رضی طاہر
الیکشن ہوگئے اور تاریخ کے ماتھے پر بہت سے بدنما داغ چھوڑ گئے، یہ داغ تب تک نہیں دھلیں گے جب تک انقلاب دھرتی پاکستان پر پڑائو نہیں ڈالے گا، دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا اور ملک و قوم کیساتھ ایسا گھنائونا کھیل کھیلا گیا کہ جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔خریدنے والوں کی پہلے بھی کمی نہیں تھی مگر اب تو تاجروں نے ایوان اقتدار پر ڈیرے ڈال لیے، جنہیں خریدنا بھی آتا ہے بیچنا بھی، یاں تو بکنا بھی خوب آتا ہے، پڑھتے جائیے اور شرماتے جائیے، یہی وہی چہرے ہیں جنہوں نے جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگا کر پاکستان کے دل پنجاب میں نشتر زنی کی جسارت کی، یہی وہ بھیانک روپ ہیں جنہوں نے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایا، یہی وہ نام نہاد امیر المومنین ہیں جنہوں نے سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دیکر اسلام سے بغاوت کی تھی، یہ وہی آستین کے سانپ ہیں جنہوں نے ہمیشہ دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کی، فرقہ واریت کو ہوا دی، اور بازار سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد رکھی۔ یہ اب کی نہیں 93کی یادیں ہیں، اگلے دور کے سیاہ کارنامے بھی لکھوں تو شاید کالم کا حجم کم پڑ جائے ۔ ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے، ہمیں نہیں یاد کہ 18اپریل1993کا دن یوم نجات کے طور پہ منایا گیا، اسی طرح اکتوبر1999ماہ نجات بنا، اب مئی2013کو کیا لکھوں ؟ میں نہیں تاریخ لکھے گی۔
حق لکھنا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں ۔۔ اسلئے آج حق لکھنے میں ذرا برابر خوف محسوس نہیں ہورہا، کیونکہ میرے ضمیر پر اپنے لکھے ہو ئے ایک لفظ کا بھی بوجھ نہیں ۔۔۔ انتخابی ڈرامہ ختم ہوا، عوام محض اس ڈرامے میں بھیڑ بکریوں کی طرح ووٹ ڈالنے کیلئے لاد لاد کر لائے گئے، اب عوام کی جمہوریت کا حق ختم اور جمہوریت کے علمبرداروں کے حق آمریت کا دور شروع ہوچکا، اب کانوں میں کوئی جوں نہیں رینگے گی، چاہے کوئی بھوکا بچوں سمیت خودکشی کرے یا کوئی باپ غربت کے باعث بچے بیچے ۔کیوں کہ ڈوری ان کے ہاتھ ہے جن کو اگر یہ فرمان کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس فرمان عالیشان’’ کہ اگر کوئی جانور بھی فرات کے کنارے پیاس سے مر جائے تو میں اس کا بھی جواب دہ ہوں گا‘‘ سنایا جائے تو وہ اس کا بھی مذاق اڑائیں گے ۔ جی ہاں رانا ثناء اللہ کی ہی بات کررہا ہوں ۔قصر سیاست کی غلام گردشوں میں لیلیٰ اقتدار کا رقص بے حجاب جاری ہے، انسان کسی مہذب معاشرے میں خریدے نہیں جاتے ہم مہذب شہری ہیں اسلئے یاں بھی انسان نہیں بلکہ گھوڑوں کو خریدنے کا عمل شروع ہوچکا ہے، ہر طرف سے دام لگ رہے ہیں، بولیاں لگائی جارہی ہیں، یہ لاکھوں یا کروڑوں کی نہیں اربوں کی گیم ہے۔
جنون نے ’’جنان انتخابی مہم‘‘چلائی مگر کوئی ایک نیا چہرہ اس ملک کے ایوانوں میںنہیں پہنچ سکا، نتیجتاً دھاندلی کا رونا شروع ہوگیا ۔ محض جنون کا سونامی تباہی تو لا سکتا ہے تبدیلی نہیں، بے ھنگم عوام کے ہجوم کو تبدیلی نہیں کہتے، مقصد اور صحیح سمت کا تعین بھی ضروری ہے ۔ خواب کیوں چکنا چور ہوئے سوچنا ہوگا ؟ آج نہیں سوچیں گے تو پھر احتجاج کے حق سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ کیونکہ غلام ذہنیت ہی نظام کی بقا ہے ۔ میری دانست میں اب جنون کو شعور کی ضرورت ہے، کہنے والے کہہ گئے کہ شعور کی بیداری حق اور باطل کی پہچان سے عبارت ہے،
ہمیں اب یہ جان لینا چاہیے کہ ہمارا دشمن کوئی سیاسی جماعت نہیں یا کوئی تنہا شخصیت نہیں بلکہ اس ملک کا فرسودہ انتخابی و سیاسی نظام ہے جس نے جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور فوجی ڈکٹیٹروں کو 65سال سے نوازا ہے، اور عوام کے حصے میں کیا آیا، محض رونا۔۔۔
تبصرہ