ڈاکٹر طاہرالقادری کی جدوجہد: مغالطوں کا ازالہ

ڈاکٹر رحیق احمد عباسی (مرکزی صدر پاکستان عوامی تحریک)

23 دسمبر 2012ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے ملک کے سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے جس جد و جہد کا آغاز کیا اس نے نہ صرف سٹیٹس کو کے حامیوں کو لرزا دیا بلکہ ملک کے ہر غور و فکر کرنے والے کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہماری ملکی بقاء صرف اور صرف نظام کی اصلاح میں مضمر ہے۔ جب تک نظام کی اصلاح نہیں کی جاتی اس وقت تک انتخابات سے سوائے چہروں کی تبدیلی کے ہمیں کچھ میسر نہیں آئے گا۔ اور موجوہ نظام سے ہم ملک کو اس منزل کی طرف رواں دواں نہیں کر سکتے جس میں ہماری بقاء ہے اور عوام کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی جدوجہد کے آغاز کے پہلے دن سے قومی سطح پر شعوری یا غیر شعوری طور پر ایسی غلط فہمیاں اور مغالطے پھیلائے گئے تا کہ وہ بنیادی مقصد جس کے لیے یہ ساری جدوجہد بپا کی گئی پس منظر میں چلا جائے۔ میڈیا میں ایک منظم سازش کے تحت شیخ الاسلام کی شخصیت پر کیچڑ اچھالا گیا، اُن کے ذاتی کردار کو موضوع بحث بنایا گیا اور ایسی ایسی دور کی کوڑیاں لائی گئیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ اس سارے منفی پراپگنڈے کا مقصود یہ تھا کہ سٹیٹس کو کے حامی لوگ اس تبدیلی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر سکیں، جس تبدیلی کے آنے کے نتیجے میں اولین شکار انہی نے بننا تھا۔ آج بھی ملک بھر میں ایک آزادانہ، منصفانہ اور حقائق پر مبنی تجزیہ کی بجائے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی جدوجہد، کاوشوں اور ان کے موقف کا متعصبانہ اور جانبدارانہ انداز میں تجزیہ کیا جارہا ہے۔

پاکستان کی تاریخ کی عدیم المثال اور اتنی بڑی ملک گیر جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے 23 دسمبر 2012ء کو مینارِ پاکستان میں ہونے والے تاریخ اجتماع میں ڈاکٹر طاہر القادری نے جس بنیادی نکتہ پر زور دیا وہ یہی تھا کہ جب تک ہم اپنے نظام انتخاب کی اصلاح کر کے اسے اس قابل نہیں بناتے کہ صرف اہل، دیانت دار اور آئینی، قومی اور ملی تقاضے پورے کرنے والے لوگ ہی منتخب ہو کر ایوانوں میں پہنچیں اُس وقت تک ملک میں جاری بری حکمرانی، کرپشن، اقرباپروری اور سیاسی بد انتظامی کے کلچر کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بقیہ تمام تفصیلات چاہے ان کا تعلق الیکشن کمیشن سے تھا، امیدواروں کی سیکرونٹنی سے تھا، آئین کی شق 62، 63 کے نفاذ سے تھا یا ان تمام اقدامات پہ عمل درآمد کرنے کے لیے انتخابات کے بروقت انعقاد یا قدرے التوا سے تھا وہ سب اقدامات اسی بنیادی مقصد کو پورا کرنے کے لیے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر مقتدر حلقے نیک نیتی کے ساتھ اس بنیادی نکتہ کو پیش نظر رکھ کے نظام انتخاب کی اصلاح کو اپنی ترجیح اول بناتے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج ہمارا سیاسی منظر بالکل مختلف نہ ہوتا۔ یہی وہ نکتہ تھا جسے ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاکھوں کے اجتماع میں قوم کے سامنے رکھا، اسی نکتہ کو نمایاں کرنے کے لیے لانگ مارچ کیا گیا اور اسلام آباد میں 4 دن تک منہاج القرآن سے وابستہ ہزاروں لوگ قیام پذیر رہے اور اسی نکتہ کو قابل نفاذ بنانے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اور آج انتخاب کے بعد آنے والے نتائج اس بات کو درست ثابت کر رہے ہیں کہ وہ موقف جو پاکستان عوامی تحریک نے انتخابات سے پہلے اختیار کیا تھا اس موقف کی تائید آج انتخاب ہونے کے بعد سامنے آنے والے حقائق کرتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کی تاریخ کے ایسے عدیم المثال انتخابات ہیں جن میں انتخاب جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں ہی سراپا احتجاج اوراحتجاجی دھرنوں پرنکلے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کے موقف حوالے سے کس طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں یا پھیل رہی ہیں اس کا ایک اندازہ بزنس ریکارڈر میں چھپنے والے ابو امان کے مضمون سے ہوتا ہے جس میں بہت سی ایسی باتیں ڈاکٹر صاحب سے منسوب کر دی گئیں ہیں جن کا شاید پورے افسانے میں ذکر تک نہیں۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ ڈاکٹرطاہرالقادری کی جدوجہد کا مقصد ملک میں کوئی آمرانہ نظام قائم کرنا ہے تو یہ ایک بھول ہے ایسا نکتہ نظر وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جس نے نہ ہی ڈاکٹر صاحب کی ماضی کی جدوجہد کو پیش نظر رکھا نہ ہی ان کی دنیا بھر میں کی جانے والی کاوشوں کو سامنے رکھا اور نہ ہی اس کی نظر 23 دسمبر کے بعد ہونے والی پیش رفت اور جملہ اقدمات اور نظام کی اصلاح کے لیے ان کی کاوشوں پر ہے۔ اس وقت بھی جب کہ ڈاکٹر صاحب سیاست میں عملاً فعال نہیں تھے انہوں نے کبھی آمریت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش نہیں اس کا بڑا ثبوت 1985ء میں ایک تقریب میں ہونے والا ان کاخطاب ہے جس کی صدارت اس وقت کے ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کر رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب کا وہ خطاب اب سیاسی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل کے نام سے شائع ہو چکا ہے جو دیکھا جاسکتا ہے اور اس پڑھ کے اس امر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک آمر کے سامنے کس طرح سے ڈاکٹر صاحب نے جمہوری روایت کی ثقاہت اورعوام کے جماعتی، جمہوری اور انتخابی حقوق کی حمایت کی اور جنرل صاحب کو اس بات پہ قائل کرنے کی کوشش کی کہ ملکی بقاء اس بات میں مضمر ہے کہ آمرانہ اقدامات کے بجائے جمہوری انداز میں ملک کو آگے بڑھایا جائے۔ دور آمریت میں ڈاکٹر صاحب کے جرات مندانہ موقف کو اس وقت کے دانشوروں جن میں وارث میر بھی شامل تھے نے خراج تحسین پیش کیا تحا۔ اور اگر یہ سمجھا جائے جیسا کہ مضمون نگار کا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جہاں ان کا آئیڈیل امریکہ یا برطانیہ کا کوئی نظام ہے جو پہلے ہی بہت سی خامیاں اور خرابیوں سے پر ہیں تو یہ بھی نفس مسئلہ کو نہ سمجھنے اور ڈاکٹر صاحب کے موقف کو نہ جاننے کے باعث ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے کبھی بھی مغرب کا کوئی بھی نظام آئیڈیل نہیں رہابلکہ ان کا آئیڈیل ریاست مدینہ کا نظام ہے اور وہ بارہا اس امر کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ایک مثالی اسلامی ریاست اس وقت ہی قائم ہو سکتی ہے جب وہ ریاستِ مدینہ کی پیروی کرتے ہوئے تشکیل دی جائے۔

ڈاکٹر صاحب جس انداز سے ملکی نظام کی اصلاح کی جدوجہدفرما رہے ہیں اس کی دو جہتیں ہیں اولاً کہ نظام کو درست کیا جائے اس میں موجود خرابیاں ٹھیک کی جائے اور اس کے لیے ہم اپنے ملکی حالات، عوام کی ضروریات اور مقامی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے بنیادی سرچشموںسے رہنمائی لے کر اپنے نظام کی اصلاح کر سکتے ہیں۔

اور اس کی دوسری جہت یہ ہے کہ ملک کی حکمرانی کو مثالی بنانے کے لیے حکمرانی کے منصب تک پہنچنے والے افراد کے لیے ایسا ضابطہ کار اور راہ عمل متعین کر دیا جائے کہ جس سے صرف وہی لوگ حکمرانی کے منصب پر فائز ہو سکیں جو کردار، اہلیت اور کارکردگی کے لحاظ سے تمام بنیادی تقاضے پورے کرتے ہوں اگر قوم کے سامنے برے اور اچھے میں سے انتخاب یا دو بروں میں سے کم تر برے کے انتخاب کا آپشن رکھا جائے گا تو خرابی کا آغاز اس نظام کی خشتِ اول سے ہی ہو جائے گا۔ اس کے بجائے نظام کی تشکیل اس طرح کی جانی چاہے کہ قوم کے سامنے اچھے یا برے میں سے یا کم برے اور زیادہ برے میں سے انتخاب کرنے کا آپشن نہ ہو بلکہ دو اچھے امیدواروں میں سے زیادہ اچھے امیدوارکے انتخاب کا آپشن ہو۔ یہ وہ بنیادی معیار ہے جو ہمیں دورِ خلافتِ راشدہ میں ملتا ہے۔ اور یہی وہ معیار ہے جسے نظام میں ڈھالنے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے لیے اُن کے پیش کردہ کئی اقدمات میں سے دو اقدامات کی تائید خود مضمون نگار نے بھی اپنے مضمون میں کی ہے۔ اولاً الیکشن کمیشن کا کردار کہ جس پر پاکستان عوامی تحریک پہلے دن سے احتجاج کر رہی تھی اور آج ملک کا بچہ بچہ اسی المیے کو شد مد سے بیان کر رہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنا کردار کماحقہ ادا نہیں کر سکا۔ الیکشن کمیشن کی اسی کمزوری کے باعث ملک کی بیسیو ں نشستوں پر انتہائی ٹیکنیکل انداز سے دھاندلی کی گئی۔ اس طرح ایسے لوگ منتخب ہو کر اوپر آئے جو عوامی امنگوں کے آئینہ دار اور ترجمان ہیں نہ ہی آئینی، قانونی اور دستوری تقاضے پورے کرنے کے اہل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اس کردار پر تمام سیاسی جماعتیں حتی کہ خود صدر مملکت سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔

دوسرا نمایاں اقدام جس کی تائید مضمون نگار نے بھی کی ہیں وہ ہے متناسب نمائندگی کے نظام کو متعارف کروانا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاسی جدوجہد پر نظر رکھنے والے اس بات کو جانتے ہیں کہ یہ مطالبہ ڈاکٹر صاحب کا آج کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ 1995–96 میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر صاحب نے قوم کے سامنے یہ آپشن رکھا تھا کہ ہمیں اپنے ملکی حالات اور تقاضوں اور وفاق کے ڈھانچے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے نظام انتخاب کی طرف ہمیں بڑھنا ہو گا جس سے نہ صرف ملک کے تمام طبقات کی نمائندگی ایوان پارلیمان میں موجود ہو بلکہ اس نمائندگی کا انداز ایسا ہو کہ پارلیمان میں پہنچنے والے والے لوگ اپنی قیادت کو کسی بھی طرح سے بلیک میل کر کے جائز یا ناجائز مطالبے پورے کروانے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کو نہ استعمال کرتے رہیں۔ اس کے بجائے اُن کی تریج اول اپنے پارلیمانی فرائض کی ادائیگی ہو۔ یہ مقاصد اسی وقت پورے ہو سکتے ہیں جب ہمارا نظام انتخاب متناسب نمائندگی کا حامل ہو۔ ایک شخص ایک ووٹ کے ذریعے جس انداز سے ہم نمائندوں کو منتخب کر کے پارلیمان میں بھیجتے ہیں وہ نہ صرف ملک کی بڑی آبادی کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اُن کا کردار بھی پارلیمانی نہیں رہتا۔ موجودہ انتخابات ڈاکٹرالقادری کے اس موقف کی توثیق کرتے ہیں۔ ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی انہیں ملنے والی نشستوں سے کوئی منطقی مناسبت نہیں۔ مسلم لیگ ن نے 35 فیصد ووٹ حاصل کیے مگر اس کی نشستوں کی تعداد 2ء45 فیصد ہے۔ ملک بھر میں ووٹ حاصل کرنے والی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 8ء17 فیصد ووٹ حاصل کیے مگر اس کی نشستوں کی تعداد صرف 6ء9 فیصد ہے۔ جمیعت علمائے اسلام ف نے 9ء2فیصد ووٹ حاصل کیے مگر اس کی نشستیں 7ء3 فیصد ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ قاف کو 2ء3 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صرف 0ء7 فیصد نشستیں ملیں۔ ایم کیو ایم نے بھی 6ء5فیصد ووٹ حاصل کر کے اس سے زیادہ نشستیں یعنی 6ء6فیصد حاصل کیں۔ یعنی ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن، جمیعت علمائے اسلام ف، اور ایم کیو ایم نے حاصل کردہ ووٹوں کی نسبت زیادہ تعداد میں نشستیں حاصل کیں، جبکہ ان کے مقابل لاکھوں ووٹر اپنے نمائیندے پارلیمان میں بھجوانے میں ناکام رہے۔

اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمرانی کے منصب پر فائز ہونے کی تیاری کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن نے اپنے 49 فیصد ووٹ اور 4ء78 فیصد نشستیں صرف پنجاب سے حاصل کی ہیں جو وفاق کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ یہ پنجاب سے نمائندگی کے ہوشربا منظر کی ایک مثال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب سے 7ء18فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود 4ء5 فیصد نشستیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ قاف نے 9ء4 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صرف 4ء1 فیصد نشستیں حاصل کرسکی ہیں۔

موجودہ انتخابات کے نتائج کی ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جدوجہد کا مقصد صرف اور صرف ملک کے نظام کی اصلاح ہے جب تک ہمارے ملک کا سیاسی نظام اصلاح پذیر نہیں ہو سکتا اس وقت تک مزید کسی بھی شعبے یا حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی، بہتری یا قومی مفادکے تحفظ کے اقدامامت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔


سلسلہ تعارف تحریک منہاج القرآن کے ضمن میں اہم تصنیف
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری: تنقید، کارنامے، تاثرات

مطالعہ کیلئے کلک کریں


www.Tahir-ul-Qadri.com

تبصرہ