پشاور چرچ پر حملہ کرنے والے انسان نہیں درندے ہیں۔ لیاقت منور
جب تک نااہل حکمران اقتدار میں رہیں گے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ قیصر اقبال قادری
پاکستان عوامی تحریک سندھ کے سینئر نائب صدر سید اوسط علی نے پشاور چرچ میں خود کش حملوں کی شدید ترین مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام تمام انسانیت کے حقوق کا ضامن، محافظ اور امن و سلامتی والا دین ہے۔ مسلمانوں کی طرح تمام اقلیتوں کے حقوق، جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اسلامی ریاست کا فرض ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پشاور چرچ پر حملہ کھلی دہشت گردی اور حکمرانوں کی نااہلی ہے۔ خودکش حملے کرنے والے انسانیت کے نام پر بدنما داغ ہیں۔ جب تک پاکستان میں موجودہ ظالمانہ اور غیر عادلانہ فرسودہ نظام رائج رہے گا تب تک لاقانونیت، دہشت گردی، کرپشن اور لوٹ مار ہوتی رہے گی۔
اس موقع پر پاکستان عوامی تحریک کے اقلیتی رہنما لیاقت منور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسیحیوں اور اقلیتی برادریوں پر حملہ نہ صرف قومی سانحہ ہے بلکہ وطن عزیز پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک پوری پاکستانی قوم مل کر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا ساتھ نہیں دیتی یہ نااہل حکمران روز مندروں، مسجدوں، کلیساؤں اور گرجہ گھروں کا تحفظ کرنے میں نا کام رہیں گے۔
آخر میں ڈپٹی آرگنائزر پاکستان عوامی تحریک کراچی قیصر اقبال قادری نے کہا کہ جب تک نااہل حکمران اقتدار میں رہیں گے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر مسیحیوں کے قتل کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کرپٹ اور استحصالی نظام انتخاب عوام کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ مصلحت کی زنجیروں سے آزاد ہو کر آ ہنی ہاتھوں سے دہشت گردی کے فتنے کا سر کچلنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی پاکستان کے ماتھے کا بدنما داغ ہے اسکا خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس کیلئے سخت ترین اقدامات کرنا ہونگے کیونکہ ملکی تشخص اور سلامتی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان گذشتہ ایک دھائی سے دہشت گردی کی بدترین لپیٹ میں ہے لیکن اس نااہل حکومت کے 105 دنوں میں 104 دھماکے حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ابھی تک اس کے خاتمے کا نہ عزم دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اقدامات۔ مقتدر طبقہ یاد رکھے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے والے عناصر عوامی غیض و غضب سے نہ بچ سکیں گے۔
اس موقع پر پاکستان عوامی تحریک سندھ کے رہنما سید محمد ظفر اقبال سمیت، اطہرصدیقی، اظہر خان و دیگر عہدیداران اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنان بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔
تبصرہ