پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری کے چودہ جنوری کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔
اس طریقے کے تحت ٹریفک پولیس اور تھانوں میں تعینات پولیس اہلکار کنٹینروں کے ڈرائیوروں کو یہ کہہ کر بند کر رہے ہیں کہ ’اُن کے کنٹینر میں بارودی مواد موجود ہے‘۔
ان پولیس اہلکاروں کو اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات کیا گیا ہے جو مختلف علاقوں سے سازوسامان لے کر آنے والے کنٹینروں کے ڈرائیوروں کو زبردستی اور بعض اوقات اسلحہ کے زور پر روک کر کہتے ہیں کہ اُنہیں اپنے ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ اِن کنٹینروں میں اسلحہ اور بارودی مواد موجود ہے لہذا ان گاڑیوں کو بارودی مواد اور اسلحہ کی نشاندہی کرنے والے سکینرز سے گُزارا جائے گا جس کے بعد اُنہیں جانے کی اجازت دی جائے گی۔
واضح رہے کہ وزارتِ داخلہ نے اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے ایک منصوبے کے تحت شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر دو ایسے سیکنرز لگائے تھے جس سے بارود سے بھری گاڑیوں کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔
طاہر القادری کے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے اعلان کے بعد وہاں کی ضلعی انتظامیہ نے سکینرز ہٹا کر ’محفوظ مقام‘ پر منتقل کر دیے ہیں۔
ایک متاثرہ ڈرائیور محمد لطیف کا کہنا تھا ’میں ساہیوال سے سامان لےکر پشاور جا رہا تھا کہ اسلام آباد ہائی وے پر مجھے پولیس اہلکاروں نے روک لیا اور کہا کہ اطلاعات کے مطابق اُن کے کنٹینر میں بارودی مواد ہے لہذا میں قانون کا احترام کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے ساتھ چل پڑا جب کنٹینر کنوینشن سینٹر پر پہنچا تو وہاں دیکھا کہ وہاں کئی اور کنٹینرز پہلے سے موجود ہیں۔‘
محمد لطیف کے بقول پولیس اہلکاروں نے اُن سے کنٹینر کی چابی اور کاغذات بھی لے لیے اور کہا کہ وہ اور ان کا کنٹینر لانگ مارچ کے ختم ہونے تک یہیں رہے گا۔
ایک اور کنٹینر ڈرائیور جاوید محمود نے الزام عائد کیا کہ جن ڈرائیوروں نے پولیس اہلکاروں کو پیسے دیے تو اُنہیں فوری طور پر جانے کی اجازت دے دی گئی جبکہ پولیس اہلکاروں کی بات نہ ماننے والے ڈرائیوروں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
ڈرائیور شبیر حسین کے بقول وہ روزانہ اُجرت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور اب اگلا ایک ہفتہ وہ بے روزگار ہی رہے گا اور اُنہیں معلوم نہیں کہ اُن کے گھر والے کیسے گُزارا کریں گے۔
کنوینشن سینٹر میں درجنوں کنٹیر پہلے سے موجود تھے جن کے ڈرائیور حضرات اس بات کا گلہ کرتے ہوئے دکھائی دیے کہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے انہیں دو وقت کی روٹی دینے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور وہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے بھوکے ہیں کیونکہ انہیں باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
اسلام آباد پولیس نے ان ڈرائیوروں پر نظر رکھنے کے لیے وہاں پر پولیس اہلکار بھی تعینات کردیے ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک سو سے زائد کنٹینروں کو اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ روکنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق انہیں پانچ سو کے قریب کنٹینروں کو روکنے کا کہا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر ریڈ زون اور ڈپلومیٹک انکلیو کے سامنے رکھے جائیں گے۔
چیف کمشنر اسلام آباد طارق پیرزادہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کنٹینروں کے مالکان کو کرایہ ادا کیا جائے گا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کنٹینر مالکان کو کتنی رقم ادا کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ اور دیگر افسران کنٹینروں کے مالکان سے اس حوالے سے مذاکرات کر رہے ہیں۔
تبصرہ