شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سیاسی آمریت قائم ہے، ہماری عوام کو جمہوریت کی شکل بھی نہیں دکھائی گئی، میں قائد اعظم کی سیاست کا علمبردار ہوں، جو ریاست کی بقا کی ضامن ہے، میں اس سیاست کا علمبردار ہوں، جو عوام کو ان کے حقوق دے سکے۔ میں اس نظام کے خلاف ہوں جو لوٹ مار کو سیاست کا نام دیا جا چکا ہے۔ میں وطن عزیز میں صاف ستھری سیاست کی بحالی چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کی بات سراسر الزام ہے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرا ایجنڈا حقیقی جمہوریت اور آئین کے خلاف ہو تو میڈیا کو اس کی مخالفت کا حق ہے۔ عوام کو حقوق دلانے تک ان کی جنگ لڑوں گا، ان کا کہنا تھا کہ میں انتخابی نظام کا مخالف نہیں، بلکہ اس میں اصلاحات چاہتا ہوں، آج سیاست کو نہیں بلکہ ملک کے وجود کو بچانے کی ضرورت ہے۔ 23 دسمبر ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا اور عوام کے مقدر بدلنے کے لیے ایک نیا سفر شروع ہوگا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ اسلام اور امت کو دہشت گردی کا الزام لگا کر بدنام کیا جا رہا ہے۔ میں اسلام کے پرامن چہرے کو دنیا میں روشناس کرا رہا ہوں، میں نے امت مسلمہ کے وکیل کی حیثیت سے اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ آج دہشت گردی فقط عالم اسلام کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ افواج پاکستان، عدلیہ، میڈیا، پارلیمنٹ اور ملک کی سیاسی جماعتوں کو 23 دسمبر کو پیغام دوں گا، جو اس دھرتی پر تبدیلی چاہتے ہیں، وہ 23 دسمبر کو گھر نہ بیٹھیں، باہر نکل کر ظلم کی دیواروں کو گرانے کا عزم کریں۔ 23 دسمبر کو عوام پاکستان کا بدعنوانی، ظلم، بیروزگاری اور کرپشن کے خلاف پرامن احتجاج ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہاں میں کرپشن، بدعنوانی، استحصال، موجودہ ظالمانہ انتخابی نظام، آمرانہ سوچ اور بددیانتی کیلئے خطرہ ہوں۔ روئے زمین پر کسی ملک، ادارے، حکومت اور ایجنسی نے مینار پاکستان کے اجتماع کیلئے معاونت نہیں کی۔ اس میں میرے کارکنوں نے پوری دنیا سے حصہ ڈالا ہے، خواتین نے زیور تک بیچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کا 90 ملکوں میں نیٹ ورک ہے، لاکھوں کارکن ہیں، ہمیں محتاجی نہیں ہے۔ وقت آنے پر پوری دنیا میں موجود پاکستانی ملک کا قرضہ بھی اتار دیں گے۔ جتنے سوال بھی میرے آنے کے حوالے سے گردش کر رہے ہیں، ان کا جواب اپنے خطاب کے پہلے پانچ منٹ میں دے دونگا۔
تبصرہ