شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القا دری کی سالگرہ کے حوالے سے خصوصی تحریر
شاہد جنجوعہ (ھیلی فیکس)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یومِ قیامت انسان بارگاہ الہٰی سے ہٹ نہ سکے گا جب تک وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے لے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان تونے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات دنیا میں کس طرح بسر کیے۔
زندگی قدرت کی عظیم نعمت اوربیش بہا عطیہ ہے لیکن زندگی گزارنے کا سلیقہ اس سے بھی بڑی نعمت ہے اگر سلیقہ نہ ہو تو ہر نعمت بالآ خر مصیبت میں ڈھل جاتی ہے اور وبال جان بن جاتی ہے۔ محض زندگی گزارنا اور بات ہے مگر اس کے ایک ایک لمحے کو معتبر جانتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کو مقصدِ بنا کر اس کی تکمیل میں جُت جانا با لکل ایک الگ بات ہے۔ اس مقصد کی آگہی کے بغیر زندگی گزارنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر اجنبی راہوں پر بھٹکتا چلا جا رہا ہواور اسے منزل کی خبر ہی نہ ہو۔ ایک عام انسان اور نابغہءعصر میں فرق یہی ہے کہ اُس کی زندگی کے مقاصد بڑے واضح، ارادے بلند، عزم میں پختگی، سوچ میں پاکیزگی اور جدوجہد میں قوم کے دکھوں اور مسائل کے حل کا ایک میلان ہوتا ہے جس کے لیے وہ پُر امن جدوجہد کے تمام راستے تراشتا ہوا کسی دُنیاوی مصلحت اور ذاتی عزت و شُہرت کے چھِن جانے کے خوف کیے بغیر چلتا رہتا ہے۔ اُس کی آواز میں ایک درداور اس کی پُکار میں ایک پیغام ہوتا ہے۔ انہی نابغہ روزگار ہستیوں میں ایک شخصیت ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی ہے جن کی اب باسٹھویں سالگرہ ان کے لاکھوں چاہنے والے پوری دنیا میں ایک انوکھے انداز و جذبے سے منا رہے ہیں۔
دنیا میں انقلابی شخصیات کی زندگیاں مخالفت اور محبت کی ڈوروں سے بندھی ہوتی ہے۔ ایسی انقلابی شخصیات مخالفین کے پروگنڈے سے بچاؤ کی خاطر اپنے راستے کبھی نہیں بدلتیں۔ وہ ہر گام نئے احباب کو دعوت ِ فکر دیتے ہوئے اپنا حلقہ ارادت بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ اگر اُن کی زندگی کے نشیب و فراز کا جائزہ لیں تو بڑے بڑے پیچیدہ معاملات اور مسائل کو جرات و حوصلہ اور استقلال کے ساتھ سُلجھانے کی صلاحیت کی وجہ سے اُن کے ناقدین بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے، کیونکہ ایسے انقلابی لیڈر نہ تو حالات سے کنارہ کشی اختیار کر کے دنیا میں گوشہ نشین ہوتےہیں اور نہ اپنی توانائیانں بلا ضرورت مخاصمت اور تصادم میں ضائع کرتے ہیں۔ ان کا مطمہ نظر تشدد کو محض تشدد کے زریعے ختم کرنا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹرمحمد طاہر القادری پر، اُن تنقید کرنے والوں کو دعوتِ فکر دی جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ایک شخص 23 دسمبر 2012 ء کو یکا یک سیاسی اُفق پر نمودار ہوتا ہے اور ایک چلتے نظام کو تلپٹ کرنے کا اعلان کردیتا ہے اس دوران و ہ ایک دم سے ہر ٹاک شو اور ہر خبر کا عنوان بن جاتا ہے۔ یہی وہ دلیل جس کو بنیاد بنا کر اس مُلک کے منصفین نے نہ صرف اُن کی بات سننے سے انکار کر دیابلکہ ان کی نیت کو بھی مشکوک سمجھا، اور یوں قانونی آئینی سُقم کی جانچ پڑتال کرنے اور اس کے پسِ پردہ محرکات کا جائزہ لینے کی بجائے سیاسی نوعیت کا فیصلہ دے دیا۔
حیرت کی بات ہے کہ جو شخص جھنگ میں پیدا ہوتا ہے، پنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ ترین اعزازت کے ساتھ ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریزحاصل کرتا ہے اور بچپن سے لے کر ہر محاذ پر، ہر موڑ پر اتنے انقلابی خیالات، اپنی تحریروں اور اپنی تقریروں کے ذریعے تسلسل سے عوام تک پہنچاتا ہے وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے نوجوانوں کی کھیپ تیار کرتا ہے، انہیں عصرِ حاضر کے چیلنج سے نپٹنے کے دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے اور پھر تعلیمی اداروں کا ایک جال پورے ملک میں بچھا دیتا ہے جو نہ صرف اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں بلکہ بہترین نتائج بھی دے رہے ہیں۔ وہ جن انقلابی خیالات کا اظہار کرتا ہے ان کی عملی تعبیر حاصل کرنے کے لیے معاشرے میں اہلِ بصیرت لوگوں کودعوت دے کر اکٹھا کر کے اپنی ٹیم کا حصہ بناتاہے اور پھر انقلاب کے اس سفر پر چلتے ہوئے غربت، جہالت، دہشت گردی اور خودی سوزی کی بھینٹ چڑ ھ جانے والے بچوں کے لیے" آغوش" جیسے اعلیٰ ادارے کا قیام عمل میں لاتا ہے۔ وہ جب ملک و قوم کو جہالت کے اندھروں میں ڈوبتے دیکھتا ہے تو ایک جدید یونیورسٹی، سیکڑوں کالجوں اور سکولوں کا ملک میں جال بچھا دیتا ہے۔ ہر شہر اور ہر گاؤں میں اسکے چاہنے والے اس کی مسُحور کُن شخصیت سے اثر پا کر ایک ایسے معتدل مزاج کارکن بن کر اُبھرتے ہیں جو دنیا کے لیے مثال بن جاتے ہیں وہ احتجاج بھی کریں تو کوئی بتی بھی نہ ٹوٹے اور کوئی گملہ بھی نہ اپنی جگہ سے ہلے، وہ کوئی مطالبہ بھی کریں تو اس نطم اور سلیقے سے کہ قائد اعظم کے قول "امن، اتحاد اور تنظیم" کی تفسیر نظر آئیں۔ وہ تشدد کی بجائے امن کا جھنڈا ہاتھ میں تھامے دنیا کو یہ پیغام دیں کہ ہاں ہم امن پسند قوم ہیں۔ وہ ذاتی و گروہی مفادات کو لے کر اٹھنے کی بجائے قومی مسائل کو لے کر دنیا کو اجتماعیت کا درس دیتے ہوئے اپنے قائد کے شانہ بشانہ یخ بستہ سردی میں، گیلی زمین پر چوکڑی مارے پُر امن احتجاج کرتے نظر آئیں، جن کو دیکھ کر دہشت گردی اور بم دھماکوں سے خوف زدہ لوگ سُکھ کا سانس لیں۔
ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کے معتقد جانتے ہیں کہ اُن کا قائدسراپا محبت ہے، جو منہ کھولے تو محبت کے پھُول بکھیر دے، بات کرے تو قرآن، حدیث، معیشت، سیاست، فلسفہ جیسے علوم کے دریا بہاد ے۔ جب وہ قانون و آئین پر بات کرے تو آئین لوگوں کے دلوں میں اُترتا چلا جائے۔ اُس کے چاہنے والے اس کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہوں لیکن پھر بھی وہ تصادم کی بجائے امن کا راستہ اپنائے۔ کیا ایسے شخص کی بات کو محض ا س لیے اہمیت نہ دی جائے کہ وہ امن، اصلاح اورترقی کا پیغام لے کر تو آیا ہے لیکن بیرون ملک سے آیا ہے دیکھا تو یہ جانا چاہیے تھاکہ وہ بیرونی ممالک کے دورے کیوں اور کس مقصد کے لیے کرتا رہا ہے، کیا کوئی ذاتی غرض و غایت تھی یااسلام اور امت مسلمہ کی خدمت کرنا تھی۔ کیا اس نے پانچ سال بیرون ملک رہنے اور کینیڈا کی شہریت لے کر پاک سر زمین کو بھُلا دیا تھا۔ کیا وہ اپنے انقلابی افکار و نظریات سے ہٹ کر کسی ذاتی مفادکی خاطر بیرون ملک مقیم رہا اور کیا اپنے لوگوں کے اجتماعی مفادات اور ملک و قوم کی فلاح اور بہتری کی بجائے کوئی اور بات کر رہا ہے؟ کیا وہ مُلک دشمن اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے والی مذہبی قوتوں کا ہم نوا بن گیا تھا ؟ نہیں نہیں ! اس نے تو ہر جگہ امن کی بات کی، دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دے کر پاکستانیوں کے خلاف اُٹھنے والے ہر فتنے کا مدلل جواب دیا۔ شرم سے جھکے ہوئے سروں کو عزت سے جینا سکھایا۔ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی، وہ اسلام جس کا نام سنتے ہی کسی دہشت گرد اور فتنہ پرور نظام کی تصویر دنیا کے سامنے آ جاتی تھی اس کے خوبصورت استدلال سے لوگ اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کے طور پر جاننے لگے اوراسلام کا وہ خوبصورت چہرہ جو دنیا کی نظروں سے وقتی طور اوجھل ہو گیا تھا پھر سے جگمگانے لگا۔ اس نے قانونی، اخلاقی اور معاشرتی محاذ پر ایک جنگ لڑی اور دنیا میں پہلی دفعہ کسی مذہبی جماعت کو اقوام متحدہ میں اسلام کا نمائندہ چُن لیا گیا۔ یہ اعزازتحریک ِ منہاج القرآن کو حاصل ہوا ہے یہی وہ تحریک ہے جو آج ہر مسلک اور مکتبہ فکر کے لوگوں کو مشرق سے لے کر مغرب تک تمام مسلمانوں کو اپنے دین اور پیارے پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حُبی و قلبی تعلق کومضبوط سے مضبوط تر کر رہی ہے۔ مغربی ممالک میں مسلمان گھرانوںمیں پیدا ہونے والے بچے بھی جو کسی داڑھی والے کو دیکھ کر جاہل، ہٹ دھرم اور دقیانوسی سمجھ کر اس کے دلائل کو رد کر دیتے تھے۔ اب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی پیاری شریعت سے نہ صرف محبت کرنے لگے ہیں خود اعتمادی سے اپنانے بھی لگے ہیں۔ راقم نے اس تحریک کے فیض سے خوداپنی آنکھوں سے ان بچوں کو خدا کے حضور گریا و زاری کرتے دیکھا ہے۔ انہی لوگوں کو اب اُمت کے اس درد سے آشنا ہو کر لاکھوں کے فنڈ بھیجتے بھی دیکھا ہے۔ جن سے پاکستان کے زلزلہ زدگان، سیلاب زد گان اور دیگر معاشی اور معاشرتی بندھنوں میں جکڑے غریب عوام کی بیٹیوں کے سر پر دوپٹہ رکھنے اور ان کے علاج معالجے کے لیے جگہ جگہ فری ڈسپنسریز، سکولز، مدرسے جتیٰ کے ان کی شادیوں کے لیے جہیز تک کا اہتمام کرتے دیکھا ہے۔ یورپ کے معاشرے میں بے راہ روی اور آزادی کی فضا کے باوجود نئی نسل دین اسلام اور پاکستان سے محبت کرتی نظر آتی ہے یہ کس کی نظر کا فیض ہے یقیناًاس کے پیچھے ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کا کردار بصیرت اور انکی محنت جھلکتی ہے۔ مستقبل کا قلم کار جب کبھی دیانت سے قلم ا ±ٹھائے گاتو اس کا قلم ایک ہی شخص کے نام پر پہنچ کر رک جائے گا اوروہ محمدطاہر القادری کو موجودہ صدی کامجدداور شیخ الاسلام لکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔
ڈاکٹرمحمدطاہر القادری اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں، ایک ہمہ جہت شخصیت جو بیک وقت جدید و قدیم علوم، مذہب و سائنس، معیشت اور معاشرت پر دسترس رکھتی ہے۔ اُنہوں نے اپنی ذاتی صلاحیت اور قابلیت کا لوہا پوری دنیا سے منوایا ہے۔ حالیہ بیرونِ ملک قیام کے دوران وہ اسلام کے سفیر بن کر کبھی یورپ و امریکہ کی یونیورسٹیوں میں خطاب کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی امن کے پیغام بر بن کر انسانیت کوامن و سلامتی کا آفاقی اور عالمگیر پیغام دیتے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جب تک امن و سلامتی نہیں ہو گی، انسانیت کا احترام نہیں ہو گا انسانیت اپنی منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ بے شک ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ (الحدید 21:57)"یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب عطا کرتا ہے"۔ پانچ سال کینیڈا میں بہت سارا درس و تدریس اور تحقیق و تدوین کا کام انگریزی سمجھنے والوں کے لیے مکمل کر کے، پاکستا ن میں جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کا موقع دیا گیا تاکہ اگر وہ قوم کے مسائل حل کرسکتے ہیں تو کریںلیکن قسم کو سوائے مایوسیوں اور اندھیروں کے کچھ نہیں ملا اب جبکہ نئے الیکشن سر پر ہیں اگر اب بھی الیکشن کے ذریعے صاف ستھری اور اہل قیادت کو سامنے آنے کا موقع نہین دیا جاتا تو قوم کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ گذشتہ فوجی و سول آمریت کے ادوار میں جس طرح قانون اور آئین کے دھجیاں بکھیری گئیں۔ مُلک کے تیزی سے گرتے ہوئے مخدوش حالات اور نااہل حکمرانوں کی ملکی حالات سے عدم دلچسپی، بے بصیرتی، بے انصاف حکومتی ادارے ان حالات کے زمہ دار ہیں۔ اسمبلیوں میں جہاں عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے قانون سازی ہونا تھی وہاں قانون سازی کی بجائے دشنام طرازی معمول رہا۔ بے گناہ افراد کوموت کے گھاٹ اُتارنے جیسے انسانیت دشمن ہولناک کھیل کھیلے گئے جو تا حال جاری ہیں۔ ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کے حالیہ استحصالی نطام کو کھلا چیلنج دینے کے رد عمل کے نتیجے میں اسلامی ریاست کے مخالفین اورنظریہ پاکستان کے مخالفین یکجا ہو چکے اور پاکستان دشمن قوتوں نے مشرقی پاکستان جیسا کھیل کھیلنے کے لیے صوبائی خود مختاری کے اکثر حمائیتیوں کو اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
شاید یہی حالات تھے جن سے مجبور ہو کراور وطن کی محبت سے سرشار ہو کر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کو واپس آ کر سیاسی جدو جہد شروع کرنے پر مجبورہوئے۔ بالآ خر 23 دسمبر 2012ء کو مینارِ پاکستان کی سرزمین پر تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس سے ڈاکٹرمحمد طاہر القادری سمیت لاکھوں افراد نے آئین کی پاسداری کا کھلے آسمان تلے اللہ اور قرآن کو گواہ بنا کر حلف اُٹھایا جس سے ان کی تحریک اور سیاسی جدو جہد پر اُٹھنے والے سارے اعتراضات و شبہات ختم ہوجانے چاہیں تھے لیکن پھر کیا ہوا، ایک نئی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ اس وقت بھی ان کی آواز کو نہ سنا گیا اور عوام نے اُن کی قیادت میں لانگ مارچ کرنے کا عزم کیا تا کہ امن کو ایک موقع دے کر اتمامِ حجت کر دیا جائے اور یوں دنیا کی تاریخ میں پاکستانی عوام کے امن اور جمہوریت پسند ہونے کی لازوال تاریخ رقم ہوئی۔ کھانے کی ایک پلیٹ پر مکھیوں کی طرح جھپٹنے والے قوم کے یہ فرزند اپنے ہاتھوں سے دوسرے بھائیوں کے منہ میں نوالے ڈالتے رہے۔ پوری دنیا حیرت زدہ ہے کہ اس دہشت گرد اور بے صبر ی قوم میں یہ فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آگئے جنہوں نے اسلاف کی یاد ایک بار پھر تازہ کر دی۔ لیکن اُنہیں کیا معلوم ایسے افراد ایک دن میں پیدا نہیں ہوتے۔ اُن کی اخلاقی تربیت میں ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے اپنی زندگی کے پینتیس سال لگائے تھے۔ اس لانگ مارچ سے پہلے تک بہت ساری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کردار پر عوام اُنگلیاں اُٹھاتے رہے ہیں مگر معاہدہ اسلام آباد کے بعد عوام کو ایک اُمید ہو چلی تھی کہ اب تبدیلی کا ایک مُثبت راستہ کھُل جائے گا اور متوسط طبقات کو اپنی نمائندگی کا حق مل جائے گا لیکن الیکشن کمیشن کی غیر قانونی اور غیر آئینی تشکیل نے ایک بار پھر خدشات کو جنم دیااور ارباب اقتدار کے اقرار کے باوجود کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے بھی حکومت اس کو تحلیل کرنے پر رضا مند نہ ہوئی تو ڈاکٹرمحمد طاہر القادری نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ راقم نے اپنے پچھلے کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ڈر ہے سپریم کورٹ الیکشن کے التوا کا الزام لگاکر"نظریہ ضرورت" کے مُردہ کو ایک دفعہ پھر زندہ نہ کر لیا جائے، جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ہے چاہے وہ آنکھیں سپریم کوٹ ہی کی کیوں نہ ہوں۔ اب اگر کوئی لاکھ دلائل پیش کرے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس آئینی ادارے کی تشکیل باہمی مُک مُکا سے ہوئی ہے اور آئینی تقاضوں کو بہر حال پورا نہیں کیا گیا تھاجس کے حقائق وقت کے ساتھ ساتھ عیاں ہونگے اور اگر آئندہ بننے والی حکومت نے بھی عوام کو مایوس کیا تو اس ادارے کی قانونی حیثیت پر پھر سے سو ال اُٹھیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے سے انقلاب کے داعیوں کو سخت دھچکا تو لگاہی لیکن ساتھ ہی اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کو بھی بحیثیت ادارہ ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا۔ اعلٰی عدلیہ کو یہ بات ملحوظِ خاطر رکھنی چاہیے تھی کہ اگر صائب فیصلہ کرنے سے آسمان گرنے کا خدشہ تھا تو گرنے دیا جاتا لیکن اس پٹیشن پر فیصلہ بہر حال نظریہ ضرورت کی بجائے آئین و قانون کے مطابق ہی ہوتا۔ لیکن ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی مخالفت میں ملک کے مستقبل کو داو ¿ پر لگا دیا گیا۔ سپریم کورٹ سے مایوس ہونے کے بعد عدل و انصاف کی گواہی کے لیے ایک بار پھر عوام کی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہاں عوام کی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے جلسوں میں ہزاروں افراد کی شرکت عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں اور اسلام آباد میں دوگھنٹوں کی دھرنی دینے والوں کے لیے بہر حال ایک سوالیہ نشان ہے۔ ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں عوام کو آئینِ پاکستان کے حفاظ بنانے کا جو اعلان کیا تھا وہ سفرتا حال جاری ہے۔ اب بھی قائد محترم ایک نئے رستے پر گامزن ہو کر عوام کو ایک روشن مستقبل کی نوید دے رہے ہیں لیکن ان کے قافلے میں نہ کوئی دیگر مذہبی جماعت شامل ہے اور نہ کوئی سرمایہ دار۔ متوسط طبقات نے اپنے خون پسینے کی کمائی ڈاکٹر محمدطاہر القادری کی ایک کال پر ان کی قدموں میں لا کر رکھ دی اور پاکستان کا محروم ا ور مظلوم طبقہ ان کے شانہ بشانہ تبدیلی کے اس سفر میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ڈاکٹر محمدطاہر القادری آج بھی اپنے نظریاتی کارکنوں کی دلجوئی کے لیے یہی قرآنی دلیل دے رہے ہیں کہ انقلاب ِ مصطفوی کے لیے اگر اسلام نے محض عقائد و عبادات کو کافی قرار دیا ہوتا تو بدر و حنین ہر گز نہ ہوتیں اور اگر وقت کے فرعونوں، قارونوں اور ہامانوں کے مفادات پر زد نہ پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کبھی اتنا منظم پروپیگنڈہ اور دشمنی کی انتہا وہ نہ ہوتی جس سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے۔ حق کی آواز بلند کرنے سے اُس دورکے طاقتور طبقات کو اپنی اجارہ داریاں اور طاقت چھِن جانے کا خطرہ تھا۔ مفادات کو خطرے میں دیکھ کر تمام شیطانی طاقتیں یکجا ہو گئیں اور ان کا یہ طعنہ تاریخ میں یوں رقم ہو کر رہ گیا کہ "اگر خدا نے کسی کو اپنا نبی بنانا ہی تھا تو یہ غریب اور یتیم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رہ گیا تھا "۔ کونسی اذیت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دی گئی اور کونسا طعنہ جو بچا کر رکھا گیا۔ اس مقام ہر اللہ تعالی ٰ قرآن پاک اس پیارے انداز میں اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈھارس بندھاتے ہیں "وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ (المائدہ: 54) اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈریں"۔
حق کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ جب جلوہ گر ہوتا ہے تو باطل کی تمام قوتیں متحد ہو کر اس کے مدِ مقابل آ جاتی ہیں، لیکن باطل کی ان طاقتوں کی یلغار پر نورِ خدا خندہ زن ہوتا ہے کیونکہ نورِ خدا غالب آ کر رہتا ہے۔
اسی طرح جب ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کینیڈا سے تشریف لاتے ہیں تو کبھی ان کو جعلی نام سے سیاسی پناہ حاصل کرنے کر الزام دیا جاتا ہے تو کبھی دوہری شہریت کی بنا پر پاکستان سے ان کی وفاداری کو مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ کبھی ان کی نیت پر شک کیا جاتا ہے تو کبھی ان کی کوششوں کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی سازش قرار دی جاتی ہے الغرض میڈیا ٹرائل اور کردار کشی کا کونسا حربہ ہے جو نہیں آزمایا گیا۔ تا کہ غریبوں کے حقوق کی بات کرنے والی اس آواز کو دبایا جا سکے۔ حقوق ہتھیلی پر رکھ کر پیش نہیں کیے جاتے بلکہ اس کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے انقلاب روس، فرانس اور ایران ہمارے سامنے ہیں۔ اب واحد مقصد یہ ہےکہ اس فرسودہ نطام کو ہر حال میں جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ پیہم کوششوں سے مایوسی کے بادل چھٹ رہے ہیں امید کی روشنی سے مستقبل روشن روشن نظر آنے لگا ہے۔ اب بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو امن کے تمام راستے بند ہو جائیں گے، تصادم ہو گا اور پھر حق مانگنے والے اپنا حق چھین لیں گے۔
حالیہ تناظر میں ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی پیہم کوششوں نے باطل کے چہرے پرپڑے دبیز پردے چاک کر کے اُسے ہر سطح پر آشکار کر دیا ہے۔ مقننہ میں چھپی کالی بھیڑیں ہوں، عدلیہ میں یا پھر انتظامیہ میں، ہر ایک کا چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہو کر مطلع بالکل صاف ہو گیا ہے یہی وہ اصل فتح جو ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی کوششوں کا ثمر ہے۔ اب قوم کے مقدر سے کھیلنے والے پھونک پھونک کر قدم اُٹھائیں گےاب لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا آسان نہیں رہا۔ عوام کے لیے بھی اب ان کالی بھیڑوں کا پہچاننا اور انہیں اقتدار سے دُور رکھنا آسان ہو گیا ہے۔ لیکن اب بھی ایک انتظار باقی ہے ایک فیصلہ آنا ابھی باقی ہےکہ اب تک اس نام نہاد دہشت گردی کامکروہ اور خونیں چہرہ ظاہر نہیں ہوا ہے اور اس کے پیچھے جو قوتیں چھپی بیٹھی ہیں دیکھیے وہ کب آشکار ہوتی ہیں۔
شاہد جنجوعہ (ہیلی فیکس، برطانیہ)
تبصرہ