پاکستان اور حقیقی جمہوریت کانفرنس
خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
مقام: برمنگھم، برطانیہ
خطاب نمبر: M–249
تاریخ: 04 مئی 2013ء
ناقل: محمد خلیق عامر
فرید ملّت رحمۃ اللہ علیہ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عَنْ أبِي بکر الصِّدِيْق سمعت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقول: مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِیْ، ثُمَّ يَقْدِرُوْنَ عَلَی أَنْ يَغَيِّرُوْا ثُمَّ لَا يُغَيِّرُوْا، إلَّا يُوْشِکُ أنْ يَّعُمَهُمُ اللّٰهُ مِنْهُ بِعِقَابْ. (ابوداؤد، السنن، 4:122، الرقم:4338) صدق اﷲ مولنا العظيم.
ایک زمانہ آئے گا جب لوگوں میں گناہ، نافرمانی، کرپشن، دھاندلی، وہ تمام امور جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا اس طرح کے عظیم گناہ ہونے لگیں گے، لوگ صورتحال کو بدلنے کے لیے اٹھیں گے نہیں، آقا علیہ السلام نے اس حدیث میں تبدیلی کی بات کی، انقلاب کی بات کی، کہ حالات اتنے خراب ہو جائیں گے، آپ کو ادراک ہے، یہ وہ زمانہ ہے، تو آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ جب یہ زمانہ آئے اور لوگوں کے سامنے یہ سب ہو رہا ہو اور لوگ اس کو بدلنے کے لیے نہ اٹھیں، انقلاب کے لیے نہ اٹھیں تو فرمایا: اللہ رب العزت عنقریب اس پوری قوم میں اپنے عمومی عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔ کوئی بھی نہیں بچے گا۔ اب اسی حدیث کو ان الفاظ میں بھی سیدنا صدیق اکبر رحمۃ اللہ علیہ روایت کیا ہے وہاں لفظ تھا فَلَمْ يُغَيِّرُوْا تبدیلی کے لیے اٹھیں گے نہیں، دوسرے مقام پر سیدنا صدیق اکبر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کلمہ کے ساتھ آقا علیہ السلام کے فرمان کو روایت کیا کہ يَقُوْلُ: إنَّ النَّاسَ إذَا رَاوُ المُنْکَرْ فَلَمْ يُنْکِرُوْهُ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے۔
اس کرپشن کے خلاف، حق تلفی اور بددیانی کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، اس کو مسترد نہیں کریں گے اور دیکھیں گے کہ بددیانت لوگ قوم کا خزانہ لوٹ رہے ہیں اور پورا نظام معاصی کو فروغ دے رہا ہے، مگر لوگ انقلاب کے لیے ان کا راستہ روکنے کے لیے نہیں اٹھیں گے تو اللہ تعالیٰ ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ تیسری حدیث حضرت حذیفہ بن الیمان رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ. اس رب ذوالجلال کی عزت کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، آقا علیہ السلام نے فرمایا: دو صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ تم لوگوں کو نیکی، اچھائی کی طرف بلاتے رہو گے یغنی آواز حق اٹھاتے رہو گے اور بدی اور برائی کے خلاف سینہ سپر ہو کے کھڑے رہوں گے، مذمت کروگے اور اگر تم نے یہ کام روک دیا اور گھر بیٹھ گئے اور یہ سوچ لیا کہ ہماری کوشش سے کیا ہو گا، تمہاری خاموشی کے نتیجے میں نیکی دبتی رہے اور بدی طاقتور ہتی رہی تمہاری خاموشی کے نتیجے میں تو پھر دوسری صورت یہ ہوگی، اگر تم خود فریضہ ادا کرنا چھوڑ دو گے تو اللہ رب العزت اپنی بارگاہ سے عذاب اتارے گا اور ساری سوسائٹی کو اس عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا، ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ، اور جب عذاب کی لپیٹ میں قوم آ جائے گی تو پھر اگر صالحین بھی دعا کریں گے ہاتھ اٹھا کر کہ باری تعالیٰ ہماری قوم پہ رحم فرما، عذاب اٹھا لے، تم دعا کرو گے تو تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔اس وجہ سے قبول نہیں ہوں گی، کہ تم نے اپنی خاموشی کی وجہ سے ظالموں، جابروں کو اقتدار تک پہنچنے کی دعوت دی، تم نے خاموشی اور بے حسی کی وجہ سے ظلم کو پورے معاشرے میں طاقتور ہو جانے میں مدد کی۔(احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے یوں لگتا ہے کہ آقا علیہ السلام آج سے چودہ صدیاں پہلے ہمارے دور کا مشاہدہ فرما رہے ہوں، پہلے سے آگاہ فرما رہے ہیں) اب حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم ایک مرتبہ حضور علیہ السلام کے گرد حلقہ کی صورت میں بیٹھے تھے، حضور علیہ السلام کی اس مجلس میں فتنے کا ذکر ہوا کہ ایک دور فتنوں کا آئے گا، بعض صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ وہ فتنوں کا دور کیا ہو گا؟ اس پر آقا علیہ السلام نے جواب دیا، فتنوں کا دور یہ ہو گا إذا رأيتم الناسَ قد مرجت عهودهم وخفت أماناتهم، فتنوں کا دور وہ ہو گا، جت تمہارے اندر یہ چیز عام رواج پا جائے گی کہ جو وعدے کئے جائیں گے توڑے جائیںگے اور قوم کو امانتیں کی جائیں گی، کرپشن ہو گی۔ اور اس کرپشن کو بڑا ہلکا، معمولی سا کام سمجھا جائے گا۔ سیاسی کلچر سمجھا جائیگا، لوگ اس پر دھیان بھی نہیں دیں گے۔
کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے ہوں گے تو الگ الگ، کسی کا تعلق کس جماعت سے کسی کا کس سے، آقا علیہ السلام نے فرمایا: وہ کس طرح ہوں گے؟ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں ایک دوسرے میں ڈال کر فرمایا: اندر سے یوں ہوں گے وکانوا هکذا وشبک بين أصابعه، یہ الگ الگ ہو کر یہ ساری جماعتیں اور لیڈر آپس میں اس طرح اکٹھے ہو جائیں گے، ان کا مک مکا ہو جائے گا، اس طرح جڑ جائیں گے جیسے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں جڑ گئی ہیں اور یہ جدا نہیں ہوں گے، دیکھنے میں جدا ہوں گے مگر کرپشن پر ایک ہو جائیں گے۔ آپ نے دیکھا میرے آقا نے جس زمانے کی نشاندہی فرمائی وہ وقت چند مہینے پہلے آپ نے دیکھا کہ آوازِحق بلند ہوئی، جو لوگ عمر بھر شریعت کے نام پر، اللہ رب العزت جن جماعتوں کو رزق دیتا ہے، کتاب وسنت کے نام پر جن کو رزق دیتا ہے وہ بھی کرپشن کے ساتھ مل گئے اور کرپٹ بھی ان کے ساتھ مل گئے، کس ایجنڈے پر جڑ جائیں گے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: وعدہ خلافی اور کرپشن کے ایجنڈے پر جڑ جائیں گے۔ اس پر صحابی کہتے ہیں عبداللہ بن عمرو بن العاص رحمۃ اللہ علیہ میں نے پوچھا یارسول اللہ جب ایسا وقت آ جائے تو کیا کریں؟
آقا علیہ السلام نے پھر ایک پورا نسخہ عطا فرمایا، اس کے آخری الفاظ ہیں فرمایا: خذ بما تعرف ودع ما تنکر، فرمایا: جب ایسے حالات ہو جائیں تو کسی کی مت سنو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس شے کو سچ کہا ہے اس کے ساتھ جڑ جاؤ اور جس شے کو باطل اور جھوٹ کہا ہے اس کو رد کر دو، وعليک بأمر خاصة نفسک، اپنی ذات کی ذمہ داری نبھانے پر ڈٹ جاؤ ودع عنک أمر العامة. اور یہ مت دیکھو کہ عوام الناس کدھر جا رہے ہیں، عوام الناس بھلے ووٹ دینے جا رہے ہیں، کسی پارٹی کے پیچھے جا رہے ہیں، ان کے مفادات ہیں، ان کے پیچھے برادریاں ہیں، ان کے دھندے ہیں، فرمایا: عامۃ الناس کی پیروی نہ کرو خدا و رسول کے حکم کی پیروی کرو، عوام کا رجحان کیا ہے اسے رد کر دو، خدا رسول کا فرمان کیا ہے اس کو اپنا لو۔
ہم نے اس دور میں نہیں دیکھا کہ عوام کیا چاہتے ہیں، ہم نے عوام کے رجحان کو رد کیا ہے اور خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو اپنایا ہے اور لومۃ لائم کوئی بھلے تنقید کرے، طعن کرے، تشنیع کرے اس کی پرواہ نہیں کی مگر ہم نے کہا کہ حق وہ ہے جو خدا و مصطفی نے دیا ہے اور لیڈر وہ ہوتا ہے، حدیث پاک میں ہے اور جب فرمایا: وإياک وعوامهم، پرہیز کرنا لوگوں کے پیچھے نہ جانا، لیڈر، قائد کا کام نہیں کہ عوام کے رجحان کو دیکھ کے وہی آواز بلند کرے، انہی کے پیچھے جائے تا کہ لوگ مجھے اچھا کہیں، نہیں، قائد وہ ہے جو عوام کے پیچھے نہ چلے بلکہ عوام کو راستہ دکھائے، لیڈر عوام کی راہ متعین کرنے والا ہوتا ہے، جس سوسائٹی میں عوام الناس رجحان متعین کرنے لگ جائیں اور لیڈر ان کی خوشی کی خاطر ان کے پیچھے چلے جائیں، اس سوسائٹی پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور جس میں لیڈر اللہ رسول کے فرمان کو اصول جانیں اور اس کی روشنی میں رجحان متعین کریں زمانے کا اور لوگوں کے دھارے کی پرواہ نہ کریں، اللہ ان پر اپنی رحمت کا نزول فرماتا ہے۔
اور حضور علیہ السلام نے یہاں تک ذمہ داری ادا کرنے کو کہا، حضرت ابوالدرداء رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں، فرمایا: لن تذالوا بخير ما لم تعرفوا ما کنتم تنکرون، جب تک تم بدی کو نیکی نہیں سمجھو گے خیر پہ رہو گے، ہم نے نیکی اور بدی میں اختلاط کر دیا۔ وما دام العالم يتکلم فيکم بعلمه فلا يخاف ابدا، اگر بہت سے لوگ نہ بھی رہیں حق کی آواز بلند کرنے والے ایک عالم بھی رہ جائے میری امت میں، سوسائٹی میں اور قرآن و سنت کا علم، جو اللہ نے اسے خیرات کیا ہے اس کی روشنی میں لوگوں کو حق بتاتا رہے اور لوگوں سے ڈرے نہ کہ وہ کیا کہیں گے۔ آقا نے فرمایا: تب بھی اللہ ان پر اپنا عذاب نہیں نازل کرے گا۔ اس وقت یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم بھیڑ چال نہ چلیں۔ حق کو خدا اور رسول کے فرمان سے اخذ کریں اور عوام کا رجحان اس کی روشنی میں متعین کریں اور بلا خوف و خطر ہم حق کے لیے جدوجہد کریں تا کہ اللہ رب العزت کے عذاب سے قوم بھی بچے اور ہم بھی بچیں۔ آقا علیہ السلام نے ہمارے معاشرے کی عکاسی کچھ یوں کی:
میرے گھر کو آگ لگی تھی، کچھ لوگ بجھانے آئے تھے
جو مال بچا تھا جلنے سے، سو وہ بھی اُن کے ہاتھ لگا
یہاں جلنے کے بعد جو بچ جائے گا 11 مئی کے بعد وہ ان کے ہاتھ لگ جائے گا، بچے گا کچھ نہیں اور میں ان سیاسی لیڈرز سے سوال کرتا ہوں، امراء، MNA، امیر شہر ہیں سوال کرتا ہوں کہ تم 65 برس سے غریب کی غربت سے کھیلتے رہے، ان کی عزت سے کھیلتے رہے ہو، اس ملک کی دھرتی پر خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی ہے، کرپشن کا بازار گرم رہا ہے، ادارے برباد ہوئے ہیں، جمہوریت کی مٹی پلید ہوئی ہے، امانت نام کی کوئی شے نہیں بچی، معاشی ترقی کا خاتمہ ہو گیا ہے، سارے ادارے برباد ہو گئے ہیں، غریب کو کھانے کا کچھ نہیں۔ غریب اپنی عزت یا خون بیچ کے کھا رہا ہے۔ تو میں اس امیرِ شہر سے سوال کرتا ہوں وہ یہ کہ:
لہو کو بیچ کر روٹی خرید لایا ہوں
امیرِ شہر بتا یہ حلال ہے یا نہیں؟
اے امیرِ شہر جہاں لوگ لہو بیچ کر روٹی کے لقمے کو ترس رہے ہیں، جہاں عزتیں بیچ کر جینا مانگ رہے ہیں، جہاں کسی کی عزت کی حفاظت نہیں، جان کی نہیں، مال کی نہیں، عدل و انصاف عدالتوں میں نہیں ملتا، کرسیوں پر بیٹھنے والے عدل کو بیچنے والے ہیں، ہر طرف ضمیر فروشی ہے۔ جب حالات یہ ہیں تو امیرِ شہر بتا یہ حلال ہے یا نہیں۔ تم اس کو جمہوریت کا نام دیتے ہو؟ اس کو آئین کہتے ہو؟ یہ قانون ہے؟ جہاں آئین رو رہا ہے، قانون رو رہا ہے، جمہوریت رو رہی ہے کہ کوئی حق، کوئی ضابطہ، کوئی اصول نہ آئین کا بچا، نہ قانون کا بچا، نہ جمہوریت کا بچا۔ اور گیارہ مئی کو یہ نظام پلٹ کر انہی لٹیروں کو پھر اقتدار پہ لا رہا ہے۔ یہ جملے میرے لکھ لیں، ممکن ہے آج کوئی یہ سمجھے کہ میری بات درست نہیں، اگر وہ ایسا سمجھے یہ اس کا حق ہے، بحث نہیں کرتے، گیارہ مئی آنے والی ہے، گیارہ مئی کی شام یا بارہ مئی کو میرے جملے یاد کر کے لکھ لینا، اس وقت فیصلہ لکھ لینا کہ جو بات کی تھی سو فیصد یہ درست ہے یا نہیں۔
قوم یہ کہتی رہی کہ چہرے نہیں نظام کو بدلو اور میں برملا بتا رہا ہوں، اللہ کی عزت کی قسم جو میں دیکھ رہا ہوں، یہاں نظام بدلنا تو دور کی بات ہے چہرے بھی نہیں بدلیں گے اور پچھلے انتخابات سے بھی بدترین انتخابات ہوں گے۔ الیکشن ہوتے تھے مگر ڈاکو ڈاکو کہلاتے تھے، چور چور کہلاتے تھے، کرپٹ کرپٹ کہلاتے تھے، لٹیرے کو دنیا لٹیرا کہتی تھی، وہ انتخابات کسی کو گنگا میں نہلا دھلا کے پاک صاف کر کے نہیں بھیجتے تھے۔ اب انتخابات میں اس کرپٹ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 62، 63 کی تزہیک کر کے، آئین کی تذہیک کر کے سب داکوؤوں کو، چوروں کو، لٹیروں کو، غاصبوں کو، حرام خوروں کو، قرض خوروں کو، ٹیکس چوروں کو آرٹیکل 62، 63 کی گنگا میں نہلا کے انہیں پاک صاف ہونے کا سرٹیفکیٹ پکڑا کے بھیج دیا۔
اب وہی چور جن کے ذمے اربوں روپے کے قرضے ہیں، وہی ڈاکو جو قوم کا خزانہ لوٹ کے کھا گئے اور وہی دہشتگرد اور وہی خائن، بددیانت جو پوری قوم کی دولت سے ہمیشہ کھیلتے رہے اب جب اسمبلی میں جا کے بیٹھیں گے اور وہ جعلی ڈگریوں والے، جھوٹی ڈگریاں لے کر پہلے تو قوم کو یہ تھا کہ یہ جھوٹی ڈگریوں والوں کو نکال دیا گیا، اب جھوٹی ڈگریوں کی تصدیق ہو گئی، ایچ ای سی نے کہہ دیا، الیکشن کمیشن نے کر دیا کہ اڑھائی سو ڈگریاں جھوٹی ہیں، جعلی ہیں، نا اہل ہو گئے اور ٹربیونل نے ان ساروں کو اہل کر کے اسمبلی میں بھیجنے کا راستہ دے دیا۔
اب ڈاکو کہے گا میں متقی ہوں، میرے پاس 62، 63 کا سرٹیفکیٹ ہے، الیکشن کمیشن کے رکنو تم نے اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے، حرام خورو، ظالمو، اپنی رشوت کھانے کے لیے تم نے 62، 63 کا نام لے کر وہ تماشا رچایا کہ اب چور، ڈاکو کہے گا کہ میں تو پاک صاف ہوں، میں 62، 63 کی چھلنی سے نکل کے آیا ہوں۔ اتنا بڑا دھوکا اس قوم کے ساتھ کیا۔ اور اس جرم میں وہ بھی شریک ہیں، وہ لوگ جنہوں نے اس کرپٹ الیکشن کمیشن کو یا ان لوگوں کو تحفظ دیا۔ ان کو سپورٹ کیا۔ ایسے مجرموں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ کرسی ہر وقت نیچے نہیں رہتی۔۔
تم سے پہلے بھی اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا
وہ بھی خدا بن کے بیٹھتا تھا، بڑی بڑی غرور کی گردنیں ٹوٹ گئیں، تمہاری کرسیاں بھی کھینچی جائیں گی، تمہاری گردنیں بھی مروڑی جائیں گی اور وقت آئے گا کہ ہر مجرم سے قوم حساب لے گی۔ یہ انقلاب کا ریلا شروع ہو چکا ہے، 23 دسمبر سے 17 مارچ تک لیاقت باغ کا جلسہ تھا، لانگ مارچ سمیت۔ یہ اس جدوجہد کا پہلا مرحلہ تھا، لوگ 11 مئی کا انجام دیکھیں گے اور ہر فرد قوم کا کہے گا کہ جو بات میں نے انہیں کہی تھی وہ حق ہے۔ سوچ اور بدلے گی، اگلا مرحلہ ان شاء اللہ پھر اس تبدیلی کا آئے گا، اس انقلاب کا آئے گا جس میں کرپشن کی گنجائش نہیں ہو گی۔ اب جن لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا تھا وہ اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں، وہ نظام بدلے گا، صرف صبر کے کچھ لمحے ہیں اور بڑی منزلیں منٹوں میں، چند مہینوں میں نہیں ملا کرتیں۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ لوگو، 11 مئی کو ہم نے مسترد کر دیا یہ ظالمانہ نظام، خسارے کا سودا نہیں کیا، نفع کا سودا کیا ہے، ہم نے بدی سے سمجھوتہ نہیں کیا، گناہ کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا، اپنا نظریہ نہیں بیچا، حق پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں دنیا دیکھے گی کہ حق یہ تھا۔ تم کرپشن، ظلم اور دھاندلی کے گلاس میں گدلا پانی پی کر اپن پیاس نہ بجھاؤ، ہمیں پیاسا رہنا قبول ہے مگر گندا پانی پی کر پیاس نہیں بجھائیں گے۔ لوگو! انتہاء پسندی اور دہشتگردی کے دسترخوان پر حرام کھا کر اپنی بھوک نہ مٹاؤ، بھوکا رہنا گوارا ہے مگر دہشتگردی کے دسترخوان پر حرام نہیں کھائیں گے۔ سیاسی لیڈروں، ان کے غلط وعدوں اور دھوکوں کی چمک خرید کر اندھیروں میں نہ بھٹکو۔ ریاست دشمن سیاست اور غریب دشمن نظام کا حصہ بن کر جرم اور گناہ میں شریک نہ ہونا۔ اس بڑے مقصد کو حاصل کرنے میں کچھ وقت لگے گا، بڑے مقاصد کے لیے وقت لگتے ہیں مگر یاد رکھنا گدھ کبھی نہ بننا، گدھ بن کر نیچے گر کے مردار نہ کھانا، ہمیشہ شہباز رہنا اور اپنی پرواز بلند رکھنا۔
ہزاروں گدھ لاشیں کھا رہے ہوں گے مگر بالآخر فتح اس شہباز کی ہے جو اپنی پرواز کو نیچے نہیں آنے دیتا۔ ہم اپنی پرواز کو نیچے نہیں آنے دیں گے، مردار نہیں کھائیں گے۔ ہم تاجدارِکائنات کے غلام ہیں، ہمارے اوپر کسی کے پیسے کا احسان نہیں ہے اس زمین کے۔ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں اور ڈاکٹر دانش کر پروگرام میں ٹی وی پر کہا ہے، میں نے کہا: یہ ادارے اگر ملک کو دہشتگردی اور انتہاء پسندی سے پاک کرنا چاہتے ہیں، یہ ادارے گونگے کیوں ہیں، میں آئی ایس آئی سے پوچھتا ہوں، میں ملٹری انٹیلی جینس سے پوچھتا ہوں، میں تمام انٹیلی جنس کی اداروں سے پوچھتا ہوں، وزارت داخلہ کے اداروں سے پوچھتا ہوں، حکومتوں سے پوچھتا ہوں کیوں تمہارے لبوں پر مہر ہے، تمہیں نظر نہیں آتا کہ کون کون سا ملا، کون کون سی پارٹی، کون کون سا مدرسہ، کون کون سی جماعت اور کون کون سا ادارہ اِدھر سے اُدھر سے مال لے رہا ہے؟ کس کو فنڈنگ ہو رہی ہے؟ تمہیں نہیں معلوم کس کو عرب سے فنڈنگ ہوتی ہے؟ کس کو ایران سے ہوتی ہے؟ کس کو انڈیا سے ہوتی ہے؟ کس کو امریکہ سے ہوتی ہے؟ کس کو کہاں سے ہوتی ہے۔ میں نے کہا ہے: اگر دہشتگردی اور انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتے ہو تو ان سارے لیڈروں کو جیل بھیج دو جو باہر کے کسی ملک سے فنڈنگ لیتے رہے ہیں۔
ان سارے اداروں کو بین کر دو، تالے لگا دو جو باہر کے فنڈز پہ چلتے ہیں۔ ایک طرف حرام کھاتے ہیں ساتھ غراتے ہیں اور میں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا: کہ میں اپنی جماعت کو، تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک کو اور اپنی ذات کو سب سے پہلے نمونے کے لیے پیش کرتا ہوں۔ میں نے یہ کہا ہے آج دوہرا رہا ہوں۔ 33 سال کی میری جدوجہد، 1980 سے لے کر آج 2013 تک، پوری 33 سال کی جدوجہد میں میرے نام، تحریک منہاج القرآن کے نام، پاکستان عوامی تحریک کے نام، یا میرے مشن کے کسی بھی ادارے اور کسی بھی شعبے کے نام شرق سے غرب تک دنیا کی کسی حکومت سے، کسی ایجنسی سے، کسی اسٹبلشمنٹ سے، کسی این جی او سے، کسی ادارے سے ملک کے اندر یا ملک سے باہر کہیں سے 33 سالوں میں کسی نام پر، کسی مد میں، کسی حوالے سے ڈائریکٹ یا اِن ڈائرکٹ ایک روپیہ، یا ایک ڈالر یا ایک پاؤنڈ لینا بھی ثابت ہو جائے تو میں اپنی گردن کٹوانے کو تیار ہوں۔
ہم پر دنیا کی کسی طاقت کا احسان نہیں ہے، اس لیے ہمارا سر کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بہت بڑا مالدار آدمی، سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بھیجا گیا تھا، 12 جنوری کی شام، صبح لانگ مارچ کی روانگی تھی اور میں نے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا اور میں نے کہا تھا: میں حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مرید ہوں، یہ ساری دنیا کی سلطنتیں اپنی دولت جمع کر لیں تو غوث پاک کے اس ادنیٰ مرید کا جوتا نہیں خرید سکتے۔ لوگو! بڑھے چلو، یہ ہیں آقا کے غلام، حضور کی امت، یہ قربانیاں دینے والے ہیں، ہم پر کسی کا احسان نہیں، ہاں ایک احسان ہے وہ صاحبِ گنبدِخضریٰ کا۔ خدا کی قسم تاجدارِ کائنات کے ٹکڑوں پہ پلا ہوں، پلتا ہوں، مصطفی کے در کا سگ ہوں، کتا ہوں اور حضور کے ٹکڑے کے سوا کسی کے ٹکڑے کو ایک نگاہ اٹھا کے دیکھنا گوارا نہیں کرتا، سوائے مصطفی اور خدا کے کسی کا احسان نہیں ہے۔
اس وجہ سے نہ کسی لالچ میں دبتے ہیں نہ کسی کے خوف سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح پڑھے چلو، منزل ایک دن ضرور ملے گی۔ یہ پورا نظام ان شاء اللہ بدلے گا، یہ جدوجہد اللہ کی مدد اور آقا علیہ السلام کے نعلین پاک کے تصدق سے اُس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک غریبوں کے گھروں کا اجالا نہیں ملا جاتا۔ جب تک کسان اپنی اگائی ہوئی زمین کا خود مالک نہیں بن جاتا۔ جب تک مزدور اپنی صنعت کی تخلیق کا پھل خود نہیں کھاتا۔ جب تک عدل و انصاف کا پانی سوسائٹی کو سیراب نہیں کر دیتا۔ اُس وقت تک جدوجہد رکھیں گے جب تک محبت اس ملک سے نفرت ختم نہیں کر دیتی، جب تک اعتدال پسندی انتہاء پسندی کا خاتمہ نہیں کر دیتی، جب تک امن و آشتی اس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کر دیتی۔ جب تک علم و شعور جہالت کا خاتمہ نہیں کرتا، جب تک معاشی خوشحالی غربت و محرومی کا خاتمہ نہیں کرتی۔ اپنے گھروں کی یقین کے ساتھ لوٹو۔ اللہ رب العزت مخلص لوگوں اور غریبوں کی جدوجہد کو کبھی بھی منزل پہ پہنچائے بغیر نہیں رہتا، اللہ مدد کرتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کا حال یہ ہے، جمہوریت پہ ہم یقین رکھتے ہیں، جمہوریت کے بانی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اس کائنات میں۔ سب سے پہلا تحریری دستور میثاقِ مدینہ کی صورت میں آقا علیہ السلام نے دیا اور اس کی اساس جمہوریت کے اصولوں پر تھی۔ ہم جمہوریت کے قائل ہیں، انتخابات کے قائل ہیں، مگر یہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ اصل جمہوریت نہیں ہے، پرابلم یہ ہے۔ جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں
This is not true democracy, democracy is not just about Elections, Democracy is much more then Elections. Democracy and development respect of human rights and fundametle freedoms and good governece and tranceperency and accountablity. all these things putting them together they are the basic eliments which creat and atmosphere in democracy. these are indencible requairments of democracy. Democracy requair the strenghten the rool of low, Democracy require to ensure the equlity for the low, Demcracy requires equal protection of every of every single persone under the low. Democracy requres the develope and nerture and maintain and electroral system which provides based on traceparency, based on accoutibility, based od equlity, based of justness, based on fareness, based on real freedon and every single persone shuld get totly free and fare chance of exprecing his will with out any kind of preciour. Democracy gourenties free right to vote. but at the same time we need lagislation, we need institutions, we need macnism which could ensure complete trancparecy in our system which is totly laking at present time. and we can not name the couruption as democracy. the whole system present in Pakistan is totly based on courption. there is no tranceparency in our system, there is no inbult accountibility in our systems. there is no internel and external macanism in the whole political and electroral system of Pakistan. Elections are based on Three M,s, Elecltions are baded on Might, Elactions are based on Menovring, Elections are based on Money. so there is no regard of elegibility and elijibility,, we just need and we demand tracparency in political systm, we demand eradication of couruption in our economic system. we demand erdication of terrorism from Pakistan, we demand true democracy in socilo suphere, in econocmice suphere, and in political suphere in our country. this is the basic need to us.
We think the Democracy means a system as you see in Briton, where a mnister is sespected of morgage fruod, he is envestigater by the police and a found gilty, he looses hi seat of parliment and he is sentence...to ten month imprisiment. Democracy means a system where an MP submits a wrong clame in rent is sentence to 18 months impresement and he looses his seat of parliment. this is Democracy. Democracy is a system whre an MP if found gilty of dishonest claim of stationry he looses his seat and he is sent in prisone for 16 months.
Demcracy is a system where a MP fal...claims only 40 pens he is forced to pay back 40 pense. Democratic societies are so stronge that public out range and anger is enough to back a mnister resighen from his post and positon. but unfortunatly in Pakistan milions and milions are courptly refqure by the political leaders by the president by the prim mnisters by the governers, by the CM, by th MNA and legislaters but there is yet nobody to chalenge there aouthority.
people are powerless there. milions of falls voters are there, money and bribry are remp..during election compains. blackmailing is there, killing is there, criminal casess are there, gunfiring is there, familys presiors are there, tecnical corsior are there, poverty is there, terrorism is there, weakneses of social security, if all these things are present, how come a poor persone is able to cast his vote freely and farely. thats why we are here for change.
میں مغربی دنیا کو بھی یہ پیغام دینا چاہتا ہوں، ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں جس کا وعدہ ہمارے آئین میں بھی ہے۔ قائد اعظم نے بھی دیا تھا، ہم جمہوریت سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اہل لوگوں کو اوپر لانا چاہتے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ سرکاری ادارے نیب نے گورنمنٹ آف پاکستان کے سرکاری ادارے نے یہ اعلان کیا تھا کہ پانچ ہزار ارب روپے سالانہ کرپشن ہے پاکستان میں، یہ میرا سٹیٹمنٹ نہیں ہے، یہ گورنمنٹ آف پاکستان کا سرکاری آئینی ادارہ نیب، اس کے چیئرمین نے آفیشلی اناؤنس کیا اور دس سے بارہ ارب روپے یومیہ کرپشن ہے۔ اب میں ایک سوال کرتا ہوں، یہ جو پانچ ہزار ارب روپے سالانہ کرپشن والے لوگ وہ کون ہیں، وہ آپ ہیں؟ دہری شہریت والے ہیں؟ آپ تو کما کے بھیج رہے ہیں اور وہاں کے لیڈر حرام خور آپ کی حلال کی کمائی کھا رہے ہیں۔ غریب کر رہا ہے کرپشن؟ یہ لیڈرز ہیں۔ اب میں پوچھتا ہوں اس انتخابی نظام کے ذمہ داروں سے وہ کرپشن اور کرپٹ کہاں گئے؟ وہ سالانہ پانچ ہزار ارب روپے کی کرپشن کرنے والے کہاں گئے؟ وہ سارے کے سارے اہل ہو کے الیکشن لڑ رہے ہیں اور 11 مئی کی شام ان کے ہاتھ میں ایم این اے کا جھنڈا ہو گا۔ وہ کرپٹ لوگ اس قوم کے پھر لیڈر بنیں گے، ہنگ پارلیمنٹ بنے گی، یہ ملک مزید تباہ ہو گا۔ جمہوری قدریں کیا کسی نے ڈویلپ کرنی ہیں، یہاں تو نسلیں پل رہی ہیں، کوئی ایک پارٹی ہے جس کے اندر جمہوریت ہو؟ کسی پارٹی کے لیڈر کو چیلنج کر سکتا ہے اس کی پارٹی؟ تین تین سو ایکڑ کے محلات میں رہنے والے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریبوں کی بات کریں گے؟ اور نئی چینج کی آوازیں جو بلند ہوئی ہیں پاکستان میں۔
وہ نئی تبدیلی والے کا گھر بھی تین سو کنال میں ہے اسلام آباد میں۔ شرم آتی ہے مجھے، اچھا نہیں لگتا یہاں اپنا ذکر کرنا، نا مناسب ہے، مگر بعض اوقات آقا علیہ السلام کی سنت ہے کوئی بات کام بھی کر جاتی ہے، ہم نے بھی زندگی گزاری ہے، ان سے پہلے زندگی کا آغاز کیا، ہمارے پاس آج سے تیس سال پہلے ایک کنال کا گھر تھا آج بھی وہی گھر ہے، اس کے علاوہ ایک انچ زمین کا مالک میں نہیں ہوں۔ تبدیلی لانے کے لیے اپنی ذات میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ اپنے کردار میں تبدیلی لانا پڑتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی لیڈرشپ رہی انہوں نے پاکستان کو الیکٹرورل ڈکٹیٹرشپ بنا دیا۔ دنیا میں جمہوریتیں، جن ملکوں میں جمہوریت ہے ان کی تین قسمیں ہیں۔
25 ملک ایسے ہیں جنہیں فُل ڈیموکریٹک کہتے ہیں۔ اس کے بعد 53 ملک ایسے ہیں جنہیں فلاڈ ڈیموکریٹک کہتے ہیں، ڈیفیکٹو ڈماکریسی، ناقص، پھر اس کے بعد 37 ملک ایسے ہیں جنہیں ہاربریڈ رجیمز کہتے ہیں وہ سیاسی آمریت والی ہیں، وہاں انتخابات ہوتے ہیں، انتخابات کے نام پہ جمہوریت کا ٹائیٹل سجتا ہے اندر سے آمریت ہوتی ہے، سیاسی آمریت۔ پاکستان نہ فُل ڈماکریسی میں ہے، کوئی عیب کی بات نہیں وہ بہت تھوڑے ملک ہیں، نہ ڈیفیکٹو میں ہے، پاکستان کا شمار سیاسی آمریتوں میں ہے، 37 ملکوں میں بھی آخری نمبروں پر پاکستان ہے، یہ کس نے پہنچایا؟ پاکستان کو اس حال میں؟ اور آپ حیران ہوں گے ڈماکریسی کے انڈیکس میں، جمہوریت کے انڈیکس میں یوگنڈا ہم سے بہتر ہے۔ میں آپ کو ڈیماکریسی انڈیکس، اکانومسٹ یونٹ کی رپورٹ دے رہا ہوں، ورلڈوائیڈ۔
بلا تردید جو محقق تحقیق ہے۔ یوگنڈا کا درجہ 96 ہے، ہم سے بہتر ہے۔ فلسطین جو ملک بھی ابھی نہیں بنا اس کا درجہ 99 ہے، وہ بھی ہم سے بہتر ہے جمہوریت میں، موزمبیک وہ بھی جمہوریت میں ہم سے بہتر ہے اس کا درجہ سو ہے، کینیا کا درجہ ایک سو تین ہے وہ بھی ہم سے بہتر ہے، بھوٹان بھی ہم سے بہتر ہے درجہ ایک سو چار، پاکستان کا درجہ ایک سو پانچ ہے، نیچے۔ ان لیڈروں کی شرم کی موت آ جانی چاہئے، تم نے 65 سال میں کیا دیا ہے اس ملک کو؟ جمہوریت سے ملک کا شمار خارج کر دیا ہے تم نے، تباہی کر دی۔ یہ جمہوریت میں ترقی ہے اور پھر ایک پہلو اور ہے اور وہ یہ کہ پاکستان معاشی اور اقتصادی اعتبار سے دنیا میں، موازنہ کیا جاتا ہے ریاستی صلاحیت کا، ریاستی استعداد کا، کہ صلاحیت کیا ہے، بہت سارے فیکٹرز میں اس ریاست کے برقرار رہنے، باقی رہنے کی صلاحیت کیا ہے؟ اس ریاستی صلاحیت اور ریاستی استعداد میں اس کا موازنہ کیا گیا ہے کہ یہ برقرار رہنے کے قابل بھی یہ ملک ہے یا نہیں۔ 2007 اور 2008 میں پاکستان کا رینک 92 تھا، ہم نیچے گرتے گرتے 92 نمبر پر تھے۔ 2008 اور 2009 میں، 13 درجے اور نیچے گر گئے اور پاکستان کا رینک ریاستی صلاحیت میں 101 ہو گیا، 2010ء تک رہا۔ اس کے بعد اب ہم مزید 22 درجے اور گر کر 123 نمبر پہ آ چکے ہیں۔ ورلڈوائیڈ جو ہماری صلاحیت کی اسسمینٹ ہے اس انڈیکس میں ہم اتنے نیچے درجے میں ہیں 123۔
اگر جمہوریت ہوتی تو اکنامک گروتھ ہوتی، اگر جمہوریت ہوتی تو پاکستان میں سوشل ڈویلیپمنٹ ہوتی، اگر جمہوریت ہوتی تو رُول آف لاء ہوتا، اگر جمہوریت ہوتی تو پھر انوسمنٹ ہوتی، اگر جمہوریت ہوتی تو یہاں پھر ہر لحاظ سے ترقی کے مواقع ہوتے اور ریاستی صلاحیت اونچی جاتی، ہم گر کے نیچے آ گئے ہیں۔ اب رفتار ہر ملک میں اپس اینڈ ڈاؤنز آتے ہیں سال دو سال میں تھوڑا اونچ نیچ آتی ہے اب اس کا موازنہ کر کے بتاتا ہوں۔ یہ جو چھ ملکوں کا موازنہ کیا گیا ہے ایک گروپ بنا کر پاکستان کا، اونچ نیچ انڈیا میں بھی آئے مگر انڈیا ان سالوں میں تھوڑا سا نیچے آیا مائنس 2 درجے نیچے گیا۔ پھر اوپر چلے جاتے ہیں برازیل بھی نیچے گیا مائنس 2 وہ بھی مائنس 2گیا۔
2008ء سے 2011، 12 تک ان آخری سالوں میں بنگلہ دیش بھی تھوڑا سا نیچے گیا صرف مائنس 1 یہ ٹوٹل ریاستی صلاحیت میں مائنس 1 نیچے گیا بس اتنا فرق پڑا۔ انڈونیشیا 10 درجے اوپر گیا، سری لنکا 17 درجے اونچا گیا، اب پاکستان کا حال انہی سالوں میں دیکھئے، پاکستان نیچے گیا مائنس 22 ، یہ قوم سے جھوٹ بولنے والے یہ مجرم ہیں، ان کے گلے میں طوق ہونا چاہئے، زنجیر اور پکڑ کے انہیں جیل کی سلاخوں میں بند کرنا چاہئے۔ یہ لیڈری کے قابل نہیں ہیں یہ گیدڑ ہیں، قوم کو برباد کرنے والے ہیں، پاکستان کی صلاحیت ختم کرنے والے۔ پاکستانی قوم کی اپنی صلاحیت دنیا کی بہترین اقوام کے برابر ہے، قوم کی صلاحیت اونچی ہے مگر بطورِ ریاست پاکستان کو برباد کر دیا ان لوگوں نے۔
اور پھر وعدے ہیں، کہتے ہیں اگر آپ ہمیں ووٹ دیں، ہم اقتدار میں آئے تو ہم پاکستان کو چند سالوں میں آسمان تک پہنچا دیں گے۔ ظالمو! تم ہی تو اقتدار پر رہے ہو اور رہا کون ہے اقتدار پر، 90 کی دہائی میں یہ دونوں پارٹیاں باری باری اقتدار پہ رہیں نا پورے 10 سال؟ پھر پچھلے پورے پانچ سال ایک پارٹی وفاقی حکومت میں اقتدار پر اور سندھ میں رہی، دوسری پارٹی ملک کے ساٹھ فیصد حصے پر سب سے بڑے صوبے پر اقتدار میں رہی، نصف سے زیادہ حصہ ملک کا تمہارے اقتدار میں رہا، تم دونوں نے مل کر پاکستان کو برباد کر دیا اب نیا ایجنڈا تمہارے پاس کیا ہے کہ ملک کو اٹھا کے لے جاؤ گے؟ تمہارے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے۔
اور نئے لوگ جنہوں نے تبدیلی کی بات کی وہ 11 مئی کی شام کو دیکھ لیں گے حشر کیا ہوتا ہے۔ یہ میری بات بھی لکھ لیجئے، اس کے علاوہ کچھ نہیں کہتا۔ 11 مئی کی شام یا 12 کی صبح لکھ لیں تبدیلی والوں کا حشر کیا ہوتا ہے، وہ پریس کانفرنس کر رہے ہوں گے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ رونا جو 12 مئی کو رونا ہے آپ نے اور دھاندلی کا الزام لگانا ہے یہ شعور کاش تبدیلی چاہنے والوں کو پہلے آ جاتا اور میرے کندھوں سے کندھا ملا کے کھڑے ہو جاتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔
آخر پہ بات ایک کہنا چاہتا ہوں کہ کیا ان لوگوں کے دورِ اقتدار میں ہوتا رہا ہے؟ اور یہ بات صرف ایک دورِ حکومت کی نہیں، یہ پچھلا دور بھی، اس سے پہلے ملٹری آمریت کا دور بھی دس سال، اس سے پہلے 90 کی دہائی سیاسی دور بھی ۔۔۔میں آپ کو پورے 23 سال کا فگر بتا رہا ہوں، اس میں سارے شامل ہیں، سیاسی لیڈر بھی ساری جماعتیں اور فوجی لیڈر بھی شامل ہیں، پاکستان میں جہالت انتہا کی ہے، مگر انہوں نے 2.7 فیصد GDP کا اس سے زیادہ آج تک تعلیم پر خرچ نہیں بڑھایا۔ اور عملاً 2.7 فیصد نہیں ہوتا less then 1% ہوتا ہے۔ health پر 23 سال سے پاکستان کی GDP کا 2.6% مقرر ہے ہیلتھ کے لیے۔ خرچ .o6 ہوتا ہے۔
اب میں آپ کو موازنہ دیتا ہوں۔ اس کے برعکس نیپال میں، پاکستان کا دیکھ لیا نا کاغذ پر اڑھائی فیصد، نیپال میں 4.6فیصد ہے تعلیم کا اور ہیلتھ پر 5.8 GDP ہے نیپال میں، بھوٹان، چھوٹے چھوٹے ملک ہیں، بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ کہاں پہنچا دیا انہوں نے پاکستان کو، بھوٹان میں تعلیم پر 4.8فیصد GDP اور ہیلتھ پر 5.5فیصد of GDP، سری لنکا 4فیصد of GDP، مالدیپ 11.2فیصد of GDP پر خرچ ہوتا ہے اور 5.6فیصد health پر۔
ساری باتیں چھوڑ دیں، منگولیا، منگولیا جیسے ملکوں کا عالم یہ ہے، وہ ہم سے بہتر، کاغستان ہم سے بہتر، حتیٰ کہ کینیا، 7فیصد تعلیم پر جی ڈی پی کا اور 12 فیصد ہیلتھ پر جی ڈی پی کینیا کا۔ افریقہ کے ملک اور گھانا، اس ملک میں 5.4فیصد of GDP ایجوکیشن پر اور 10.6فیصد ہیلتھ پر۔
ان لیڈروں کو شرم سے مر جانا چاہیے۔ افریقہ کے 3rd world countries ہم سے چار چار گنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں تعلیم اور صحت پر، آپ کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ جمہوریت تعلیم کا نام ہے، جمہوریت صحت کا نام ہے، جمہوریت شفافیت کا نام ہے، جمہوریت قانون کی حکمرانی کا نام ہے، جمہوریت سوشل ڈویلپمنٹ کا نام ہے، جمہوریت اکنامک گروتھ کا نام ہے، جمہوریت سوشل اینڈ لیگل جسٹس کا نام ہے۔ جن چیزوں کو جمہوریت کہتے ہیں ان کا وجود نہیں ہے اور لوٹ مار گھسوٹ اور بدمعاشی اس کا نام جمہوریت رکھ لیا ہے۔
ایک اور اہم بات معاشی ترقی کے بغیر، آئندہ آنے والے وقتوں میں ملک زندہ نہیں رہ سکیں گے، بقا ممکن نہیں ہو گی۔ پاکستان کی اکنامک گروتھ، میں تین ملکوں سے موازنہ کرواتا ہوں ان لیڈروں کے سر شرم سے جھک جانے چاہئے، اکنامک گروتھ میں 2010ء 11 اور 12 کی پوزیشن پاکستان ایکسپورٹ گروتھ میں جو باہر بھیجتے ہیں ہم اپنا سامان 2.9% گروتھ ہے سالانہ اور امپورٹ گروتھ میں ہماری گروتھ 1.7فیصد یہ ہے ہماری معاشی ترقی کا حال۔ یہ پاکستان ہے۔ اب صرف دو ملکوں کا موازنہ کرتا ہوں، بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ گروتھ 4.2% ہے، ہم سے دو گنا زیادہ اور امپورٹ گروتھ 5.4% ہم سے چار گنا زیادہ ہے۔ یہ بنگلہ دیش ہے۔
اور اب آپ کو سن کے رونا آئے گا افغانستان سے مقابلہ کرتا ہوں، پاکستان کا افغانستان سے مقابلہ کر رہا ہوں، افغانستان میں ایکسپورٹ گروتھ 6.9% ہے جبکہ پاکستان کی یہ گروتھ 2.9% ہے، تین گنا زیادہ اور امپورٹ گروتھ پاکستان کی 1.7% افغانستان کی 3.7% تین گنا امپورٹ گنا کی زیادہ ہے۔ اب آپ دیکھئے ان لیڈروں نے پاکستان کو کس مقام پر پہنچا دیا ہے۔ کیا اس کو جمہوریت کا نام دے دیا جائے؟ ہم پاکستان کو آزاد، خودمختار ملک دیکھنا چاہتے ہیں اور میرا خواب یہ ہے، I want Pakistan that can say No. میں وہ پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں جو بڑی سے بڑی طاقت کو NO کہہ سکے اور کہے No, this is against my National supriem intrest یہ میرے قومی مفاد کے خلاف ہے، یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ جو ملک کسی کو (نہیں) نہیں کہہ سکتا وہ ملک زندہ نہیں رہتا۔ اور نہیں کہنے کے لیے ملک خودمختار پاکستان، Sovrent Pakistan, this is my slowgan, we want to protect sovranty of Pakistan. خودمختار ملک ہونے کے لیے ایسی لیڈرشپ چاہئے کہ جس کی ٹانگیں کانپتی نہ ہوں۔ ایسی لیڈرشپ چاہیے جس کی بینک اکاؤنٹ ان ملکوں میں نہ ہوں، ایسی لیڈر شپ چاہئے کہ وہ فلمیں ریلیز کر کے ان کے کردار کو ننگا نہ کر سکیں۔ ان کے پاس جرات ہو، ان کے پاس ویژن ہو، ان کے پاس دیانت ہو، ان کے پاس کریج ہو، ان کے پاس صلاحیت ہو، یہ صلاحیتیں مل کر ملک کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔
میرے ویژن میں یہ نظام، نظامِ انتخاب بھی اور یہ سیاسی نظام بھی، حکومتی نظام بھی۔ یہ نظام اس ملک کو بچا نہیں سکے گا۔ اس ملک کو ترقی نہیں دے سکتا۔ میں اس پورے نظام کی تبدیلی چاہتا ہوں، اس لیے ایسے فرسودہ، گندے نظامِ انتخاب کا حصہ نہیں بنا۔ میں اس پورے نظام کو اٹھا کر سمندر میں غرق کرنا چاہتا ہوں، مگراللہ کی مدد کے ساتھ اور اس قوم کی مدد کے ساتھ، ایک قوم کی مدد کے ساتھ۔ ہماری تبدیلی پرامن تبدیلی ہو گی، جمہوری تبدیلی ہو گی، پروگیسو تبدیلی ہو گی، مگر کیسا نظام؟ دیکھئے، ایک خاص موازنہ دے رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں ایجوکیٹ ہو کر آپ جائیں آج، کیسے ترقی کرے یہ ملک؟ لیڈروں کو سارا حرص یہ ہے کہ سارا اقتدار، طاقت اور سرمایا ان کے ہاتھ میں رہے، وہ عوام کو نہ اقتدار منتقل کرنا چاہتے ہیں، نہ طاقت دینا چاہتے ہیں، نہ سرمایا دینا چاہتے ہیں، نہ ترقی دینا چاہتے ہیں۔
ہر شے اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ پورے ملک کو بٹیر بنا رکھا ہے اور یہ قصاب ہیں۔ اس بٹیر کی طرح ہاتھ کی گرفت میں رکھا ہوا ہے۔ میرے ویژن میں پاکستان کو موجودہ ڈھانچا تبدیل کرنا ہے، میں پاکستان کو 35 صوبے دینا چاہتا ہوں۔ ہر ڈویژن اس کو صوبہ بنانا چاہتا ہوں، جب تک decentralization نہیں ہو گی، ارتکاز جب تک ختم نہیں ہو گا۔ قرآن نے کہا: کَیْ لَا يَکُوْنَ دُوْلَةً م بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْکُمْ ط، جیسے اغنیا کے اندر ارتکازِ دولت کو توڑا، اسی طرح لیڈروں کے ہاتھ سے ارتکازِ اقتدار کو توڑنا ہے اور نیچے تقسیم کرنا ہے۔
اور صوبے میں کسی وزیراعلیٰ کی ضرورت نہیں، کسی صوبائی کیبنٹ کی ضرورت نہیں، یہ لوٹ مار کے لیے، حرام خوری اور عیاشی کے لیے ہے سب کچھ۔ صرف ایک گورنر اور گورنر کا خرچ، ٹوٹل بجٹ صرف اتنا ہو جو اس وقت موجودہ صوبائی کیبنٹ میں ایک وزیر کا ہوتا ہے۔ اس عام وزیر کے بجٹ سے ڈویژن کے اوپر ایک صوبہ بنے گا تو گورنر کا خرچہ کافی ہو گا، وہ کوآرڈینیٹر ہو اور اختیارات و وسائل سارے نیچے چلے جائیں۔ ضلعی اور تحصیل گورنمٹس کو، ساری پاورز ضلعی اور صوبائی گونمنٹس کو جائیں۔ اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ نے اتنی بڑی تبدیلی کی بات کر دی، ایک نئی بات کہہ دی، کیا اس کا نمونہ دنیا میں بھی ہے؟ ہمارے ملک کے سیاسی لیڈروں نے قوم کو اندھیرے میں رکھا ہے۔
اب ذرا غور سے سنئے ترکی کی آبادی 7 کروڑ 60 لاکھ ہے اس کے 81 صوبے ہیں، یاد رکھ لیں ہماری آبادی 18 کروڑ ہے، ترکی سے اڑھائی گنا زیادہ، ہمارے چار صوبے ہیں۔ کیوں چار صوبے؟ تا کہ اتنے بڑے صوبوں کا سرمایا ہٹرپ کرنے کے لیے۔ ترکی ساڑھے چھ کروڑ آبادی، 81 صوبے، ایران ساڑھے 6 کروڑ 60 لاکھ، 30 صوبے، جاپان، تقریباً ساڑھے بارہ کروڑ آبادی 47 صوبے۔ الجیریا ساڑھے تین کروڑ آبادی 48 صوبے، کینیا چار کروڑ دس لاکھ آبادی 26 صوبے، فرانس ساڑھے چھ کروڑ کے قریب آبادی 26 صوبے، اٹلی، پانچ کروڑ اسی لاکھ آبادی 20 صوبے، رشیہ 14 کروڑ آبادی ہم اس سے بھی چار کروڑ زیادہ 83 صوبے، ہم اٹھارہ کروڑ آبادی رکھ کر چار صوبے کیوں لے کر بیٹھے ہیں؟ کبھی سوچا قوم نے؟ ہم صوبے اس لیے زیادہ نہیں بنانے دیتے کہ بجٹ تقسیم ہو گا۔ پھر بجٹ نیچے جائے گا اور یہ بڑی بڑی اکڑی ہوئی گردنیں کرپٹ لیڈروں کی، یہ کمزور پڑ جائیں گی۔
ظالمو! غریب کے خون پہ پلنے والو، میں تمہیں کمزور کرنا چاہتا ہوں۔ یہ جن کے چہروں پر غریبوں کا خون، غریبوں کا خون چوس چوس کر لالی آئی ہے، میں وہ لالی چھین کر غریبوں کو واپس دینا چاہتا ہوں۔ جنہوں نے غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنے محلات بنا لیے ہیں، وہ محلات واپس غریبوں کو دینا چاہتا ہوں۔ ہم غریبوں کو عدل و انصاف دینا چاہتے ہیں۔ ہم تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نظام اور خلافت راشدہ کے نظام کا وہ عدل جس میں عام شہری بھی اٹھ کے پوچھ لے کہ اے عمر آپ نے یہ جبہ کیسے بنایا؟ ہم غریب کی آواز میں وہ طاقت دینا چاہتے ہیں، مگر یہ ان لیڈروں سے نہیں ہو گا، ان جماعتوں سے نہیں ہو گا، درویشوں کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ جو اپنے لیے کچھ نہ بنائیں، سب کچھ عوام کے لیے بنائیں۔
پاکستان کے ان حالات کی وجہ سے آپ یہ سن کر حیران ہوں گے برطانیہ میں ہم بیٹھے ہیں، برطانیہ جیسے ملک میں سکرٹریز اینڈ سٹیٹ منسٹرز ساری کیبنٹ ملا کر 30 ممبر ہوتے ہیں اور امریکہ جیسا ملک ساڑھے 14 کھرب ڈالر کی معیشت ہے ان کے پاس صرف 15 وزیر ہوتے ہیں اور پاکستان کھانے کا نہیں ملتا، قرضوں پر چلتے ہیں اس کے پاس 95 وزیر ہیں، لعنت ہے ایسے نظام کے اوپر، وزیر، مشیر وفاقی۔ ہمارا ملک 15 وزیروں سے نہیں چل سکتا؟ یہ حرام خوری کے دروازے کیوں کھول رکھے ہیں؟ اس لیے سیاست کی دنیا ہمارے خلاف ہو گئی کہ میری بات ان کو وارا نہیں کھاتی تھی۔
ان کے وارے نیارے نہیں ہوتے۔ لیکن کب تک یہ راستہ روکیں گے، ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا جب غریب اٹھ کر اپنا حق آپ سے چھین لیں گے اور اللہ رسول کی مدد سے کامیابی و کامرانی ملے گی۔ کہنے کو بہت سی باتیں ہیں، کچھ آپ سے کر لیں، پیغام یہ ہے کہ: جدوجہد طویل ہوتی ہے، آقا علیہ السلام نے 13 برس مکہ کی جدودجہد کی اور 400 سے کم لوگوں نے کلمہ پڑھا اور وہ وقت بھی آیا کہ وہاں کے لیڈروں نے، جو قریش کے سردار تھے کرپٹ، وڈیرے، جاگیردار ان کی تلواروں کے سائے میں آقا علیہ السلام نے ہجرت کی۔
جب بھی کسی پیغمبر نے، قرآن کو پڑھ لیجئے، آ کے آواز بلند کی تو اس کی آواز پہ سب سے پہلے لبیک غریبوں نے کہا، مظلوموں نے کہا اور اس سوسائٹی کے سارے جاگیردار، وڈیرے، قال الملاء الذين، قرآن جابجا کہتا ہے قال الملاء الذين کفروا، اس سوسائٹی کے وڈیرے مخالف ہو گئے۔ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ غریب کے حق ہمارے برابر ہو جائیں، ہر پیغمبر کی آوازِ حق کے مقابلے میں وڈیرے اکٹھے ہوئے، اب بھی وہی نظام ہے، غریب کے خلاف یہ اکٹھے ہوں گے اور ہیں مگر ہمیشہ نہیں، اللہ کی مدد و نصرت اترتی ہے۔ آقا علیہ السلام کے طفیل اللہ کی مدد و نصرت کے ساتھ منزل ان شاء اللہ بہت قریب آئے گی۔ جدوجہد کو جاری رکھیں اور جو لوگ اللہ کے بھروسے پر جدوجہد جاری رکھتے ہیں اس میں جانی اور مالی قربانی بھی ہے اور وقت و عزم مصمم رکھنا ہے، ارادہ پختہ رکھنا ہے، استقامت رکھنی ہے، اللہ پہ توکل رکھنا ہے، نہ ڈرنا ہے نہ جھکنا ہے جاری رکھیں ان شاء اللہ وقت آئے گا کہ منزل خود بڑھ کے آپ کے قدم چومے گی۔
والسلام عليکم ورحمة اﷲ وبرکاته، وما علينا إلا البلاغ
تبصرہ