پروگرام: سوال یہ ہے (ARY News)
میزبان: ڈاکٹر دانش
تاریخ: 15 ستمبر 2013ء
سوال : ملکی نظام تباہ ہو چکا ہے، ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں، جیلیں ٹوٹ رہی ہیں، حکومت اور ریاست کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ طاقت، اسلحہ اور پیسے کی بنیاد پر پاکستان میں فیصلے ہوتے ہیں، اور طاقت، پیسے اور اسلحے کے زور پہ یہ جو چاہیں کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیا کہیں گے ڈاکٹر صاحب اس کے اوپر آپ؟
جواب : ڈاکٹر دانش صاحب ! آپ کا شکریہ کہ آپ کے پروگرام کی وساطت سے میں اہم قومی ایشوز پر اپنا نقطہ نظر اور اپنا پیغام قوم تک پہنچاتا ہوں۔ اور یہ پروگرام اس کا ذریعہ اور سبب بنتا ہے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے۔ یہ ساری باتیں جو آپ نے سوال میں مینشن کیں، سو فیصد درست ہیں۔ مگر ذہن نشین کر لیں، آپ بھی اور پاکستان کے 18 کروڑ عوام بھی، کہ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ جو نظام اس ملک پر مسلط ہے اور جن لوگوں کے قبضہ قدرت میں پورا ملک ہے، قانون ہے، ادارے ہیں، عوام کی تقدیر ہے، ان سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ان کا Manifesto ہی یہی ہے،اور وہ خاص طبقہ، میرا اشارہ کسی ایک جماعت کی طرف نہیں ہے، آپ ہمیشہ سنتے ہیں کہ میں کبھی biased ہو کر بات نہیں کرتا، میں ایک اصولی بات کرتا ہوں، یہ نظام اشرافیہ کے جس مخصوص طبقے کو اقتدار میں لاتا ہے اور پچھلے 65 برس سے اقتدار میں لا رہا ہے، پھر ان کی حفاظت کرتا ہے، ان کو پالتا ہے۔ تو ان کا ایجنڈا سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے۔ اقتدار، کاروبار اور لوٹ مار۔ وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہیں، ان کے لئے دنیا بھر میں کاروبار کے مواقع کھلے رہیں اور ان کی لوٹ مار میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے۔ اور اگر ان کا یہ ایجنڈا پورا ہوتا رہے اور یہی ایجنڈے کی commonality ہے کئی جماعتوں میں، اور اس کامن ایجنڈے کو وہ democracy، نظام اور system کا نام دیتے ہیں۔ اگر یہ ایجنڈا ان کا پورا ہوتا رہے تو ان کے نزدیک بھاڑ میں جائے ملک، بھاڑ میں جائے 18 کروڑ عوام، بھاڑ میں جائے قانون اور بھاڑ میں جائیں عوام کے حقوق اور ان کی زندگی، جیلیں ٹوٹتی رہیں گی۔ آپ نے کہا کہ جیلیں ٹوٹتی ہیں، جس ملک میں قانون ہی نہیں ہے، جہاں قانون ٹوٹتا ہے وہاں جیلیں کیوں نہیں ٹوٹیں گی؟ اور اس ملک میں جیلیں کیوں نہ ٹوٹیں جہاں کوئی یہ پوچھنے والا بھی نہ ہو کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑ کر جو 350 دہشت گرد رہا کروائے گئے، وہ کہاں گئے؟ کس نے رہا کروائے؟ کیوں رہا کروائے؟ اور وہ اس وقت کہاں ہیں؟ پاکستان میں ہی ہیں یا پاکستان سے دور کسی عرب ملک میں منتقل کر دیے گئے ہیں؟ جہاں نئی معرکہ آرائی شروع ہے۔ جس ملک میں حکمرانوں کے گریبان پکڑ کے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے اور عدالتیں ہی سرے سے اس کے پوچھنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اور ملک میں بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان لوگ صرف بھڑکیں ماریں، روز سیاسی بیانات دیں۔ عوام کو بےوقوف بنانے اور public consumption کے لیے، دھوکہ دہی کے لیے، جعل سازی کے لیے فراڈ کے لیے اور اصل ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے اور جو چیزیں آپ مینشن کر رہے ہیں ان پر توجہ دینے کو ہی کوئی تیار نہ ہو تو وہاں جیلیں ٹوٹیں گی، ابھی تو آپ جیلیں ٹوٹنے کی بات کرتے ہیں، خاکم بدہن اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اس ملک کے دشمن ملک کو توڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اور اس قسم کے سیاسی لیڈروں کو اقتدار میں لانا اس ملک کو توڑنے کی سازش کا ہی ایک حصہ ہے۔ لہٰذا جب تک یہ نظام برقرار ہے اس وقت تک یہی کچھ ہو گا۔ ہمیں اس نظام کے خلاف بغاوت کرنا ہوگی۔
ابھی آپ یہ دو چار روز پہلے کی بات دیکھئے ڈاکٹر دانش صاحب! یہ جو شاہ زیب قتل کیس تھا میڈیا نے کتنا اس کو ہائی لائٹ کیا، کتنا پریشر develop کیا مگر یہ حکمران، یہ ادارے، یہ عدالتیں، یہ قانون، یہ نظام ہر شے بے بس ہو گئی ہے، ہر شے بے بس ہے۔ پیسہ جیت گیا ہے، طاقت جیت گئی ہے، دھن اور دھونس جیت گئی ہے، ہم یقین سے کچھ نہیں کہتے کہ ان کی ڈیل کیا ہوئی کیا نہیں ہوئی، اللہ بہتر جانتا ہے۔ طرح طرح کی خبریں ہیں۔ ان کی فیملی انکار کرے گی یا اقرار کرے گی، مجھے اس سے غرض نہیں ہے۔ مجھے تو غرض اس چیز سے ہے، اس ملک کا قانون کہاں ہے؟ مر جانے والے کے خون کی حفاظت کرنے والے کہاں ہیں؟ جب بچ جانے والوں کی جان بھی خطرے میں ہو، جب آگے ان کی بیٹیوں کی عزت بھی خطرے میں ہو اور انہیں انصاف ملتا دکھائی بھی نہ دے رہا ہو تو خالی زبانی جمع خرچ سے تو کوئی نہیں نا رہے گا؟ جس ملک میں کسی کو تحفظ حاصل نہیں وہاں خون بکتے رہیں گے۔ وہاں قتل معاف ہوتے رہیں گے اور وہاں اسی طرح تضحیک ہوتی رہے گی پاکستان میں عزت اور جان اور مال کی۔ یہ نظام ہے، یہ اس ملک کے حکمران ہیں، یہ اس ملک کے سیاسی لیڈر ہیں، یہ وہ اشرافیہ ہے جو اس نام نہاد ووٹ کے ذریعے ملک کی تقدیر پر قابض ہوتا ہے۔ یہ تو آپ نے شاہ زیب کے ایک قتل کا دیکھا، ڈاکٹر صاحب! یہی دیت کہیں یا جو کچھ بھی کہیں یہ معاملہ ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ بھی ہو چکا ہے، اس نے کھلے عام لاہور کی شاہراہوں پر قتل کیے تھے۔ تو after all کوئی دباؤ تو تھا ناں، کہ اس کی فیملی کو پیسے ملے اور وہ دیت کے نام پر رہا ہو کے چلا گیا۔ جو ملک اور جو قوم اور جو قانون اپنے ملک اور سرزمین کے بیٹوں اور بیٹیوں کے جان، مال اور عزت کی حفاظت نہیں کر سکتا اور جو قانون ان کو تحفظ نہیں دے سکتا۔ یہاں یہ ملک ایسے لگتا ہے کہ قاتلوں کے لیے بنا ہے مقتولوں کے لیے نہیں، ظالموں کے لیے بنا ہے مظلوموں کے لیے نہیں، لٹیروں کے لیے بنا ہے لٹ جانے والوں کے لیے نہیں، امیروں کے لیے بنا ہے غریبوں کے لیے نہیں۔ غریبوں کے لیے تو صرف مر جانا ہے، اس کے بر عکس آپ کل کا decision ہے انڈیا کا، دیکھ لیں۔ وہاں بچی کے ساتھ گینگ ریپ ہوا ہے دہلی میں۔ اور انڈیا کی عدالت نے تھوڑے ہی عرصے کے اندر چاروں مجرموں کو سزائے موت سنا دی ہے۔ پاکستان بھی سوچ لیں موازنہ کر لیں، قرآن آپ کے پاس ہے، حدیث و سنت آپ کے پاس ہے، عدل و انصاف کے champion آپ بنتے ہیں، طرح طرح کے نعرے اور وعدے آپ کرتے ہیں۔ وہاں ایک بچی کے ساتھ گینگ ریپ ہوا ہے، چاروں مجرموں کو سزائے موت دی ہے انڈیا میں۔ یہاں ہزاروں سینکڑوں گینگ ریپ ہو چکے ہیں، پوری قوم کے ساتھ گینگ ریپ ہو رہا ہے، 18 کروڑ لوگوں کے ساتھ، وہ یرغمال ہیں۔ کس کو سزا ملتی ہے یہاں؟ لوگ غائب ہو جاتے ہیں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں، بڑی کھپ ہے، بیان بازی ہے، بھڑکیں بہت ہیں۔ مگر کسی کو بحال و برآمد نہیں کروایا۔
سوال : مجھے یہ بولنے میں بڑا اچھا لگ رہا ہے کیونکہ یہ بہت important بات ہے، اسی موقع پہ بولنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ ہےکہ ہم نے سنا تھا کہ سیاست عبادت ہے، لیکن آج ہمیں سیاست تجارت نظر آرہی ہے۔ اور تجارت کی منڈی میں چند کوڑیوں کے عوض ہم اس سیاست کو بکتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اس سیاست کو جسے عبادت کہا جاتا تھا۔ اور چند لوگوں نے پاکستان کے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے، ایک طرف تو یہ بات ہے۔ دوسری طرف جب آپ نے احتساب اور انصاف کی بات کی تو ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں جہاں احتساب اور انصاف ختم ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے پورے کا پورا معاشرہ تباہی کی طرف کرپشن کی طرف لگ گیا ہے، وہیں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ان لوگوں کے درمیان جو بھی احتساب اور انصاف کا معاملہ ہے وہ نہیں ہونے دیں گے۔ اور اس کے عوض نہ چیئرمین نیب لگتا ہے، نہ کہیں کوئی اور احتساب ہوتا ہے، نہ کوئی کیس کھلتا ہے۔ کیا کہیں گے اس کے اوپر؟
جواب : ڈاکٹر دانش صاحب! حالات اتنے بد تر ہیں کہ کوئی کہے تو کیا کہے؟ سیاست یقیناً عبادت تھی اور عبادت ہے، مگر ان لوگوں کے لیے جن کی سیاست کا معیار سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کردار ہو۔ جن کی سیاست کا کردار سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا کردار ہو۔ جو سیاست، حکومت، خلافت، امامت کا منصب کاروبار کے لیے نہ لیں۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جب منصبِ خلافت سنبھالا، کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، اگلے دن کندھے پر رکھ کر مارکیٹ میں اپنے کاروبار کے لیے چلے گئے۔ پوچھا کیوں جا رہے ہیں آپ رضی اللہ عنہ خلیفہء وقت ہیں؟ فرمایا : خلیفہء وقت ضرور ہوں پر بچوں کو رزقِ حلال کا لقمہ بھی دینا ہے۔ پھر بیت المال کا معاملہ مقرر ہوا۔ سیاست اس وقت عبادت ہوتی ہے جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کردار کو آئیڈیل سمجھنے والے لوگ اس ملک و قوم کی قیادت کے لیے آئیں۔ وہ سیاست سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی، کہ جب مال غنیمت میں ایک ایک چادر ہر ایک کو تقسیم ہوئی اور اس ایک چادر سے قدوقامت والے شخص کا پورا عربی جبہ نہیں بن سکتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ پورا جبہ پہن کے آئے تو ایک عام شخص نے کھڑے ہو کے سوال کر لیا احتساب کر لیا،جس احتساب کی آپ بات کر رہے ہیں، کہ عمر رضی اللہ عنہ ! امیر المؤمنین، میری چادر کے ٹکڑے سے میرا قمیص نہیں بنا آپ رضی اللہ عنہ کا کیسے بن گیا؟ کپڑے برابر تھے۔ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اٹھے، عرض کیا : میں نے اپنا قمیص بھی بابا کو دیا ہے۔ اگر تو معیار یہ ہو اور قوم اس طرح محاسبہ کرے۔ بھئی اتنے سال ہم نے بھی کاروبار کیا، اتنے سال اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والوں نے بھی کاروبار کیا، اور آپ کے تو بڑھے دس پیسے اور اقتدار کی برکت سے کاروبار کرنے والوں کے بڑھ گئے دس ملین۔ یہ فرق کیسے آیا؟ جہاں ایم این اے ہونا، ایم پی اے ہونا، وزیر ہونا، وزیر اعظم ہونا، پریزیڈنٹ ہونا، گورنر ہونا اور وزیر اعلیٰ ہونا کسی شکل کا بھی اقتدار، حکومت، اثرو رسوخ، جب آپ کے کاروبار پر، تجارت پر، پیسے پر، حیثیت پر اثر انداز ہو کر آپ میں اور عام پبلک میں سے تجارت کرنے والے میں زمین آسمان کا فرق کر دے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، تو پھر سیاست عبادت نہیں رہتی، سیاست تجارت ہی ہوتی ہے۔ سیاستدانوں نے سب کچھ کر کے دیکھا، زراعت بھی کی، تجارت بھی کی، ٹریڈ بھی کیا، ایکسپورٹ امپورٹ بھی کی، ملیں بھی لگائیں، فیکٹریاں بھی لگائیں، مگر وہ بڑی طویل زندگی کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ سارے کاروبار ایک طرف سیاست ایک طرف۔ وہ سارے کاروبار مل کر آپ کو اتنا پیسا نہیں دیتے جتنا آپ گورنمنٹ میں آتے ہیں تو آپ کماتے ہیں، چونکہ فیصلے بھی خود بناتے ہیں، قانون بھی خود بناتے ہیں، ریوینیو، کسٹم، چھٹی کی چھوٹ بھی خود دیتے ہیں، پالیسیز بھی خود بناتے ہیں، اور ان کو سامان بھی خود مہیا کرتے ہیں، ٹھیکوں کا فیصلہ بھی خود کرتے ہیں، ٹھیکیدار بھی آپ ہوتے ہیں، پس پردہ چہرے اور ہوتے ہیں اور ملک کا سارا قومی اثاثہ بیچنے پر لگاتے ہیں۔ جیسے ابھی پی آئی اے سیل پر لگا ہے، ملک سارا سیل پر لگنے والا ہے۔ ڈاکٹر دانش صاحب! آپ کی وساطت سے پوری قوم کو جھنجوڑ رہا ہوں، آپ کا ملک پورا سیل پر لگنے والا ہے۔ ابھی پی آئی اے کے 26 فیصد شیئرز سیل پہ لگے ہیں۔ یاد رکھ لیں یہ سیل پر ضرور لگا ہے مگر خریدنے کی آپ کو اجازت نہیں ہے۔ عام خریدار نہیں اس منڈی میں جا سکتا، نام اور ہوں گے خریدار خاص ہوں گے۔ یکے بعد دیگرے پی آئی اے بھی بکے گا۔ اور اب دنیا کہتی ہے ناں کہ ڈاکٹر طاہر القادری صحیح کہتے تھے! اس صحیح کہتے تھے کے جملوں میں اضافہ کرتے چلے جائیے، پی آئی اے بکے گا، پھر ریلوے بکے گی، ایک ایک کر کے قوم کے سارے ادارے بکیں گے۔ جب کچھ نہیں بچے گا اور کچھ لوگ پورے ملک کے اثاثوں پر قابض ہو چکے ہوں گے، اس وقت قوم جاگے گی، "اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ " یہاں کوئی احتساب نہیں ہوگا، یہاں سمجھوتہ ہے لوٹ مار پر، یہاں مک مکا ہے کرپشن پر، یہاں مک مکا ہے قبضہ سیاست پر، کوئی چیئرمین لگے گا تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ وہ بھی کوئی ممنون احسان ہوں گے۔ جب کرسی صدارت پر آپ اپنے ممنون لوگ بٹھاتے ہیں۔ تو چیئرمین کی کرسی پر غیر ممنون کہاں سے بیٹھیں گے۔ "ممنون" کا معنی ہے "احسان مند"۔ ممنون کہتے ہیں احسان مند کو، جو عمر بھر آپ کے احسان کے بوجھ میں دبا رہے اور سجدہ ریز رہے اور جھکا رہے اس کو ممنون کہتے ہیں۔ "من" سے نکلا ہے یہ لفظ۔ تو آپ جب کرسی صدارت پر اپنے ممنون کے بغیر کسی کو بٹھانا گوارا نہیں کرتے، احسان مند ہو، ہر وقت سجدہ ریز رہے، تو چیئرمین احتساب کا کیسے غیر ممنون لگے گا۔ یہ بھئی سیٹیں پُر ہو جائیں یا خالی رہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس نظام کے تحت کوئی احتساب نہیں ہو سکتا۔ چور کبھی چوروں کا احتساب نہیں کرتے۔ ڈاکو کبھی ڈاکوؤں کا احتساب نہیں کرتے۔ جیب تراش اور قاتل کبھی جیب تراشوں اور قاتلوں کا احتساب نہیں کرتے۔ اگر احتساب چاہتے ہیں، اگر انصاف چاہتے ہیں، اگر عدل چاہتے ہیں، اگر لوگوں کے منہ میں عزت کا نوالہ چاہتے ہیں، لوگوں کی زندگی میں تبدیلی چاہتے ہیں، تو پھر نظام بدلنا ہو گا۔ یہ نظام آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ایک جملہ کہنا چاہتا ہوں اس حصے کے اختتام پر۔ جہاں ایک طرف اس نظام کی پیداوار حکمران اور لیڈر قومی اداروں کو لوٹ مار کے بعد مردہ بنا کر بیچ رہے ہیں وہاں اس قوم کا یہ حال ہو گیا ہے کہ وہ لوگ جب مر جاتے ہیں تو مردوں کو قبروں سے نکال کے بیچ رہے ہیں۔ دونوں طرف مردہ فروشی ہو رہی ہے، مردہ فروشی، یہ اس نظام کی برکات ہیں۔
سوال : کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کچھ پیسٹری چور تھے، جب انہوں نے پیسٹری چوری کی تو پیسٹری ان کے منہ کو لگ گئی۔ کچھ ایسے ہیں جو بیکری چور ہیں۔ یعنی وہ پوری کی پوری بیکری چوری کر لیں گے۔ پتا ہی نہیں چلے گا۔ ناظرین اس سے پہلے کہ ڈاکٹر صاحب سے سوال کروں ایک بڑا خوبصورت تماشا ہوتا ہے اس کو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ آپ سنتے ہوں گے، روزانہ ٹی وی پہ دیکھتے ہوں گے کہ صبح سے شام تک پورے پاکستان میں دہشت گردوں کو ہماری لاء انفورسز سیکیورٹی بڑی محنت سے، جانفشانی سے گرفتار کر رہی ہے اور ہم روزانہ سن رہے ہیں کہ دہشت گرد، طالبان گرفتار ہو رہے ہیں کراچی سے، لاہور سے، اسلام آباد سے، بلوچستان سے، پشاور سے، بڑی تعداد میں گرفتار ہوتے ہیں۔ ایک طرف یہ صورتحال روزانہ دیکھتے ہیں تو دوسری طرف کسی کو کوئی سزا نہیں ہو رہی۔
ڈاکٹر صاحب! نہ اس ملک میں ڈیم بنانے کی کوئی پالیسی نظر آ رہی ہے نہ کوشش نظر آرہی ہے، بجلی بنانے کیلئے بہترین ذریعہ پانی ہے، جو بہت سستا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں یہ بہت آرام سے ہو سکتا ہے۔ پوری دنیا میں ہو رہا ہے تو انرجی کے لیے یہ نہیں بنایا جا رہا۔ تیسری طرف صوبے نہیں بننے دیے جارہے۔ چوتھی طرف بلدیاتی انتخابات، بلدیاتی نظام جو جمہوریت کا حسن اور آئین کا حصہ ہے اسے کرانے سے بھاگا جا رہا ہے۔ کیا کہیں گے آپ اس کے اوپر؟
جواب : گزارش یہ ہے کی آ پ نے دہشت گردی کی بات کی میں سمجھتا ہوں کہ کل ہی صوبہ خیبر پختونخوا میں واقعہ ہوا، جہاں پاک فوج کے عظیم جنرل، افسران اور دیگر جوان شہید ہوئے، جب وہ اپنے دورے سے واپس آ راہے تھے تو سڑک کے کنارے نصب کئے گئے دھماکہ خیز مواد کے ذریعے شہید ہو گئے۔ میں پاک فوج اور پوری قوم کو تعزیت کرتا ہوں اور پاک فوج کو حوصلے بلند رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا دہشت گرد رہا بھی کروائے جا رہے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان کو خیر سگالی کے طور پہ رہا کیا جا رہا ہے۔ سو کیا جا رہا ہے یا کروایا جا رہا ہے اور تیسری چیز کہ ان کے ساتھ مذاکرات بھی کئے جا رہے ہیں۔ میرے ذہن میں اب مسلسل سوال گردش کر رہا ہے یعنی آپ نے کہا کہ اس ملک میں ڈیم نہیں بنتے۔ مگر اس ملک کی قوم کو پاگل تو بنایا جا رہا ہے۔ ایک ہی چیز ہو جائے توکافی ہے، اب یہ جو مذاکرات کا دروازہ ہےکہ مذاکرات ہوں گے، بڑا بے معنی غیرمتعین لفظ ہے۔ اس میں اب کلیئر نہیں ہے کہ کس لیڈر شپ سے مذاکرات ہوں گے؟ طالبان کے 60 سے زیادہ گروہ ہیں میری معلومات کے مطابق۔ ہر ایک گروہ کا اپنا ایک لیڈر ہے۔ کیا ان کی کوئی ایک کمانڈ ہے جس پر وہ متفق ہیں؟ کوئی ملک گیر قیادت ہے ان کے پاس؟ اور 60 کے 60 گروہ ہیں، جو طالبان ہیں طالبان نہیں ہیں، جو ان کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں یا طالبان کے نام پہ آپریٹ کرتے ہیں۔ خدا جانے کتنے نام ہیں۔ کیا وہ ایک یونیفائیڈ کمانڈر کا آرڈرمانتے ہیں؟ ٹاپ لیول سے گراس روٹ لیول تک کیا کسی ایک کا حکم چلتا ہے؟ کس سے مذاکرات کریں گے؟ ان کی گارنٹی کون دے گا؟ اس کی تعمیل کون کرے گا؟ اور پھر اس پوزیشن میں کہ ان کے پاس علاقے ہیں، جہاں ان کا ہولڈ ہے۔ وہ آپ پر، آپ کی فوج پر، آپ کی فوج کے مراکز پر، ائر فورس پر، نیوی پر، مساجد پر، نمازیوں پر جب حملے کرتے ہیں، ان کے پاس اسلحہ ہے تو پھر کن terms پر مذاکرات ہوں گے؟ یہ قوم کو بے وقوف بنانے کا ایک عمل ہےاور درحقیقت جولوگ ان کو اقتدار پر لاتے ہیں، ان کو کرسی پہ بٹھاتے ہیں، یہ ان کا اجنڈا ہے، جس کو انہوں نے ہر صورت پورا کرنا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں ناں کہ پچھلے سالوں میں ڈرون اٹیکس کو روکا نہیں جا سکا اور آج کے دن تک قوم کو یہ نہیں بتایاجاتا۔ آپ ان حکمرانوں سے کیا توقع کر سکتے ہیں، جو ہیڈ آف دی سٹیٹ اپنی قوم کو یہ نہیں بتاتے کی ڈرون اٹیکس ان کی جازت سے ہو رہے یا نہیں ہو رہے؟ ہم ان پہ رضامند ہیں یا نہیں؟ ہم ان کو روکنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ اور جو غیرملکی دہشت گرد ہمارے ملک میں بیٹھے ہیں وہ کس کی اجازت سے بیٹھے ہیں؟ انہوں نے پاکستان کو عالمی دہشت گردی کا مرکز کیوں بنا رکھاہے؟ اور یہاں سے دہشت گردی باہر کے ممالک میں ایکسپورٹ کیوں ہو رہی ہے؟ حکمران سچ کیوں نہیں بولتے؟ کوئی منسٹر بول رہا ہے کہ اگر سچ بول دیں کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے تو پر جلتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حقائق کچھ اور ہیں اور بتایا کچھ اور جاتا ہے۔ بلوچستان میں خون کون بہا رہا ہے ؟ کس لیے بہا رہا ہے؟ یہ بولتے کیوں نہیں؟ قوم کو کیوں نہیں بتاتے؟ اگر یہ مجبور ہیں تو بتائیں ہم مجبور ہیں۔ پھر کوئی ایسی قیادت لائیں جو مجبوری کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نہ ہو۔ وہ کسی بھی آنکھ میں آنکھ ڈال کہ No کہہ سکے۔ ہم ایک آزاد خودمختار پاکستان چاہتے ہیں۔ ہم اپنا نفع نقصان جانتے ہیں۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ہم دہشت گردی ختم کرنے میں ناکام ہیں۔ ان کو سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ پورے یورپ نے اپنے ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے اپنے قوانین بدل دیئے ہیں۔ یاد رکھ لیں جو کرپشن کے ذریعے آتے ہیں ان میں جرات نہیں ہوتی۔ جو کسی کہ بٹھانے سے کرسی پہ بیٹھتے ہیں ان میں جرات نہیں ہوتی۔ جرات، کردار، امانت اور خدا خوفی دیتی ہے۔ اور وہ دونوں جماعتیں متفق ہیں تو پھر روکے گا کون؟ اپوزیشن کا رول ہوتا ہے کہ اگر حکومت deliver نہیں کر رہی اور وہ تمام مقاصد جن کے لیے حکومت بنائی جاتی ہے اگر ان میں سے کچھ نہ ہو رہا ہو تو اپوزیشن کس مرض کی دوا ہے؟ اپو زیشن کھڑی ہوتی ہے۔ وہ عوام کی نمائندہ بن کے جنگ لڑتی ہے۔ یہاں تو سارے حصہ دار ہیں اقتدار کے۔ اپوزیشن کہاں ہے، نہ کبھی تھی نہ ہے۔ مک مکا کا نظام ہے۔ یہ جو الوداعی پارٹی دی گئی ہے، صدر زرداری صاحب کو، اس میں ان کا شکریہ ادا کیا گیا ہے اٹھارویں ترمیم کا اور صدر زرداری کے دور کو بے نظیر اور بے مثال چیپٹر قرار دے دیا گیا ہے، کیونکہ اس نے جمہوریت کو استحکام دے دیا ہے۔ ڈاکٹر دانش صاحب! اس قوم کا حافظہ کمزور ہے۔ اس قوم کو الیکشن سے پہلےکی تقریریں سنوائیں، کہ اس جمہوری دور کو کتنی گالیا ں دی جاتی تھیں۔ اب کیا زبان ہے ان کی اور پہلے کیا زبان تھی ان کی؟ کوئی ایک ملک ایسا بتا دیں جس میں یہ ڈرامہ ہوتا ہو کہ الیکشن سے پہلے صرف ووٹ لینے کے لیے، صرف قوم کو دھوکہ دینے کے لیے،آپ ایسی تیسی کر کے رکھ دیں، آپ اتنی گالی گوچ کریں کہ نہ تہذہب نہ مذہب نہ دین نہ قانون اجازت دے اٹھا اٹھا کہ گالیاں دیں اور لاؤڈ سپیکر کو بھی اٹھا کے نیچے پھینک دیں۔ وہی جس کو آپ ملک دشمن قرار دیتے تھے، جس کے محاسبے کی باتیں کرتے تھے، لوگ تو وہی ہیں مگر 11 مئی کے بعد جب حکومت بدلتی ہے تو کہتے ہیں ہمارا ایجنڈہ ایک ہے۔ اور نئے صدر صاحب کو کہا جاتا ہے کہ آ پ انہی روایات کو قائم رکھنا جو پہلے صدر صاحب نے قائم کی ہیں۔ اس قوم کے شعور کی آنکھ کب کھلے گی؟ انہیں کب ہوش آئے گا کہ یہ مداری ہیں۔ یہ مل کے کھاتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم مل کر کھانے کا سمجھوتہ ہے کہ الیکشن کمیشن ہم مل کر باہمی اتفاق سے بنائیں گے۔ ایک بھی ترمیم عوام کو حقوق دینے کے لیے نہیں ہوئی۔ دنیا میں کہیں سیاسی لوگ بھی اپنا الیکشن کمیشن مقرر کرتے ہیں؟
سوال : ڈاکٹر صاحب یہ پسی ہوئی عوام اور تمام پارٹیوں کے غریب ورکرز اور تباہ شدہ ملازمین، جو اپنے گھروں کی حفاظت نہیں کر پا رہے، جو اپنی بہو، بیٹیوں اور بہنوں کی عزت اور غیرت کی حفاظت نہیں کر پا رہے ہیں، وہ 65 سالوں سے ان 200 خاندانوں کو نہ صرف پال رہےہیں بلکہ ان کی حفاظت کر رہے ہیں اور یہی خاندان گزشتہ 65 سالوں سے ان کا استحصال کر رہا ہے، کیا پیغام دیں گے سر آپ؟
جواب : یہ 18 کروڑ عوام جو 65 سالوں سے اپنے کچلنے والوں کو پال رہے ہیں اور خود ان کے جوتوں کے نیچے پامال ہو رہے ہیں، ان کے لیے پیغام یہ ہے کہ گھر بیٹھ کے نہ مریںنہ جلیں، آپ کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت انہوں نے نہ کبھی کی نہ کریں گے نہ ان کے ایجنڈے میں ہے نہ آپ کی خوشحالی کے لیے ڈلیور کریں گے یہ اس لیے نہیں آتے اور نہ یہ نظام آپ کے لیے بنایا گیا ہےیہ نظام انہی کے لیے ہے، اگر آپ اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں، خود کو سنبھالنا چاہتے ہیں اور اس ملک کو سنبھالنا، پالنا بڑھانا چاہتے ہیں تو ایک کروڑ نمازیوں کی جماعت کی تیاری کریں ایک ہی حل ہے اللہ گواہ ہے! میں پوری ایمانداری سے دیانتداری سے،، اللہ رب العزت کی عزت، عظمت اور اس کی الوہیت اور اس کی ربوبیت کی قسم کھا کے 18 کروڑ عوام کو کہہ رہا ہوں مجھے کوئی حل اس نظام میں آپ کے لیے نظر نہیں آتا، ایک ہی حل ہے کہ جس طرح جنوری کے لانگ مارچ میں اذان دی تھی اب جماعت ہو گی اور جماعت ہو گی اورجماعت ہوگی، کرروڑ نمازیوں کی جماعت کا حصہ بنیں، کیا فائدہ اگر گھر میں ہی بیٹھ کے جل کے مر جانا ہےتو نکلیں باہر ، اپنے آپ کو بچانے کے لیے، نسلیں بچانے کے لیے، ملک کو بچانے کے لیے ایک کروڑ نمازیوں کی جماعت کی تیاری کریں۔اور اذان دینے کے بعد جماعت تک ایک وقفہ ہوتا ہے اور میں اگر بہت زیادہ گفتگو اس عرصہ میں نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اذان دینے والے چلے گئے نہیں اذان دینے والے اذان دینے کے بعد اسی مسجد کی پہلی صف میں بیٹھے ہوتے ہیں مگر اذان اور جماعت کے درمیاں شور نہیں کیا جاتا ، خاموشی آداب کا تقاضا ہوتا ہے، میں اس خاموشی میں موقع دے رہا ہوں قوم کو ذہن بنانے کا موقع دے رہا ہوں اور جیت کر آنے والوں کو ڈیلیور کرنے کا موقع دے رہا ہوں، میں 18 کروڑ عوام کے ساتھ کھڑا ہوں ، مظلوم بیٹیوں کے ساتھ ہوں، بیواؤں کے ساتھ ہوں، ہاریوں کے ساتھ ہوں، مزدوروں کے ساتھ ہوں، کسانوں کے ساتھ ہوں، دکھیوں کے ساتھ ہوں، کروڑ نمازیوں کی جماعت کی تیاری کریں عنقریب صحیح وقت پر اقامت ہو گی، جماعت کے لیے بلاؤں گا ،آخری جماعت ہو گی اور ان شاء اللہ کوئی شیطان نہیں بچے گا پچھلی بار جب اذان دی اور لانگ مارچ ہوا ،قوم گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی پر دعائیں دیتی رہی اللہ حفاظت کرے لانگ مارچ والوں کی، اللہ قادری صاحب کی حفاظت کرے۔ گھر بیٹھ کر آپ کی دعائیں نہیں چاہئیں نکل آئیں شاہراؤں پر اذان کے دن کی طرح گھر نہ بیٹھیں ، جماعت کے لیے نکلیں وہیں دعائیں بھی دیں اور وہیں صدائیں بھی دیں، اگر جماعت میں آپ آ گئے ان شاء اللہ اس ملک کا بیڑا پار ہو جائے گا ، تقدیر بدل جائے گی اور ملک کے تمام وہ لوگ لاکھوں کروڑوں جو تبدیلی چاہتے ہیں جو تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں بشمول عمران خان صاحب کے، پھر دعوت دے رہا ہوں پہلے کی طرح مس نہ کریں ، اب جماعت کی تیاری کریں، آج بروقت دعوت دے رہا ہوں پوری قوم کو اور ان لیڈروں کو اوران نوجوانوں کو جو چاہتے ہیں کہ ملک میں تبدیلی آئے ، ان شاء اللہ جماعت کے لیے اٹھیں گے اور اٹھ کر غریب عوام کے حقوق وڈیروں سے، غاصبوں سے چھین کر غریبوں کی جھولیوں تک پہنچائیں گے ان کی خوشیاں ان کے چہرے تک لوٹائیں گے اللہ رب العزت کی مدد و نصرت سے۔
تبصرہ