شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی وطن واپسی سے قبل ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر انٹرویوز کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ 14 دسمبر 2012ء کو بی بی سی اردو سروس کے ممتاز براڈ کاسٹر ثقلین امام نے آپ کا ٹیلی فونک انٹرویو کیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ وہ ملک کے جمہوری اور سیاسی نظام کے فروغ پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور یہ تاثر سراسر غلط اور بے بنیاد ہے کہ وہ انتخابات کو ملتوی کروانے یا انتخابات کو ختم کروانے کے لیے پاکستان جارہے ہیں۔ انتخابات اصلاحات کے بغیر نہیں ہونے چاہییں ورنہ اس ملک میں وہی کچھ ہوگا جو انتخابی تاریخ کے پچھلے ساٹھ سال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ آپ نے مزید کہا کہ اگر اس ملک کی تاریخ سے فوجی آمریت کے 30 برس نکال دیے جائیں تو پھر بھی تیس پینتیس سال نام نہاد جمہوری حکومت رہی ہے۔ اس ملک کی نام نہاد جمہوریت کا یہ عالم رہا کہ فوجی طالع آزماؤں نے آ کر جمہوریت کا خاتمہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب سیاسی حکومتیں آتی ہیں تو سیاسی حکمران بھی سیاسی طالع آزما بن جاتے ہیں۔ وہ کسی اعتبار سے بھی فوجی آمروں سے کم نہیں ہوتے۔ ان میں اور فوجی آمروں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ فوجی آمر اپنے دور میں پاکستان کا آئین معطل کردیتے ہیں جبکہ سیاسی آمر انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آ کر ملک میں آئینیت اور دستوریت معطل کردیتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ آج سیاسی حکومت مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزادی کیوں نہیں ہے؟ اس لیے کہ اس ملک میں سیاسی لیڈر اہل اور باصلاحیت نہیں ہیں۔ اس ملک اور قوم کی سالمیت اور آزادی و خود مختاری برقرار رکھنا سیاسی لیڈروں کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہے۔ سیاسی حکومت کی ترجیحات میں صرف کرپشن اور مال بنانا ہے اور اپنے اگلے دور اقتدار کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی حکومتوں کا تو یہ حال ہے کہ یہ کبھی بھول کر بھی اپنے ملک کی آزاد خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آج اس ملک کا سب سے بڑا اور گھناؤنا مسئلہ دہشت گردی ہے جس نے گزشتہ ایک دہائی سے اس ملک کو گھیرا ہوا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف کوئی مؤثر قانون اور پالیسی نہیں بن سکی بلکہ چار سال سے یہ قانون ٹیبل پر پڑا ہے۔
آج انتخابی نظام کے بدلنے اور دہشت گردی کے خاتمے کا باہمی تعلق یہ ہے کہ جو لوگ اُسی فرسودہ اور سرمایہ دارانہ نظام انتخاب سے مسلسل ایک میدان مارتے چلے آ رہے ہیں، ان کے اندر نظام بدلنے کی خواہش ہے نہ نظام بدلنا ان کی ترجیح ہے اور نہ انہیں یہ فکر ہے کہ آج حالات کے ہاتھوں لوگ ذبح ہو رہے ہیں، مر رہے ہیں، بم بلاسٹ ہو رہے ہیں اور مسجدیں و امام بارگاہیں برباد ہو رہی ہیں۔ اس ملک میں دہشت گردی کو ختم کر کے امن و امان کے قیام کا ایجنڈا کسی سیاسی حکومت کی ترجیح ہی نہیں رہا۔
’’کیا اس ملک میں عمران خان تبدیلی لاسکتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں شیخ الاسلام نے کہا کہ کوئی بھی شخص، جو اس ملک کے مروجہ انتخابی نظام میں داخل ہوگ اور انقلابی اصلاحات کے بغیر اس انتخابی نظام کا حصہ بنے گا تو وہ اس نظام میں 50 سال بھی گزار لے تو کبھی تبدیلی نہیں لاسکتا۔
’’پاکستان میں کیسا نظام ہونا چاہیے، جس کے آپ حامی ہیں؟‘‘ ثقلین امام کے اس سوال پر شیخ الاسلام نے کہا کہ نظام پر میں اس وقت تفصیل سے بات نہیں کروں گا، چند ٹھوس تبدیلیوں کی میں اس وقت نشان دہی کرسکتا ہوں۔ وہ یہ کہ آج کوئی سیاسی جماعت ایسے پڑھے لکھے،قابل اور شریف النفس شخص کو ٹکٹ دینے پر تیار نہیں جس کا آئین آرٹیکل نمبر 62 اور 63 کے مطابق تقاضا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کو پارٹی کا ٹکٹ ملتا ہے تو اُس کے ٹکٹ کی ابتداء ہی دو، اڑھائی کروڑ روپے کے پارٹی فنڈ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد کوئی شخص جس کے پاس دھن، دھونس اور دھاندلی نہیں ہے، وہ کیسے اس ملک میں الیکشن جیت سکتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ میں اس ملک میں ایک انتخابی ماڈل تیار کرنا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں سیاسی جماعتیں اپنے ٹکٹ فروخت کرنا چھوڑ دیں۔ ہم اپنے نظام میں سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ بیچنے پر پابندی لگا دیں گے۔ اس کے بعد بڑے بڑے جلسے اور انتخابی مہم جس پر دس بیس کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے، اسے مکمل طور پر بین کردیں گے۔ اس کے ساتھ ہمارا یہ منصوبہ ہے کہ کسانوں کا نمائندہ کسانوں میں سے اسمبلی میں آئے۔ تاجروں کا نمائندہ تاجروں میں سے اسمبلی میں آئے۔ میں مزدوروں کا نمائندہ مزدوروں میں سے، صحافیوں اور وکلاء کا نمائندہ صحافیوں اور وکلاء میں سے اسمبلی میں پہنچانا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ چین میں جو دستوری ماڈل ہے، اس میں سے صرف یہ شق میں نے اپنے نظام میں شامل کی ہے کہ ملک میں جتنے طبقات ہیں، وہ طبقات براہ راست اپنا نمائندہ مکمل میرٹ پر منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجیں۔
’’ کیا آپ نے کبھی کسی حکومت یا برسر اقتدار شخص سے مراعات لیں؟‘‘ اس سوال پر آپ نے کہا کہ میں نے، میرے ادارے یا میری تحریک نے اپنی پوری زندگی میں ساری روئے زمین پر موجود کسی بیرونی طاقت اور پاکستان کے اندر کسی وفاقی صوبائی حکومت سے آج تک ایک پائی بھی وصول نہیں کی ہے۔
Blasphemy Law کے حوالے سے آپ نے کہا کہ میں نے اس Blasphemy Law کو عدالت میں Establish کیا تھا مگر وہ اس کا Substantive حصہ تھا۔ قانون کے دو طریقے ہوتے ہیں: ایک محض انبیاء کی گستاخی کی سزا کیا ہے؟ بس سزا کے Quantum پر میں نے دلائل دے کر Establish کیا تھا۔ جو قانون کا Procedural طریقہ ہے کہ یہ قانون نافذ کیسے ہو گا، اس سے مجھے اختلاف رہا ہے، اول دن سے آج تک۔ باہر کے ممالک میں میں نے جب بھی بات کی ہے تو صراحتا کہا ہے کہ میں اس کی سزائے موت کے حق میں ہوں۔ چونکہ یہ سزائے موت Blasphemy پر بائبل نے دی ہے، یہودیوں کے ہاں بھی تھی اور Gospel (انجیل) میں بھی ہے اور قرآن میں بھی ہے ۔ میں نے وہاں چیلنج کر کے کہا ہے کہ جو سزا اللہ نے تورات میں بھی رکھی، انجیل میں بھی رکھی، قرآن میں بھی رکھی، میں اس کی مخالفت کیسے کر سکتا ہوں؟
اس حوالے سے میں اس قانون میں ٹھوس اصلاحات (Procedural Reforms) کا قائل ہوں کہ اس کی اصلاحات اس انداز کے ساتھ ہونی چاہئیں کہ Black Mailing نہ ہو، کسی کو Target نہ کرے اور کمزوروں کے خلاف اسے ناجائز Tools کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ اس کی FIR درج ہونے کا طریقہ، اس کی شہادتوں کا طریقہ، اس کا پورا ٹرائل، اس کی سزا اور دیگر بہت سے Parameters ہیں جو اصلاحات مانگتے ہیں تاکہ ہر قسم کے غلط استعمال کا امکان ختم ہو جائے۔
انٹرویو کے آخر میں ایک سوال کہ ’’دہشت گردی کے خلاف آپ نے جو فتوی دیا ہے، اس کے بعد پاکستان میں آپ کی زندگی محفوظ رہے گی؟‘‘ کے جواب میں شیخ الاسلام نے کہا کہ مجھے اس بات کی فکر نہیں ہے کیونکہ زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ میں نے اپنے ایمان، اپنے دین اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا قومی و ملی اور ایمانی فریضہ سمجھ کر فتویٰ دیا ہے۔ میں ایک بڑے عزم و مشن اور بڑی Cause کے ساتھ پاکستان واپس جا رہا ہوں۔ قائد اعظم کا مشن جو یقین، اتحاد اور ڈسپلن (تنظیم) پر مشتمل تھا، آج اس ملک اور اس قوم کی بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے پاکستان واپس جا رہا ہوں۔ یہ ایک پُر امن جنگ ہے، جس میں لوگوں کو نفرتوں سے نکال کر اعتدال کی طرف، کرپشن سے نکال کر دیانت کی طرف اور غریب عوام کو مایوسیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جانے کے لیے پاکستان جا رہا ہوں۔
تبصرہ