اے آر وائی نیوز: ڈاکٹر طاہرالقادری کا ڈاکٹر دانش کو انٹرویو (War on Terror پر پاکستان عوامی تحریک کا مؤقف)

پروگرام: سوال یہ ہے (ARY News)

تاریخ: 26 اپریل2013ء

پاکستان عوامی تحریک کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ARY News کے پروگرام "سوال یہ ہے" میں ڈاکٹر دانش کو War on Terror پر اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس ملک میں فرقہ واریت کا فروغ بڑھا۔ اس ملک میں انتہاء پسندی کی ڈویلپمنٹ ہوئی، اس ملک میں ٹیررازم ہے۔ اور وہ ناقابل کنٹرول، ایک آفریت اور بھوت بن گیا۔ اس میں باہر کی فنڈنگ کا بہت بڑا رول ہے۔ یہاں میں بہت اہم بات کہنا چاہتا ہوں کہ غیر جانبدار کمیشن بنا کر تحقیق کی جائے اور ان تمام جماعتوں کو بین کر دیا جائے۔ ایسے تمام لیڈر جو مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں۔ انہیں قومی مجرم قرار دے کر بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ ان اداروں کو بین کر دیا جائے، ان کی جائیدادوں کو ضبط کر لیا جائے۔ جو کبھی بھی، کسی بھی اسٹیج پر شریعت کے نام یا جمہوریت کے نام پر باہر کے ملکوں سے مدد لیتے رہے ہیں، پلتے رہے ہیں اور ان کے ایجنڈے کے مطابق ڈائریکٹ یا انڈائریکٹ کام کرتے رہے ہیں۔ یہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہوتا رہا ہے۔ یہ ادارے کیوں خاموش ہیں۔ ان کے پاس ریکارڈ ہے۔ یہ انہتاء پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کا بھی سبب بنا ہے۔ یہ باہر کی فنڈنگ نے ہماری خارجہ پالیسی کو بھی متاثر کیا اور ہمارے ملک کے امن اور امان کو بھی برباد کیا۔ میں مثال کے طور پر یہاں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں کیونکہ میں پاکستان کے لیے اپنا ایک ویژن دے رہا ہوں۔

میں ISI کو دعوت دیتا ہوں، IB کو دعوت دیتا ہوں، MIB کو دعوت دیتا ہوں، پاکستان کے تمام تحقیقاتی اداروں اور دنیا بھر کے تمام ممالک کی ایمبییسز کو دعوت دیتا ہوں کہ تحقیق کریں۔ تئیس دسمبر سے لانگ مارچ تک جب میں پاکستان آیا۔ کرپٹ لوگوںنے اور باہر کا مال کھانے والوں نے شور مچایا کہ کسی کے ایجنڈے پر آئے اور باہر سے مال آیا ہے، پیسے لگ رہے ہیں اور فنڈنگ ہے۔ میں چیلنج سے کہتا ہوں کہ تنتیس برس میں امریکاسے لے کر برطانیہ تک، انڈیا سے لے کرعرب، گلف، ایران یا دنیا کے کسی ملک یا پرانے وقت میں لیبیا اور عراق سمیت کسی ملک سے منہاج القرآن یا پاکستان عوامی تحریک کو لانگ مارچ تک اور آج کے دن تک اگر ایک پائی، ایک پیسہ، ایک پینی، ایک ڈالر بھی ثابت ہو جائے تومجھے ہتھ کڑی لگا دی جائے۔ مجھے جیل بھیج دیا جائے۔ تحریک منہاج القرآن کی ساری جائیدادیں ضبط کر لی جائیں، اجازت دیتا ہوں۔ میری تحریک کو بین کر دیا جائے، بلیک لسٹ کر دیا جائے۔

اور یہی اصول پاکستان کی ہر سیاسی مذہبی قیادت پر نافذ کرنا ہوگا تاکہ گند صاف ہو، باہر کے ایجنٹ ختم ہوں اور فرقہ واریت ختم ہو۔ انتہاء پسندی کو فروغ دینے کا عمل ختم ہو۔ اس سے ہماری خارجہ پالیسی بھی مستحکم ہوگی اور ملک کے اندر دہشت گردی کا فروغ کا بھی خاتمہ ہوگا۔

اگر مجھے پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی ذمہ داری ملے۔ تو میں چھے محاذوں پر جنگ لڑوں اور اقدامات کروں گا۔

نظریاتی محاذ، تاکہ جن لوگوں کی برین واشنگ کی گئی ہے کہ جو بندوق، گولے اور بم کے ذریعے لوگوں کو قتل کرنا جہاد سمجھتے ہیں۔ قرآن اور حدیث کے ذریعے، ا ن کے دماغ کو، سوچ کو، فکر کو، عقیدے کو درست کیا جائے کہ یہ جہاد نہیں، یہ فساد ہے۔ یہ ظلم ہے اور قرآن و حدیث میں غیر متحارب مسلم یا غیر مسلم کی جان لینا فعل حرام ہے۔

پھر انسٹیٹیوشنل فرنٹ پراقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے مراد جو مدرسے ہیں، جن کے تابع مساجد ہیں۔ ان کے نصاب تعلیم میں ریفارمز کرنا ہوں گی تاکہ یہ پلیٹ فارم انتہاء پسندی کی فکر عام کرنے کا باعث نہ بنے۔ ان کے نصابات کو بدلنا پڑے گا۔ یہ سارے کے سارے نصابات exclusive ہیں، inclusive نہیں ہیں۔ اس میں ماڈریشن کی تعلیم نہیں ہے۔ ان نصابات میں محبت کی تعلیم نہیں ہے۔ رحم کی تعلیم نہیں ہے۔ امن کو فروغ دینے کی تعلیم نہیں ہے۔ دینی مدارس کے پورے دس سال کے نصاب گنوا رہا ہوں، جو صرف ونحو سے شروع ہوتے ہیں اور دورہ حدیث اور تخصص پر دس، بارہ سال میں ختم ہوتے ہیں۔ پھر اس سے بڑھ کر اگر میں نے یہ کرنا ہے تو میں peace ایجوکیشن پروگرام جاری کروں گا۔ کراچی سے لے کے وزیرستان کی سرحدوں تک اور بلوچستان سے لے کر کشمیر کی آخری سرحدوں تک، ہمیں پاکستان میں کم از کم پانچ ہزار سنٹرز چاہیے۔ جس میں peace ایجوکیشن پروگرام ہوں۔ ان پروگراموں میں اسکول peace شارٹ ٹرم پروگرام بھی شامل ہوں، علماء کے لیے بھی peace ایجوکیشن پروگرام ہوں، ٹیچرز کے لیے بھی peace ایجوکیشن پروگرام ہوں، عوام اور سماجی کارکنان کے لیے بھی peace سوشل ایجوکیشن پروگرام بھی ہوں۔ سوشل ورکرز کے لیے بھی ہوں۔

جو جو peaceful  طریقے ہیں، ان کو سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ غیر متحارب طریقے کیا ہیں، ان کو سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ ہمیں ایسے نصاب کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی طور پر عالم انسانیت کی ترقی کے تقاضوں کی تکمیل کر سکے۔ ہم دو تین صدیاں پرانے دینی نصاب پر کھڑے ہیں۔ دوسری طرف سیکولر ایجوکیشن ہے۔ جس سے دین کو نکال دیا گیا ہے۔ ہمارے سیکولر انسٹی ٹیوشنز سے ذہن دین دشمنی کے لیے تیار ہوتے ہیں اور مذہبی انسٹی ٹیوشنز سے ذہن سیکولرازم دشمنی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اپنی یونیورسٹیز، تعلیمی اداروں، اسکولز اور مساجد مدرسوں میں ہمیں دونوں سطحوں کو جوڑ کر ایک متوازن نظام تعلیم دینا ہوگا۔

پھر معاشی محاذ ہے۔ دہشت گردی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ کھانے کا پیسہ نہیں ہے۔ لوگ بچوں کو اٹھاتے ہیں، دہشت گرد خاندانوں کو وظائف دیتے ہیں اور دہشت گرد بناتے ہیں۔ ملازمت کے مواقع ہوں، یہاں معاشی اعتدال اور استحکام پیدا کیا جائے۔ ان کے لیے معاشی حالات بہتر کیے جائیں۔

پھر ملٹری فرنٹ پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ چھ، سات محاذوں پر کوشش کر کے ہم نے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ ملڑی کو سول سوسائٹی کے ساتھ ایک جوائنٹ وینچر ہونا چاہیے۔ جو لوگ مذاکرات سے دہشت گردی ختم کرنا چاہیں تو انہیں ڈائیلاگ کی ٹیبل پر لایا جائے۔ جو ڈائیلاگ اور جمہوریت پر یقین نہ کریں، اسٹیٹ کی رٹ کو چیلنج کریں تو انہیں پھر آرمی کے طریقہ سے ڈیل کیا جائے۔ جو آج دہشت گرد نہیں اور کل بننے والے ہیں تو ان کی ان اقدامات سے ذہن سازی کی جائے، جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔

اس لیے وار اور ٹیررازم میں ہمیں تین چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ایک ہیں خود کش حملہ آور۔ جو پہلے ہی بم بلاسٹ کرنے والے اور خود کش حملے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔ ان کے ساتھ ڈیلنگ کی پالیسی الگ ہوگی۔ کچھ ان کے شدت پسند سیاسی سپورٹرز ہیں، جو خود دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن ان کی آئیڈیالوجی کو بیٹھ کر سپورٹ کرتے ہیں۔ درپردہ ان کی فکر اور نظریہ کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اس کا تجزیہ کرنا ہوگا اور اس رحجان کو بے نقاب کر کے روکنا ہوگا کہ کیا آپ معصوم جانوں کے قتل کو جائز سمجھے یا ناجائز۔ دو ٹوک انداز میں اس کا جواب لینا ہوگا۔

تبصرہ