریک پاکستان کے دوران سیاست اور جمہوریت عبادت اور اُمید کا نام تھا۔ لوگ سیاست کے گرویدہ تھے ان کا یقین محکم تھا کہ سیاست اور جمہوریت ان کے مسائل کو حل کر کے انہیں عزت کے ساتھ جینے کا حق دے سکتی ہے۔ افسوس آج سیاست اور جمہوریت سے ہی لوگ بے زار نظر آتے ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کے موجودہ ماڈل نے عوام کو عاجز اور بے بس کر کے رکھ دیا ہے.... میرا جینا ہے سیج کانٹوں کیان کے مرنے کا نام تاج محل سیاست کے ذریعے ہی ریاست کو محفوظ اور مستحکم بنایا جاسکتا ہے البتہ سیاست شیطانی نہیں بلکہ روحانی ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری ایک مستند سکالر ہیں جن کی اسلامی، سماجی، سیاسی اور عالمی امور پر گہری نظر ہے۔ سینکڑوں کتب اور ریسرچ پیپرز کے مصنف ہیں ان کو دور حاضر کے بڑے دانشوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور، فلسفہ اور فکر کے قائل ہیں اور نیک نیتی کے ساتھ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسی مثبت تبدیلی لائی جائے جس کے نتیجے میں پاکستان صحیح معنوں میں قائد اور اقبال کا پاکستان بن جائے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ازخود جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آنے کا اعلان کیا ہے اور قوم کو یہ سلوگن دیا ہے ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“۔ ان کے اس سلوگن سے بعض حلقوں میں غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئی ہیں کیونکہ ماضی میں آمر جرنیل بھی اپنے اقتدار اور کارپوریٹ مفاد کی خاطر اسی نوعیت کے سلوگن استعمال کر کے سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کینڈا سے فون پر وضاحت کی کہ وہ سیاست نہیں بلکہ موجودہ استحصالی سیاسی نظام اور ”سٹیٹس کو“ کے خاتمے کی بات کررہے ہیں اور عوام کے سامنے ایسا متبادل انقلابی فلاحی اور حقیقی جمہوری نظام رکھنا چاہتے ہیں جو موجودہ آئین کے مطابق ہوگا جس سے عالمی قوتیں خوفزدہ نہیں ہوں گی اور جو عوام کے دکھوں کا مداوا ہوگا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا موقف ایک کتابچے میں تفصیل کے ساتھ پیش کر دیا ہے جس کا تجزیہ کرنے کے لیے الگ کالم درکار ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ذاتی تجربے اور سنجیدہ غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ انتخابی نظام عوام کے مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتا لہٰذا اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب تبدیلی کے راستے کے بارے میں لکھتے ہیں ”تبدیلی مسلح طاقت سے نہیں آ سکتی یہ دہشت گردی کا راستہ ہے نہ فوج کے ذریعے آسکتی ہے کیونکہ یہ آمریت کا راستہ ہے اور نہ موجودہ نظام کے ذریعے کیونکہ یہ کرپشن جاری رکھنے کا راستہ ہے.... اس قوم کے نوجوان اور پڑھے لکھے لوگ اگر وقار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور بزرگوں کا حاصل کیا ہوا یہ وطن عزیز غیروں کے ہتھے چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا صرف اور صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نظام انتخاب کے خلاف بغاوت کے لیے کھڑے ہوجائیں“۔
ڈاکٹر صاحب ریاست کے سیاسی، سماجی اور معاشی امراض کی درست تشخیص کر رہے ہیں۔ پاکستان کے باشعور عوام ان کی تشخیص سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کے نسخہ کیمیا کا انتظار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے قوم کو مینار پاکستان پر نسخہ کیمیا دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا وعدہ ہے کہ وہ 23 مارچ 1940ء کی طرح 23 دسمبر 2012ء کو مینار پاکستان پر ایک نئی قرارداد پاکستان پیش کریں گے جو اٹھارہ کروڑ عوام کے دلوں کی ترجمان ہوگی۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی نیت پر شک نہیں ہے البتہ ماضی میں سیاسی اور مذہبی رہنما مقتدر عالمی اور قومی قوتوں کو متاثر کرنے کے لیے بلند بانگ دعوے کر کے عوام کو بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ کیا ڈاکٹر صاحب کی دلی خواہش صرف یہ ہے کہ ان کا استقبال تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ ہو یا واقعی وہ عوام کا تعاون حاصل کر کے موجودہ استحصالی نظام کو جڑ سے اُکھاڑ دینا چاہتے ہیں اس کا اندازہ ان کے تاریخی خطاب سے ہوگا۔ کسی ٹھوس، واضح اور قابل عمل متبادل قومی ایجنڈے کے بغیر عوام کو آنے والے انتخابات کے خلاف بغاوت پر اُبھارنا انتہائی ناانصافی اور ظلم ہوگا۔ بے مقصد اور بے نتیجہ ڈرامے سے عوام کو تو کچھ حاصل نہیں ہوگا البتہ ان خفیہ عناصر کو تقویت ضرور ملے گی جو ایک بار پھر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازشیں کررہے ہیں اور دو سالہ ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا استقبال ان کی زندگی کا آخری امتحان ہے ہماری دعا ہے کہ وہ اس امتحان میں سرخرو ہوں اور عوام کو ایک ایسا قومی ایجنڈا دینے میں کامیاب ہوجائیں جو پاکستان اور عوام کیلئے آب حیات ثابت ہو۔
عوام کو سیاسی لٹیروں اور فصلی بٹیروں سے نجات دلانے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کرائے جائیں۔ رائے دہندگان براہ راست سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیں اور جماعتوں کو حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے نشستیں الاٹ کی جائیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کیلئے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں، وکیلوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، خواتین، اقلیتوں، صحافیوں، تاجروں، اساتذہ، ٹیکنو کریٹس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا آبادی کے تناسب سے کوٹہ مخصوص کیا جائے تاکہ اسمبلیاں حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندہ بن سکیں اور ان پر جاگیرداروں کی بالادستی کا خاتمہ ہوجائے۔ پارلیمانی نظام کی ناکامی کے بعد صدارتی نظام بھی سودمند ہوسکتا ہے جس میں صدر کو براہ راست ووٹ دے کر منتخب کیا جاتا ہے اور صدر میرٹ پر کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب اپنی تحریک کی کامیابی کیلئے 23 دسمبر کو انقلابی ایجنڈا پیش کریں جس میں قوم سے وعدہ کیا جائے کہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار یا دس ہزار روپے ماہانہ الاؤنس دیا جائے گا۔ بے گھر خاندانوں کو تین سے پانچ مرلے کا پلاٹ اور بلاسود قرضہ دیا جائےگا۔ 25 ایکٹر فی خاندان سے زیادہ اراضی واپس لے لی جائےگی۔ یکساں نصاب کے تحت میٹرک تک مفت تعلیم دی جائےگی۔ ایس ایچ او کا تعلق متعلقہ علاقے سے ہوگا جسے عوام کی کمیٹی منتخب کرے گی۔ وی آئی پی کلچر ختم کردیا جائے گا۔ قومی ایجنڈا ایسے نکات پر مشتمل ہونا چاہئے جس پر واضح اکثریت کا اتفاق ہو۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے رفقاء قومی ایجنڈے کی بنیاد پر عوام کو متحد، منظم اور فعال بنائیں اور عوامی طاقت سے اقتدار پر قبضہ کر کے قومی ایجنڈا نافذ کریں۔ اگر ایک جرنیل اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے تو عوام کیوں نہیں کرسکتے۔ ملک معراج خالد اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ منظم عوامی طاقت کے ذریعے ریاست پر اقلیت کی بجائے اکثریت کی بالادستی قائم کی جائے.... چہرے بدلو نظام بدلولوٹ کھسوٹ کا راج بدلو
تبصرہ