تحریر : محمد نعیم رضا قادری
وطنِ عزیز پاکستان کے موجودہ دگرگوں حالات کے تناظر میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ:
ڈاکٹر طاہرالقادری موجودہ نظام انتخابات کا ایک حصہ بن کر تبدیلی
کی کوشش کیوں نہیں کرتے
جبکہ اب تو الیکشن کمیشن بھی کافی متحرک ہے؟
ایسے سوالات اٹھانے والوں میں اکثریت مندرجہ ذیل قسم کے لوگوں کی ہوتی ہے۔
- جو میڈیا شور، ٹی وی سکرینوں پر چمکتے دمکتے اینکرز یا دیگر شوبزشخصیات کے واویلے کو سن کر متاثر ہوکر سمجھتے ہیں کہ شاید "ووٹ ڈالنا" ہی ملکی مسائل کا حل ہے اور نظام بدلنا نہ بدلنا زیادہ بڑا ایشو نہیں ہے۔
- یا پھر ایسے لوگ جن کی گھرداری اور سفید پوشی موجودہ نظام کی تمامتر تباہ کاریوں کے باوجود کسی نہ کسی طور بخوبی چل رہی ہے۔ اور اس سے زیادہ انہی ملک کو درپیش چیلیجنز، خطرات، معاشی بحران اور اخلاقی تباہی سے کوئی زیادہ سروکار نہیں۔
- یا پھر وہ لوگ جو پاکستان سے باہر دنیا کی دیگر جمہوری اقوام کے مختلف نظام ہائے جمہوریت پر گہری نظر رکھنے سے محروم ہیں اور پاکستان میں اشرافیہ و کرپٹ مافیا کے برس ہا برس کے بنے ہوئے جال کو ہی "کل جمہوریت" سمجھے بیٹھے ہیں۔
- یا پھر گذرے کل سے سبق سیکھ کر آنے والے کل کو سنوارنے کی کوشش کرنا مجھ جیسے عام سفید پوشوں کی زندگی کی ترجیح ہی نہیں ہوتی
- یا پھر انہیں موجودہ نظام کی خرابیوں کا شاید کبھی کماحقہ اندازہ نہیں ہوپاتا اور اگر ہوجائے تو اس نظام کے علاوہ انہیں اور کوئی "حل" نظر نہیں آتا۔
ایسے طبقات کی طرف سے پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری موجودہ نظامِ انتخابات اک حصہ بن کر تبدیلی کی کوشش کیوں نہیں کرتے جبکہ اب تو الیکشن کمیشن بھی کافی متحرک ہے؟
سوال کے جواب سے پہلے آئیے ایک سادہ مثال دیکھتے ہیں۔
ایک مریض کو بلڈ کینسر ہوچکا ہے اور اسکا علاج سوائے خون کی تبدیلی کے اور کچھ نہ ہو۔ مریض قریب المرگ ہو، تڑپ رہا ہو۔ چیخ رہا ہو۔ چلا رہا ہو۔ ایک ماہر سرجن علاج تجویز کرے کہ مریض کا علاج سوائے تبدیلی خون کے اور کچھ نہیں۔
اچانک ایک عام ڈاکٹر یا ڈسپنسر ایسے مریض کو نیند یا بےہوشی کا انجکشن Trinquilizer لگا دے جس سے مریض سوجائے یا بےہوش ہوجائے تو میرے جیسا سادہ لوح اور نابلد انسان ماہر سرجن کی بجائے خوشی سے جھوم کر اس ڈسپنسر کی تعریفیں کرنا شروع کردے گا کہ ڈسپنسر نے کیسا اچھا کام کردکھایا۔ مریض کو آرام آیا ہی چاہتا ہے یا آچکا ہے۔
لیکن ماہر سرجن اس حقیقت کو جانتا ہوگا کہ نیند یا بےہوشی کا یہ انجکشن مریض کا علاج نہیں۔ بلکہ پورے خون کو تبدیل کرکے اسکی رگوں میں نیا خون ڈالنے سے ہی مریض کی زندگی بچ سکتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری 1990 سے 2002 تک اس نظامِ انتخابات کے اندر رہ کر اس نظام کی مکروہ ہیتِ ترکیبی سے بخوبی آگاہ ہوچکے تھے کہ کہ یہ نظام دراصل اشرافیہ کا، امراء کا، ظالم طبقات اور کرپٹ مافیا کا بنایا ہوا ایک ایسا جال میں جس میں 18کروڑ عوام کی تقدیریں جکڑی ہوئی ہیں۔ اس نظام کے تحت ملک بھر سے چند درجن خاندانوں کے چند سو افراد، نسل در نسل دھن دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ملکی اسمبلیوں پر قابض ہوتے ہیں اور ملک رفتہ رفتہ تباہی و بربادی کے دھانے پر آن پہنچا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 23 دسمبر2012 سے لے کر تاحال وہ اسی بات پر مصر ہیں کہ جب تک موجودہ کرپٹ نظام انتخابات کو اصلاحات کے ذریعے آئینی و جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں بنایا جاتا اس وقت ایسے بیسیوں انتخابات بھی قوم کو اہل، دیانتدار، مخلص قیادت ایک پارلیمنٹ کی شکل میں فراہم نہیں کرسکتے جو ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکے۔
موجودہ الیکشن کمیشن کی تشکیل ہی غیرآئینی انداز میں ایک مک مکا کے نتیجے میں ہوئی جس کا اظہار ڈاکٹر بابر اعوان، اعتزاز احسن، ڈاکٹر مبشر حسن، ایس ایم ظفر، ڈاکٹر طاہرالقادری، کنور دلشاد سمیت بےشمار دانشور اور ماہرین قانون کرچکے ہیں۔ مک مکا پر مبنی الیکشن کمیشن یقینا کرپٹ جماعتوں کےمفادات کو تحفظ دے گا۔ پورا منصوبہ تیار ہوچکا تھا اچانک ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد، اور 23 دسمبر2012 مینار پاکستان فقید المثال جلسے اور تاریخ ساز لانگ مارچ نے اس مک مکا کا بھانڈا پھوڑ دیا اور قوم کا بچہ بچہ ممبران اسمبلی کی اہلیت کے قانون کے آرٹیکل 62، 63 سے آگاہ ہوگیا۔
چنانچہ بادلِ نخواستہ الیکشن کمیشن کو کچھ اقدامات ایسے کرنے پڑے کہ جن سے اسکی بچی کچھی ساکھ مزید خراب ہونے سے بچ جائے اور قومی و بین الاقوامی میڈیا سمیت قوم کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکی جاسکے کہ الیکشن میں سکروٹنی کی چھلنی سے صاف و شفاف الیکشن کو یقینی بنایا جارہا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ نیند اور بےہوشی کے انجکشن ہیں۔ جبکہ مرض کا حل مکمل تبدیلی کے عمل کا متقاضی ہے۔
ذرا سوچیے ! شریف فیملی 1998 سے 8 بلین روپے کی 9 بنکوں سے ڈیفالٹر ہے اور "اسٹے آرڈر" پر گذارا کیا ہوا ہے۔ زرداری کے سوئس اکاونٹس کی تفصیلات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ راجہ پرویز اشرف حکومت اور اسکے وزیروں مشیروں نے آخری ہفتے میں 50 ارب روپے حکومتی خزانے سے اپنی جیبیوں میں بھرے۔ بیسیوں جعلی ڈگری ہولڈرز اور سینکڑوں ٹیکس چوروں کے علاوہ این آر او کے ذریعے پوتر ہونے والے اور آئین پاکستان توڑنے جنرل مشرف بھی انتخابات کے ذریعے اسمبلی نشستوں پر براجمان ہونے کی تیاریوں میں ہیں۔
ایسے میں الیکشن کمیشن چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو سورہ اخلاص، دعائے قنوت اور دوسرے تیسرے کلمے کی سکروٹنی سے گذار کر گونگلوؤں سے مٹی اتار رہا ہے اور بقول ڈاکٹر شاہد مسعود باقاعدہ ٹی وی کیمروں کا انتظار کیا جاتا ہے اور پھر ایسے سوالات جوابات کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے تاکہ قوم کی آنکھوں میں دھول خوب اچھی طرح جھونکی جاسکے۔ یہ سب کچھ نیند یا بےہوشی کی گولی کے سوا اور کچھ نہیں۔
ایمانداری سے دیکھا جائے تو قوم میں اسکے آئینی حقوق کا شعور اور آرٹیکل 62، 63 کے نفاذ کی اصلاحات سے آگہی دراصل ڈاکٹر طاہرالقادری ہی کی مخلصانہ جدوجہد اور دانشوارانہ بصیرت کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اگر دیگر عصبیتی، کاروباری مذہبی جماعتوں کی طرح منافقانہ سیاست کا حصہ بن کر چاہتے تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ وغیرہ کے ذریعے شاید 10-15 یا 20 سیٹیں لے کر اسمبلی میں پاکستان عوامی تحریک کا گروپ بنواسکتے تھے۔ لیکن یہ قوم سے دغا ہوتا۔ چنانچہ انکے قائدانہ اخلاص کا تقاضا تھا کہ موجودہ تعفن زدہ کرپٹ نظام انتخابات سے مکمل بیزاری کا اظہار کرکے قوم کو اسکی مکروہ حقیقت سے آگاہی دی جائے۔
جلد یا بدیر قوم کو اس متعفن نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے اشرافیہ و کرپٹ مافیا کے اس سیاسی جال کو توڑنے کے لیے اس نظام کے خلاف اٹھ کر اسے سمندر برد کرنا ہی ہوگا۔ جب تک ملک میں آئینی و جمہوری اصولوں کے مطابق انتخابی اصلاحات مکمل طور پر نافذ نہ جائیں اس وقت تک موجودہ نظام کے ذریعے 100 الیکشن بھی کسی نئی، اہل، دیانتدار، مخلص اور ایماندار قیادت (پارلیمنٹ) کو کبھی سامنے نہیں لاسکتے اور قوم کے دکھوں کا کبھی مداوا ممکن نہ ہوگا۔
تبصرہ