اے آر وائی نیوز: ڈاکٹر طاہرالقادری کا مبشر لقمان کو خصوصی انٹرویو

پروگرام: کھرا سچ (ARY News)

تاریخ: 24 اپریل2013ء

مبشر لقمان: السلام علیکم، آپ دیکھ رہے ہیں پروگرام کھرا سچ اور میں ہوں مبشر لقمان۔ پیر سے جمعرات آپ کے لیے ایک نیا پروگرام لے کر آتے ہیں، نئے موضوعات کے ساتھ۔

آج میں آپ کو ایک بات بتائوں کہ الیکشن 2013ء جو ہے، اب لوگوں کے لیے مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم الیکشن ہے، اس میں لوگ تبدیلی لے کے آئیں گے۔ لیکن الیکشن کمیشن میں جب کاغذات نامزدگی جمع ہو رہے تھے تو کہیں پھلوں کے نام پوچھے گئے اور کہیں بیویوں کا حال پوچھا گیا اور کہیں پہ دعائے قنوت سنانے کو کہا گیا اور کہیں پہ فجر کی رکعات پوچھی گئیں۔ لیکن ہوا کیا آخر پہ؟ کرپشن کرنے والے ٹیکس چور، ڈیفالٹرز یہ سب کے سب ایک ہی صف میں پاس ہو گئے اور نہ صرف اہل ہو گئے الیکشن لڑنے کے بلکہ بہت کامیابی سے اہل ہو گئے۔ کیونکہ اب ڈنکے کی چوٹ پہ وہ لوگ اپنے اپنے حلقوں میں بدمعاشوں کی طرح یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمار ا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہمیں تو عدالتوں نے پاس کر دیا۔ اب لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں، سوائے اس کے کہ لوگ ان کو دوبارہ ووٹ ڈالیں۔

آج میں نے خاص طور پر request کی، کینیڈا سے جناب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو کہ وہ ہمیں join کریں۔ اس لیے کہ میں نے صرف ایک سوال ان سے پوچھنا ہے کہ باقی تو سارے ضمنی سوالات ہیں۔ ایک ہی سوال ہے جو اس وقت بہت اہم ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کینیڈا سے ہمارے ساتھ ہیں، ڈاکٹر صاحب السلام علیکم۔

ڈاکٹر طاہر القادری: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

مبشر لقمان: ڈاکٹر صاحب مجھے صرف یہ بتائیں کہ جب آپ کا لانگ مارچ ہو رہا تھا تو آخری دن بہت سارے لیڈرز بھی آئے آپ کے پاس۔ رہنماء بھی آئے، agreements بھی ہوئے۔ آپ نے speech بھی کی سب کے سامنے۔ انہوں نے فرداً فرداً آکر آپ کی شان میں قصیدے بھی پڑھے اور تقریریں بھی کیں۔ لاکھوں لوگوں کا مجمع تھا، ہم نے وہاں پر دیکھا اور کروڑ ہا لوگوں نے پوری دنیا میں اس کو دیکھا۔ لیکن اب یہ لگ رہا ہے کہ وہ match fixing تھی۔ کیا آپ اس match fixing میں شریک تھے؟ کیا آپ کے علم میں نہیں تھا کہ جو جو commitments ہوئیں آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ان میں سے کوئی پوری نہیں ہوئی؟ وہی چور، وہی ڈیفالٹر دوبارہ اب سامنے کھڑے ہیں پاک ہو کے۔ ناپاک جو ہیں وہ پاک ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کے کہ فیڈرل ایجوکیشن منسٹر، جس کی اپنی ڈگریاں جعلی تھیں، اس کو بھی عدالت نے پاس کر دیا۔ کیا یہ مذاق نہیں ہے ڈاکٹر صاحب؟

ڈاکٹر طاہر القادری: دیکھئے مبشر لقمان صاحب! آپ نے بہت اچھے وقت پر، جب کہ میں بہت جلد پاکستان next week کے بعد واپس آنے والا ہوں۔ ایک اچھے وقت پر یہ انٹرویو کیا اوراس کی ابتداء بڑے اہم موضوع اور بڑے اہم subject کے ساتھ کی۔ ایک بات میں clear کر دوں کہ لانگ مارچ کے end پہ جب تمام پارٹیز کے heads اور leaders آئے اور ایک معاہدہ طے کیا تھا: Long March Declartion۔ آپ نے ایک لفظ بولا کہ اب کیا کچھ حشر کیا ہے ان لوگوں نے، تو اس سے ایک ایسا خیال گزرتا ہے کہ ان کے درمیان match fixing تھی اور مجھ سے یہ بھی آپ نے پوچھا۔ میں اپنے حوالے سے اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر کہتا ہوں اور اس سے زائد کچھ نہیں کہوں گا کہ اگر کوئی ان کی match fixing تھی، جو آج کے حالات ثابت کر رہے ہیں، تو میں اس میں نہ شریک تھا، نہ ہوں اور نہ ہو سکتا ہوں اور نہ مرتے دم تک اس کاسوچ سکتا ہوں۔ اور جھوٹ بولنے والے پر اللہ اور اس کے رسول کی اور تمام ملائکہ کی قیامت کے دن تک لعنت ہوتی ہے۔ میری پوری زندگی ایمان، ایمانداری اور اس کے فروغ میں گزری ہے۔ حق اور سچائی کی دعوت دینے اور اس پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت پر گزری ہے۔

میں تو عوام کے صحیح جو دکھ درد تھے اور جو perception تھا، political system میں کرپشن اور بددیانتی کا، خیانت کا اور نا اہل اور کرپٹ لوگوں کے مسند اقتدار پر فائز ہونے کا اور وہ جو inbuilt خرابیاں تھیںelectroral system میں، ان کی reforms کے لیے، ان میں اصلاحات کے لیے، ان میں basic تبدیلیوں کے لیے ایک جدوجہد کی تھی، ایک جنگ لڑی تھی، جس کے نتیجہ میں وہ ایک معاہدہ پر آئے اس پریشر کے ساتھ۔ بعد ازاں وہ معاہدہ کر کے پھر گئے۔ تو معاہدے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کفار مکہ نے بھی کیے اور پھر گئے۔ یہود مدینہ نے بھی میثاق مدینہ کی شکل میں معاہدے کیے اور پھر گئے۔ اب معاہدہ کر کے کوئی پھر جاتا ہے تو وہ قوم کا بھی مجرم ہے، اللہ کا بھی مجرم ہے، اس کے رسول کا بھی مجرم ہے۔ اس دنیا میں بھی مجرم ہے اور قیامت کے دن بھی مجرم ہوگا۔

یہ بہت بڑا المیہ ہوا، بدقسمتی ہوئی اور میں آپ کی بات کو endorse کرتا ہوں کہ الیکشن اب ملک کی تقدیر بدلنے کا نہیں، ملک کی تقدیر برباد کرنے کا الیکشن بن گیا ہے۔ کلیتاً اس میں شفافیت ختم ہو گئی۔ امانت اور دیانت کا جنازہ نکال دیا گیا، آئین کی دھجیاں اڑا دیں گئیں، قانون کو بالکل پس پشت رکھ کر روند دیا گیا۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے جون 2012ء کے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 218 کی تشریح کرتے ہوئے یہ لکھا تھا، judgement دی تھی کہ الیکشن وہی قابل قبول ہیں، جو freely ہوں، fairly ہوں، justly ہوں، honest ہوں۔

Free elections بھی برباد ہو گئے، fair elections بھی تباہ ہوگئے۔ justness کا بھی خاتمہ ہو گیا اور ایمانداری کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ تو یہ match fixing لگتی ہے، واضح لگتی ہے مگر کچھ اداروں کے درمیان، جو ذمہ دار تھے گرفت کرنے کے، مواخذہ کرنے کے۔ عدل دینا، انصاف دینا، قانون پر عمل درآمد کروانا، آئین کا نفاذ کرنا، کرپشن کا خاتمہ کرنا۔ الیکشن کوfreely، fairly ہوں،justly conduct کروانا جن جن اداروں کی ذمہ داری تھی، یہ ان کی میچ فکسنگ لگتی ہے اور اس کا خمیازہ بھی قوم بھگتے گی اور ان اداروں سے بھی میں یہ سوال کرتا ہوں جو یہ سارا ڈرامہ دیکھ رہے ہیں، سارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ملک اور قوم، آئین اور جمہوریت اور قوم کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے۔ جو ہوا ہے، سب کچھ دیکھ رہے ہیںاور خاموش تماشائی بن کر بیٹھے ہیں۔ یہ سارے ادارے مجرم ہوں گے اور اس کا نقصان جو ملک کو پہنچے گا، اس کی ذمہ داری ان سب کے کندھوں پر ہوگی اور نہ خداورسول کی بارگاہ میں یہ معاف کیے جائیں گے اور نہ عوام ان کو معاف کرے گی۔

مبشر لقمان: Problem ڈاکٹر صاحب یہاں پہ ایک ہے کہ ان سارے لوگوں کو بحیثیت قوم سپریم کورٹ کے اوپر بڑی امید تھی، سپریم کورٹ کے اوپر ان کی نظریں تھیں لیکن یہاں پہ سپریم کورٹ جو ہے، وہ چوروں کے، ڈاکوئوں کے کیسوں کے فیصلے نہیں کر رہا۔ الیکشن کمیشن یہ کہہ رہا ہے کہ جب تک کورٹ ان کو سزا نہیں دیتا تو ہم کیا کریں تو اللہ اللہ خیر سلا، کاروبار زندگی چل رہا ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری: جی ہاں دیکھئے ناں۔ جو بات آپ نے کی، میں آپ کی اجازت سے اس کو مرحلہ وار بیان کردیتا ہوں کہ بات اور وضاحت سے ہو جائے گی۔ میں اس کی تائید ہی کر رہا ہوں۔

مبشر لقمان: بسم اللہ جی۔

ڈاکٹر طاہر القادری: ہم دیکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے لانگ مارچ، اسلام آباد کے لانگ مارچ، 17 جنوری کے Declaration کے بعد سے لے کر اسمبلی کے تحلیل ہونے تک اور گورنمنٹ سے لے کر اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد جب الیکشن کمیشن نے چارج لے لیا، اس وقت سے لے کے اب تک، ان دنوں مراحل میں الیکشن کمیشن نے اب تک کیا کیا کیا؟ کیا کیا اعلانات کیے، کیا کیا ضابطہ جات کو قوم کے سامنے رکھا، کہ ہم انہیں پورا کریں گے اور قوم کو کیا کیا وعدے دیئے؟ اخبارات میں، ٹی وی چینلز میں کیا کیا بیانات دئیے؟

سب سے پہلا اعلان کیا کہ ہم قوم کو سیاسی چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں، قرض خوروں اور ٹیکس چوروں سے بچانے کے لیے30 دن کی سکروٹنی کریں گے۔ سب سے پہلا بیان الیکشن کمیشن کی statement آئی تھی۔ شہ سرخیوں اور headlines کے طور پہ تمام اخبارات میں چھپی۔ آپ نے دیکھا کہ وہ سکروٹنی گئی، پھر فیڈرل حکومت، جنہوں نے 30 دن کی سکروٹنی کا وعدہ کیا تھا، وہ گرتے گرتے 14 دن کی سکروٹنی پر آئے۔ Commit کیا اور پھر حکومت بھی اور الیکشن کمیشن بھی سب پھر گئے، اس سے اور ultimately سکروٹنی کی ساری اصلاحاتی ترامیم کا خاتمہ کر کے معاملہ پلٹ کے7 دن میں آگیا۔ 7 دن میں سکروٹنی نہ کبھی ہونی ہے، نہ ہوئی ہے اور نہ ہوسکے گی۔

وہ صرف جعل سازی اور دھوکہ دہی کے لیے ایک عمل ہے، پھر گئے اس وعدے سے۔ پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اور سپریم کورٹ نے بھی اپنی Judgement میں قوم کو یہ خوشخبری سنائی، وعدہ کیا، اعلان کیا، زور دیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عمل ہوگا۔ اس پر سن لیجئے، کچھ ذکر تو آپ نے کر دیا، آرٹیکل 62 کی جو درگت پکی، جس طریقے سے اسے Deal کیاوہ آپ بیان کر چکے ہیں۔ اس سے بڑھ کر شرمناک عمل آئین کے کسی آرٹیکل سے نہیں ہو سکتا۔

آرٹیکل 62 جس چیز کے پوچھنے کا تقاضا کرتا تھا، اس کو touch نہیں کیا۔ آپ کی بات درست کہ جنازے پوچھتے رہے، دعائے قنوت پوچھتے رہے، بیویوں کی تعداد پوچھتے رہے، بیٹا پیارا لگتا ہے کہ بیٹی، یہ پوچھتے رہے۔ قومی ترانہ پوچھتے رہے، انگریزی میں پھلوں کے نام پوچھتے رہے۔ یہ جرم ایک تھا مگر مبشر صاحب ان سے بڑے مجرم اوپر ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پانچوں اراکین، سات دن تک یہ تماشا دیکھتے رہے۔ پاکستان کے جج، آزاد عدلیہ کے نعرے لگانے والے اور ہر روز سیاسی بیان دینے والے اور ہر روز شہ سرخیوں میں چھپنے والے اور ہر روز ٹی وی پر چھائے رہنے والے۔ وہ بھی بیان سات دن دیکھتے رہے۔ کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ پہلے دن کا تماشا دیکھ کر انہیں shut up call دیتے اور shut up کہتے کہ کیا پوچھ رہے ہو؟ آئین کا آرٹیکل 62 یہ کہتا ہے، تم نے تماشا بنا لیا ہے؟ لوگوں کی تضحیک کر رہے ہو، تذلیل کر رہے ہو، آئین کا مذاق اڑا رہے ہو۔ انہوں نے آئین کو قوم کے سامنے ایک entertainment item بنا دیا۔ ریٹرنگ آفیسر آئین کو entertainment item بناتے رہے اور الیکشن کمیشن اس کو جج آنکھوں کے ساتھ اس کو دیکھتے رہے۔

وہ چاہتے تھے کہ ایسا کچھ ہو اور مذاق اڑے تاکہ لوگ آرٹیکل 62 سے متنفر ہوں اور آنے والی پارلیمنٹ اس میں ترمیم کرے، اس کی جڑیں کاٹ دے، اس کے دانت نکال دے، اس کو خارج کر دے۔ تو پوری قوم جان لے کہ اس سے کیا ملا، آرٹیکل 62 سے دیکھ لیا، سب کچھ کیا ہے، تماشا ہے۔ تو قوم ذہنی طور پر تیار ہو چکی ہو کہ یہ میچ فکسنگ، یہ ہے ایک منصوبہ اور یہ ایک مشترکہ سازش۔

یہ گھناؤنا مستقبل تیارکیا جا رہا ہے۔ وہ دھوکہ دہی ہوئی اور 62 آرٹیکل کے تحت، جن کو اصل میں گرفت کرنا تھا، صادق اور امین کے تحت، ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ NAB میں، FIA میں، FBR میں، اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں، جن لوگوں کے دس دس سال سے، بیس بیس سال سے کرپشن کےCasess پڑے ہوئے ہیں اور جن لوگوں کے کرپشن کیسز عدالتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ دس بیس سال سے زیرسماعت ہیں، انہوں نے stay order لے رکھے ہیں۔ انہیں آج تک کبھی سزا نہیں ہوئی۔

مبشر لقمان: جی ہاں۔

اور یہ پاکستان کے ججوں کو گولڈ میڈل ملنا چاہیے کہ یہ تقریریں کرتے ہیں، سیاسی بیان دیتے ہیں، میڈیا میں چھپتے ہیں، آتے ہیں مگرکبھی ججمنٹ نہیں دیتے اور ججمنٹ دیں تو کبھی عمل درآمد نہیں ہوتا اور عمل درآمدنہ ہوتو پلٹ کر پوچھتے نہیں اور اگلا سیاسی بیان داغتے ہیں۔

مبشر لقمان: حالت یہ ہے کہ وہ اگر ان میں سے۔۔۔۔

ڈاکٹر طاہر القادری: دس بیس سال سے جن کی کرپشن کے ریکارڈ پڑے تھے، ان کو کھلی اجازت دے دی۔ وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں الیکشن لڑنے کے اہل ہیں، ان کی نا اہلیت ختم ہو گئی۔ المیہ یہ ہے کہ نچلے ریٹرنگ آفیسر جن کو نااہل قرار دیتے رہے، وہ سارے کے سارے انہی عدالتوں کے الیکشن ٹربیونلز میں جا کر پاک صاف ہوتے رہے۔ یہ میچ فکسنگ تھی کہ نیچے نااہلیت اور نا اہل declare ہوتے رہیںاور سیدھا ٹربیونل میں جائیں تو اہل ہوتے رہیں اور کچھ دن قوم اس تماشے میں رہے، یہ سارا شور مچایا جاتا رہا اور صورت یہ ہوئی کہ آرٹیکل 62 کے تحت صرف ایک چیز کو اچھالا، وہ جعلی ڈگریزتھیں، جن کا آپ نے ذکر کیا۔

مبشر لقمان: اس پہ بھی تو کچھ نہیں ہوا لیکن۔

ڈاکٹر طاہر القادری: سیکڑوں لوگ جعلی ڈگریاں۔۔۔۔جی

مبشر لقمان: اس پہ بھی تو کچھ نہیں ہوا۔ کون سا فارغ کر دیا ہے؟

ڈاکٹر طاہر القادری: جی ہاں، میں وہی بتا رہا ہوں بالکل، بالکل صحیح کہہ رہے ہیںآپ۔ میں بتا یہ رہا ہوں کہ صرف جعلی ڈگریز کے کیسز کو انہوں نے پکڑا ریٹرننگ آفیسرز کی سطح پر۔ HEC، ہائرایجوکیشن کمیشن سے تصدیق کروائی، اب آپ بتائیے کہ اس سے بڑا گھنائونا مذاق پاکستان کی تاریخ میں میں نے اللہ کی عزت کی قسم کھا کر بتا رہا ہوں کہ میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تصدیق کے لیے ڈگریز بھیجیں، انہوں نے سینکڑوں ڈگریز کوجعلی declare کر دیا، پوری تحقیق اور تصدیق کے بعدکہ جعلی ہیں۔ جنہوں نے 2008ء میں جھوٹ بولا تھا، صداقت اور امانت کی خلاف ورزی تھی، جھوٹا حلف دیا تھا اللہ کا، امانت کی خلاف ورزی کی تھی۔ declare کر دیا تھا ہائر ایجوکیشن کمیشن نے، اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی اس کی بنیاد پر نا اہل declare کر دیا۔

پھر تیسرا مرحلہ ان اعلانات کی بنیاد پر ریٹرنگ آفیسرز نے بھی ان کو نااہل قرار دے دیا، ان کو جیلوں کی سزائیں سنا دیں۔ اب دیکھئے کہ کتنا تماشا ہوا ہے اس قوم کے ساتھ، تین سطحوں پر نااہل declare کر دیا ہے، انہیں سزائیں دے دیں۔ پھرسارے جعلی ڈگری رکھنے والے ٹربیونل میں جاتے رہے اور پاک صاف ہوتے رہے۔ اہل بھی ہو گئے، سزائیں بھی ختم ہو گئیں، الیکشن لڑنے کے لیے ان کو اجازت بھی دے دی۔ اب میں سوال کرتا ہوں کہ یہ سارے ادارے اور یہ سارے مرحلوںپر بیٹھے لوگوں نے، اتفاقیہ کیا ؟کیا ان کے آپس میں کوئی رابطے، ڈاہنڈے نہیںتھے؟ کیا ان کی کوئی ملی بھگت نہیں تھی؟ یہ بالکل باہمی لاتعلق ہو کھڑے تھے ؟ نہیں یہ سوچنا غلط ہے، یہ میچ فکسنگ تھی، یہ ملی بھگت تھی، یہ مک مکا تھا۔ کہ تم declare کر دینا کہ ان کی ڈگری جعلی ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی جان چھڑائے، نا اہل declare کر دے، ریٹرننگ آفیسر سزا دے دے۔ قوم واہ واہ کرتی رہے، جب ٹربیونل میں پہنچیں تو آخری دن ہوں گے ساروں کو بری کر دیا جائے گا۔

اب مجھے بتائیے کہ وہ آرٹیکل 62 کہاں گیا؟ جعلی ڈگری ہونے میں تو شک نہیں۔ جب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے declare کر دیا کہ ڈگری جعلی ہے تو شک نہ رہا، ٹربیونل نے کس بنیاد پران کی سزا معاف کی؟

کس بنیاد پر ان کی ڈگری کو درست کہا اور کس بنیاد پر ان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جعلی ڈگری والے کرپٹ نہ تھے، انہیں اہل قرار دینے والے کرپٹ ہیں، کھائے ہیں انہوں نے۔ رقوم کھائی ہوں گی انہوں نے، کرسیاں بیچیں ہوں گی، قلم بیچے ہوں گے۔ قوم کیوں اندھی ہوگئی ہے، یہ سب کچھ اٹھارہ کروڑ عوام کے سامنے ہو رہا ہے اور بڑے بڑے اداروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کس کو کرپٹ declare کریں۔

وہ سارا اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تالے لگا دو، الیکشن کمیشن کو تالے لگا دو، ریٹرننگ آفیسر برخواست کردو، ڈس مس کردو، جنہوں نے انہیں تین تین سال کی سزا دی۔ جنہوں نے ان کی ڈگریز کو نااہل قراردیا اور تم انہی بددیانت لوگوں کو، جو جھوٹی قسم کھا کر پارلیمنٹ میں آنے کے لیے جھوٹی ڈگریاں دے رہے ہیں، تم ان کی سزا بھی معاف کر رہے ہو، انہیں اجازت بھی دے رہے ہو۔ انہیں پاک صاف قرار دے رہے ہو۔

اپنی نام نہاد ایک گنگا میں پاک صاف کر کے، صادق اور امین کا سہرا سر پہ لگا کے، انہیں دولہا بنا کے پارلیمنٹ میں بھیج رہے ہو۔

مبشر لقمان: Right۔۔۔ ڈاکٹرطاہرالقادری اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں اور وہ بتا رہے ہیں کہ کس طرح ناپاک لوگ پاک ہو گئے اور کس طرح صادق اور امین declare ہو کر واپس آ گئے۔ کس طرح چند اداروں نے ملی بھگت کر کے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی اوراب یہ الیکشن بقول قادری صاحب کے ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ہم ایک وقفہ کے بعد واپس آتے ہیں۔

مبشر لقمان: Welcome Back، کینیڈا سے ڈاکٹر طاہرالقادری ہمارے ساتھ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب میں آپ کو ایک بات کہوں کہ اگرآپ کی اجازت ہو، سخت بات میں نے کہنی ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری: جی جی۔۔۔

مبشر لقمان: بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے کہ جیسی قومی ویسے حکمران۔ تو سچی بات تو یہی ہوئی ناں کہ پوری قوم ہی کرپٹ ہے، پوری قوم دو نمبری کے پیچھے ہے۔ اپنی طاقت کے برابر، تبھی یہ لوگ بار بار رہیں گے اور ہم ان سے چھٹکارانہیں حاصل کر سکتے اور آپ دیکھئے گا کہ ووٹ بھی ہم ان کو دیں گے۔ یعنی انہی لوگوںکو ووٹ دیں گے، جن کے متعلق آپ اور ہم یہاں پر بیٹھ کر بات کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری: جی جی۔۔۔

مبشر لقمان: تو پھرہمارا ایک national character بنتا جا رہا ہے اور خاص طور پہ جس طرح پر یہاں سے، میں judiciary کی ایک مثال دینا جا رہا ہوں، اب مجھے نہیں پتہ کہ مجھے اٹھا لیں تو اٹھا لیں۔ مجھے توہین عدالت میں بند کرنا ہے تو کر لیں۔ ارسلان افتخارکی کرپشن پر بات کرتے ہیں تو direct ہمارے اوپر الزامات لگتے ہیں کہ جی یہ عدلیہ کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ عدلیہ کو ڈی ریل کرنے کے لیے بات کر رہے ہیں۔ اس کے کیسز بند ہو جاتے ہیں۔ حدیبیہ کے کیسز سنے نہیں جاتے۔ اصغر خان کیس کھلتا ہے، نام آ جاتا ہے سامنے۔ کہ کس نے کتنے پیسے لیے تو اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ پتہ نہیں کیا یہ مذاق ہے اور سارے چپ ہیں اور سارے دیکھ رہے ہیں اور سارے برداشت کر رہے ہیں۔ جی ڈاکٹر صاحب۔۔۔

ڈاکٹر طاہر القادری: بات یہ ہے کہ میری دانست میں تو اس ملک کے سارے ادارے بھی سیاست کر رہے ہیں اور ججز بھی، کئی ججز سیاست کر رہے ہیں اور کئی ججز سیاسی لیڈروں کی طرح operate کر رہے ہیں۔ اور واضح طور پر سیاسی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ قوم خاموش ہے، باقی ادارے خاموش ہیں۔ کوئی جائے تو کہاں جائے۔ کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میں نے کہا کہ انیس سے بیس بڑی بڑی اہمیت والے کیسز ہوں گے، جن کی judgements آئیں اور آج تک ان میں سے ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا، جواب دیا جائے۔ یہ ایسے لوگوں کی کامیابی ہے یا ناکامی ہے؟ کیوں خاموش ہیں؟ اگر عمل درآمد نہیں ہوا تو بیانات بھی سینکڑوں چلے، شور بھی ہوا، غوغہ بھی ہوا۔ ٹی وی پر بھی بیانا ت آئے۔ اخبارات بھی بھر گئے۔ کیا ہم لیڈری بنانا چاہتے ہیں؟ ہمیں اپنے کردار کو ایک دائرے میں رہ کر آئینی بنانا ہوگا۔ آئین اور قانون کے تابع کرنا ہوگا، نتیجہ خیزی چاہیے۔ نتائج چاہیے، شور شرابہ اور بیانات نہیں چاہیے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جب آپ آرٹیکل 63 کی بات کر رہے تھے۔ یہ یہ ہوا جہاں پر آرٹیکل63 لاگو ہوا تو اس میں قرض خور آجاتے۔ اس میں ٹیکس چور آ جاتے۔ ٹیکس چور، جنہوں نے یوٹیلٹی بلز اور حکومت کے چارجز نہیں ادا کیے۔ سارے لوگ نااہل ہوتے تھے، لیکن سکروٹنی میں آرٹیکل63 کو touch بھی نہیں کیا گیا۔ اس کو سرے سے لیا گیا ہی نہیں۔

تمام کے تمام آپ دیکھئے کہ اس کو کسی بھی ٹربیونل میں، کسی دفتر میں پوچھا تک نہیں ہے۔ ٹیکس ادا کیا ہے کہ نہیں، یوٹیلٹی بلز ادا کیے ہیں یا نہیں، کتنے کے ڈیفالٹر ہو، write off کروائے ہیں یا نہیں۔ اس کے لیے چاہیے یہ تھا کہ جنہوں نے قرض لیے، دس بیس سال میں جتنے قرضے لیے،دس، بیس سال سے لوگوں نے اربوں روپے کے قرض لیے ہیں اور وہ معاف کروا لیے۔ بڑے بڑے سیاستدان جو business man ہیں، انہوں نے عدالتوں سے stay لے رکھے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کا لوٹا ہوا پیسہ، قوم کا پیسہ ہے۔ چند سرمایہ دارا ور چند سیاسی لیڈر اور چند مؤثر لوگ جو بااثر ہوں، قرض کی صورت میں اربوں روپے بنکوں سے نکلوا لیے ہیں۔ کئی سو ارب بنکوں سے لوٹ کر کھا گئے، پیسہ تو پوری قوم کا تھا، چند لوگوں نے اپنی فیکٹریوں، کمپنیوںکے نام پر نکلوا لیا، ایک ڈاکہ مار لیا، ایک قانونی ڈاکہ مار لیا۔

اب سوال یہ ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ یہ قرض خور ہیں اور کرپٹ ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے adjustment کروالی تھی۔ بھئی تم کون ہوتے ہواٹھارہ کروڑ عوام کے پیسے پر ڈاکہ مار کر کھانے والے۔ اپنی فیملی کے لیے قرض لے رہے ہو اور کہو کہ بنک کے ساتھ ہم نے adjustment کروا لی تھی۔ بنک خود ان پیسوں کا مالک نہیں ہے، پیسے تو وہ اس ملک کی عوام کے ہیں۔ ہم نے ان پیسوں کی re-adjustment کروا لی تھی۔ ہم نے عدالت میں جا کر stay دے دیا تھا۔ عدالت کون ہوتی ہے اٹھارہ کروڑ عوام کا پیسہ اس بنک میں تھا۔ بنک کی حیثیت فقط ایک ٹرسٹ کی تھی، امین کی تھی۔ ا س نے صرف اربوںکے حساب سے ایک ایک لیڈر کو، ایک خاندان کو، ایک ایک فرم کو، سیاسی طاقتور آدمی کو قرضے دے دیئے۔ آج بیس سال ہو گئے۔وہ قرضے واپس نہیں ہوئے۔تم نے ان کو stay دے دیا ہے۔ ارے یہ ظلم ہے، یہ کب ختم ہوگا؟

قوم کب جاگے گی؟ جب تک قوم اٹھ کر انہی کو ووٹ دیتی رہے گی، انہی چوروں کو، قرض خوروں کو، ٹیکس چوروں کو، لیٹروں، ڈاکوئوں کو، بدعنوانوں کومافیا ہے، اشرافیہ مافیا۔ جب انہی کو ووٹ دے گی قوم تو یہ پلٹ پلٹ کر بنکوں میں ڈاکے ڈالتے رہیں گے۔ یہ لوگ معیشت پر قابض رہیں گے، قومی خزانہ انہی کے ہاتھ میں ہوگا۔ غریب عوام اور ووٹ دینے والوں میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے بچوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ تمہاری نسلیں بھوکی رہیں گی، تمہاری نسلوں کو تن ڈھانپنے کا کپڑا نہیں ملے گا۔ تمہاری بیٹی اس طرح پریشا ن حال رہے گی۔ تمہارے گھر کے چولہے اسی طرح بجھے رہیں گے۔ تمہاری عزتیں لٹتی رہیں گی۔ تم پھر11 مئی کو انہیں ووٹ دینے جا رہے ہو۔ ووٹ لے کر پھر وہ اقتدار میں آئیں گے، انہیںکے بیٹے، بیٹیاں پلیں گی، انہیں کے پوتے پوتیاں پلیں گے، ان کے خاندان پلیں گے، ان کے داماد اور سالے پلیں گے۔ ان کی نسلیں پلیں گی۔ وہ جو ایک فیصدسے بھی کم طبقہ اشرافیہ مافیا ہے، وہ تمہارے پیسوں سے پلے گا اور تم عمر پر جلو گے۔

مبشر لقمان: لیکن یہاں پر ایک Problem ہے ڈاکٹر صاحب۔

ڈاکٹر طاہر القادری: جی۔۔۔

مبشر لقمان: ایک لمحے کے لیے میں، میں آپ ہی کی بات کو آگے لے جا رہا ہوں کہ ہمیں پتہ ہے کہ سیاستدان کرپٹ ہوگئے، ہوگئے۔ ہمیں پتہ ہے کہ عدلیہ میں کوئی کرپشن آ گئی تو میں نے مان لیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نام نہاد کاروباری حضرات بھی تو کرپٹ ہیں۔ آپ نے بتایا کہ وہ بنکوں سے قرضے لیتے ہیں۔ میں بتاتا ہوں کہ وہ بنک ہی خرید لیتے ہیں۔ عنقریب تھوڑے دن میں، میں ایک سٹوری کرنے والاہوں کہ میاں منشاء پاکستان کے کاروباری آدمی پاکستان کے امیر ترین آدمی کیسے بن گئے۔ MCB کیسے آیا، PIA کے شیئرز کیسے آئے۔ آدم جی کیسے آئی۔ ملت ٹریکٹرز کی نج کاری کیسے ہوئی اوراس کا حقیقی مالک کون ہے اور اب انہیں کون بیچنے کی کوشش کر رہا ہے؟ یعنی یہ لوگ، کہنے کو میاں صاحبان ہیں سارے۔ کہنے کو امیر ترین لوگ ہیں سارے اور ارب پتی اور کھرب پتی ہیں لیکن پیچھے ان کے گھنائونے کام ہیں، ان لوگوں کا احتساب کون کرے گا؟

ڈاکٹر طاہر القادری: ان لوگوں کا احتساب اس ملک میں اس نظام کے تحت مبشر صاحب کبھی نہیں ہو سکتا۔ انصاف کرنا ہے تو نظام صاف شفاف اور ستھرا چاہیے۔ ایک ایسا نظام چاہیے کہ جس میں احتساب ہو۔ ایک ایسا نظام چاہیے، جس میں شفافیت ہو۔ ایسا نظام چاہیے جس میں ہر کسی کے لیے مساوی قانون ہو۔ ہر چھوٹے بڑے شخص کے لیے سرمایہ دار ہے یا غریب ہے یا مزدور ہے تو سب کے لیے۔ قانون سب کے لیے ایک ہو۔ میرٹ پر سب فیصلے کیے جائیں۔ انصاف کرنے کے لیے اس نظام کو بدلنا ہوگا اور منتخب ہونے والے سیاسی لیڈروں سے سیاسی طاقت چھیننی ہوگی۔ میں آپ کوایک گر کی بات بتا رہا ہوں کہ جب یہ سیاستدان elect ہو کر جائیں گے تو اس نظام میں یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑی ترمیمات چاہیں، بہت تبدیلی چاہیے۔ اس الیکشن سے تو جب یہی لوگ جائیں گے تو یہ اپنے آپ کو مزید محفوظ کریں گے، طاقتور کریں گے اور آئین میں جو جو خانے، کلازز، آرٹیکل ایسے تھے، جن سے انہیںخطرہ رہا اور آئندہ ان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تو سیدھا سیدھا ان کو آئین سے بھی نکال دیں گے۔ آپ کے لیے شفافیت کاراستہ مزید بند ہو جائے گا۔ امانت، دیانت اس ملک میں گناہ بن جائے گا۔

پوچھ گچھ کرنا، سکروٹنی کرنا، مواخذہ طلب کرنااور ان سے جواب طلبی کرنا ناممکن ہو جائے گا اور عوامی سطح پر ان سے احتجاج کی تاریخ کرنا جیسے ہم نے لانگ مارچ کیااور دبائوکے ساتھ ایک اصلاح پر لائے اور بعد میں یہ پھر گئے۔ اتنی کوشش بھی ناممکن بنا دی جائے گی۔ یہ لوگ اپنے مستقبل کو ایسا ایسا محفوظ کریں گے کہ مبشر صاحب، آپ بھی کھرا سچ نہیں کہہ سکیں گے۔ آپ کے کھرے سچ کو بغاوت بنا دیا جائے گا۔

ان سے سوال کرنے والے کو بغاوت بنا دیا جائے گا۔ میں قوم کو اس بھیانک اور تاریک مستقبل سے آگاہ کر رہا ہوں۔ اس لیے اس نظام کو ٹھکرائے بغیر،کوئی چارہ نہیں اور ان کی گرفت تب ہوگی۔ دیکھئے گرفت تب ہوتی ہے، ان ملکوں میں ہوتی ہے۔ وہ نظام چاہتا ہوں یہاں آئے کہ کوئی MNA، کوئی MPA اور کوئی سینیٹر اس کے پاس کوئی ایگزیکٹو اتھارٹی نہ رہے۔ نہ اس کو فنڈ ملیں، نہ وہ DC لگوا سکیں، نہ وہ جج لگوا سکیں، نہ وہ پٹواری لگوا سکیں۔ تمام انتظامی عہدے قانونی طور پر غیر سیاسی ہو جائیں۔ انہیں قرض نہ ملے، اگرملے تو اسی طریقے سے ملے جیسے مبشر لقمان کو مل سکے۔ جیسے کسی اور ایک عام آدمی کو، جوMNA نہیں، MPA نہیں، اور بڑا سیاسی خاندان کا چشم و چراغ نہیں، جو مراعات انہیں مل سکتی ہیں، قانون کے مطابق وہی کچھ نہیں ملے۔

ان کے اثاثے چیک کیے جائیں، بیس پچیس سال سے اور دیکھا جائے کہ سیاست میں آنے سے پہلے یہ کیا تھے۔ ان کے اثاثے کیا تھے، فیکٹریاں کیا تھیں، بینک بیلنس کیا تھے، جائیدادیں کیاتھیں اورجتنا عرصہ یہ سیاست میں رہے تو کتنی رفتار سے بڑھے۔ ایک کمیشن بنانا ہوگا، جو کمیشن ان کے اثاثوں کو چیک کرے۔ جو ان کے اثاثوں کے بڑھنے کی رفتار کا تعین کرے۔ پھر سودوسو ہزار اور سوسائٹی کے عام businessman بھی لے لیے جائیں۔ جو ایم این اے، ایم پی اے اور سینٹیرز نہیں ہوں وہ بھی بزنس کرتے تھے۔ ان کے اثاثے دیکھیں کہ وہ کتنی رفتار سے بڑھے ہیں۔ دس سال سے کہاں تھے اور اب کہاں پہنچے۔ اور سیاسی طور پر موثر لوگ دس سال پہلے کہاں تھے اور اب کہاں تک پہنچے۔جو ایک عام شہری کی بزنس کی ترقی کی رفتار ہے تو اس حد تک یہ بھی ترقی کریں تو جائز ہے۔ان کا حق ہے معاف کر دیا جائے۔ اس سے زائد جو بھی ترقی کی ہو،کوئی ضرورت نہیں ہے تحقیق کی اور عدالتوں میں جانے کی۔وہ ساری جائیداد ضبط کر لی جائے۔ وہ کرپشن ہے۔

مبشر لقمان: Right … ڈاکٹر صاحب

ڈاکٹر طاہر القادری: اس کو misuse of power کہتے ہیں۔ اگر یہ ایم این اے نہ ہوتے۔ وزیراعظم نہ ہوتے۔تو انہیں کبھی مراعات نہ ملتی۔

مبشر لقمان: Right۔۔۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ہمارے ساتھ ہیں، ایک وقفہ کے بعد دوبارہ حاضر ہوتے ہیں۔

مبشر لقمان: ڈاکٹر صاحب میرے پاس صرف اڑھائی منٹ ہیں۔ ان میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اب عام آدمی الیکشن میں کیا کرے؟ کیا آپ اسےcivil war کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں۔ بڑا مختصر جواب دیجیئے گا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری: بڑا quick جواب دے رہا ہوں کہ کرپٹ لیڈراس قوم کو civil war کی طرف لے جائیں گے اور کوئی نہیں بچے گا۔ کوئی ادارہ نہیں بچے گا۔ اگر civil war ہو گئی تو عوام کے فوجی دستے، جو نہتے ہیں، غیر مسلح، میں مسلح کی بات نہیں کر رہا۔ لاکھوں، کروڑوں لوگ ان وڈیروں کو گھیر لیں گے۔ ان اداروں کو گھیر لیں گے اور kick out کر کے باہر نکال دیں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ قوم کو ان کو اس مقام تک پہنچائے کہ civil war اور انارکی پھیلے۔ بہتر یہ ہے کہ اس مقام تک پہنچے اور یہ پہلا step ہے۔ 11 مئی کو دھرنوں میں شریک ہوں۔ میں پوری قوم کو اپیل کرتا ہوں کہ اگرایمانداری سے یہ سمجھتے ہو کہ یہ کرپٹ ہیں تو اس نظام کو ووٹ نہ دو۔ جو ان کرپٹ لوگوں کو دوبارہ اسمبلی میں لا رہا ہے۔ اے اٹھارہ کروڑ عوام دیکھو جب یہ سارے کے سارے پاک ہو گئے ہیں۔ اہل ہو گئے ہیں اور اسمبلی میں جا رہے ہیں۔یہ اب کرپٹ نہیں رہے۔ اس کو الیکشن کمیشن ن پاک کر دیا ہے۔اب مجھے بتائیں کہ پھر کرپٹ کون ہیں۔ عوام کرپٹ ہیں۔کوئی تو کرپٹ ہوگا۔اگریہ کرپٹ نہیں تو آپ کو حق نہیں بچا یہ کہنے کا کہ یہ لیڈر کرپٹ ہے۔ یہ وزیراعظم کرپٹ ہے۔ یہ صدر کرپٹ ہے۔ زبانیں بند کر لیں۔ اگر آپ نے ان کو ووٹ دینا ہے پھر یہ کہنا بند کر دیں کہ کرپشن ہو رہی ہے اس ملک میں۔ووٹ دینے کی بجائے دھرنا کرو۔ اس نظام کے خلاف احتجاج کرو۔

11 مئی کو سب کو دھرنے کی دعوت دے رہا ہوں۔ پولنگ اسٹیشن پر نہیں، تاکہ law and order نہ ہو، بدمزگی نہ ہو۔ الگ شہر کے وسط میں۔ لاکھو ں لوگ دھرنے میں بیٹھے اور پوری دنیا کو دکھائیں کہ ہم لوگوں لوگ اس کرپٹ نظام کے کومسترد کر رہے ہیں۔ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ یہ پرامن طریقے سے مسترد کرنا ہوگا۔اگر اس سے ووٹوںکی تعداد جو کاسٹ ہوں گے، نیچے چلی آئی تو پھر میں اس قوم سے اور اداروں سے کہوں گا کہ اتنی کم ووٹنگ ہوئی ہے کہ اس الیکشن کو reject کر دیا جائے۔مسترد کر دیا جائے۔ اس نظام کو بدلا جائے۔اور پھر ایک ایسانیا نظام لایا جائے، جس میں عوام کے پاکیزہ کردار، اہل، باتعلیم،باشعوراور باسیرت لوگ منتخب ہو کر آئیں۔اور ایک نئے انقلابی نظام کے تحت اس ملک کے مستقبل کو سنوار سکیں۔

تبصرہ