ڈاکٹر طاہر القادری کی الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے خلاف درخواست اور سپریم کورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد… سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے خلاف آئینی تقاضوں کے مطابق تشکیل نو سے متعلق ڈاکٹر طاہر القادری کی درخواست سماعت کے تیسرے روز خارج کردی ہے۔ جس کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی سماعت میں پہلا سوال میرے locus standi کے بارے میں تھا اور اصل کیس یعنی "الیکشن کمیشن کی آئینی تقاضوں کے مطابق تشکیل نو" کی سماعت شروع ہی نہیں ہوئی تھی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے اور میں چیلنج کے ساتھ کہ رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل اور اراکین کی تقرری سے قبل پاکستان کے آرٹیکل 213 کے تحت جو سماعت ہونی تھی، وہ سماعت ہی نہیں ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مقدمہ کی سماعت میں پارلیمانی کمیٹی کا ریکارڈ منگوایا جاتا اور اس کے چیئرمین سید خورشید شاہ صاحب کو بلایا جاتا، کیمرہ منگوایا جاتا، proceedings of the meeting منگوائی جاتیں۔ تب minutes of the meeting کے مندرجات سے معلوم ہوجاتا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے وقت سماعت نہیں ہوئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں بھی اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے یہ غیر آئینی تشکیل تھی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ پہلے دن چند منٹس کا وقت ملا اور کل اور آج سماعت ہوئی ہے۔ دو دنوں کی سماعت میں صرف locus standi کو زیر بحث لایا گیا ہے جس میں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت پٹیشن دائر کرنے والا entitled ہے۔ میں نے عدالتی فیصلہ جات کے چھ PLDs کے بھی حوالے دیے کہ اگر کوئی معاملہ قومی مفاد اور عوامی دل چسپی کا ہو اور بنیادی حقوق مجروح ہوں تو کوئی تیسری چیز پوچھنے کی اجازت نہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے بتایا کہ عدالت نے اصل کیس پر آنے کی بجائے پہلے دن سے ہی میری دہری شہریت کا مسئلہ اٹھایا۔ میں سپریم کورٹ کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے پوری قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے دو دن میں اصل پٹیشن کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھنے دیا گیا۔ کل جب میں نے پٹیشن پڑھنا شروع کی تو عدالت نے ایک لفظ بھی سنے بغیر سب سے پہلے دہری شہریت کا سوال کیا۔ یوں سارا دن دہری شہریت کے تصور پر حملے ہوتے رہے حالانکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھوں پاکستانی وطن عزیز کے سچے وفادار ہیں۔ یہ دہری شہریت رکھنے والے ہی پاکستان کی معیشت میں اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بھیجتے ہیں۔ انہی کے مالی تعاون سے یہاں کے لوگ اور ادارے تنخواہیں لیتے ہیں۔ ملکی معیشت میں ان کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ دہری شہریت دوسرے ملک کے قانون اور حلف کے تحت ہوتی ہے۔ اس قانون اور حلف کو بنیاد بنا کر میری اور کئ ملین پاکستانیوں کی وفاداری پر حملہ کیا گیا ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلق کو مشکوک بنایا گیا ہے۔ لہٰذا میں نے چیف جسٹس صاحب کو کہا کہ آپ نے خود پرویز مشرف کی آمریت کے تحت حلف لیا تھا؛ آپ نے پہلے آئین پاکستان کا حلف لے کر ایک وفاداری لی، دوسری وفاداری پرویز مشرف کی آمریت سے LFO کے تحت لی ۔ اگر دو حلف لینے سے آپ کی وفاداری مشکوک نہیں ہوتی تو میری وفاداری کس طرح مشکوک ہوتی ہے؟ مستزاد یہ کہ جب آپ بحال ہوئے تو آج تک آپ نے آئین پر نیا حلف نہیں لیا بلکہ پرویز مشرف والے اسی حلف کی بناء پر یہاں موجود ہیں۔ لہٰذا میں یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ وہی چیف جسٹس نہیں ہیں جن کا پہلا حلف آئیں پر تھا اور دوسرا حلف پرویز مشرف کے LFO پر تھا؟

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ جہاں تک پٹیشن خارج ہونے کا تعلق ہے تو عدالت سماعت کے بغیر کل ہی اپنا ذہن بتا چکی تھی۔ آج کے تمام اخبارات میں سرخیاں لگی ہوئی ہیں کہ "الیکشن کمیشن کو نہیں توڑا جائے گا"، "سیاسی نظام لپیٹنے کی کسی غیر ملکی کو اجازت نہیں دی جائے گی"۔ ڈاکٹر قادری نے کہا کہ مجھے غیر ملکی کہ کر توہین کی گئی ہے۔ میں پاکستانی ہوں، پاکستان کا آئین و قانون دوسرے ملک کی شہریت کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ "دہری شہریت والا نظام بدل نہیں سکتا" اور "غیر ملکی" کہنا میری اور ملین پاکستانیوں کی توہین ہے۔ یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے اور قطعا آئین و قانون کے مطابق نہیں دیا گیا بلکہ بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہے۔ یہ فیصلہ کئی ملین پاکستانی شہریوں کے حقوق کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور پاکستان کا آئین و قانون مجھے بھی اس حق سے محروم نہیں کرتا۔

تبصرہ