مذاکرات سمجھ سے بالاتر ہیں، ایسا لگتا ہے حکومت ان کے سامنے
گھٹنے ٹیکنے جا رہی ہے
اے پی سی نے ملک میں صرف کنفیوژن پیدا کی، ایکسپریس نیوز کے پروگرام تکرار میں
گفتگو
لاہور (26 ستمبر) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کرنا قوم کو دھوکہ دینے کی مترادف ہے، تلوار، بم اور گولی پر یقین رکھنے والوں سے بات چیت کا مطلب یہ ہے کہ حکومت انکے سامنے گھٹنے ٹیکنے جا رہی ہے۔ انہوں نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام تکرار کے میزبان عمران خان سے گفتگو میں کہا کہ اصولی طور پر میں مذاکرات کے خلاف نہیں، یقین رکھتا ہوں لیکن مذاکرات کن سے اور کس موضوع پر؟ یہ اہم سوال ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات سمجھ سے بالاتر ہے، کئی حملوں کی ذمہ داری انہوں نے قبول کی جبکہ پشاور چرچ پر حملے کی ذمہ داری جنداللہ گروپ نے قبول کی، جس سے طالبان نے لا تعلقی کا اعلان کیا، طالبان کے نام پر قریباً 60 گروپ سرگرم ہیں، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کس اتھارٹی سے کریں، کس موضوع پر کریں، کس کی ضمانت پر کریں، کیا ایک گروہ سے مذاکرات کو دوسرا گروہ تسلیم کرے گا؟
ڈاکٹر قادری نے کہا کہ اے پی سی نے ملک میں صرف کنفیوژن پیدا کی۔ حکومت 18 کروڑ عوام کو بتائے کہ دہشت گرد کون ہیں، ان کے پیچھے کون ہے، انہیں فنڈ کون دے رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کس کی ہے؟ جو طالبان ریاست کو مانتے ہیں، آئین اور قانون کی رٹ کو مانتے ہیں، ہتھیار پھیکنے کو تیار ہیں، ان سے مذاکرات کیے جائیں، حکومت 18 کروڑ عوام کو بتائے کہ دہشت گرد کون ہیں، ان کے پیچھے کون ہے، انہیں فنڈز کون دے رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کس کی ہے؟
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ قومی امور کی اہمیت کے تمام معاملات پر اسے معلومات دی جائیں، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے مشترکہ ملاقات کی تفصیلات عوام کو نہ بتا کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہمارا کیا کردار ہے، قوم کو بتایا جائے، پارلیمنٹ میں اس کا جواب دیا جائے۔
عمران خان کی طرف سے طالبان کے دفتر کے قیام کے مطالبے کے سوال پر ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا اگر طالبان نے آئین اور دستور پاکستان کو مان لیا ہے تو انہیں دفتر کھولنے کی اجازت دے دی جائے، عمران کی مجبوری یہ ہے کہ انہوں نے کے پی کے حکومت چلانا ہے، لیکن ہمیں تمام سیاسی مجبوریوں اور دباؤ سے نکل کر سوچنا ہو گا۔ دہشت گردوں کے پاس غیر ملکی اسلحہ کہاں سے آتا ہے، کس بندرگاہ پر آتا ہے، کون وصول کرتا ہے، کون پیسے دیتا ہے، ان کے پیچھے کوئی مسلمان ملک ہے یا کوئی اور غیر مسلم ہے؟ کیا ہم گونگے، بے حس ہیں، بھکاری ہیں۔ دیگر ممالک ہمیں بھکاری سمجھ کر ہمیں ذلیل کرتےہیں، یہاں پراکسی وار لڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں ڈرون حملے رکوانے کا مطالبہ کرنے والے اب اقتدار میں ہیں، جن پر انتخابات کے دوران حملے نہیں ہوئے، وہ انہیں صلہ دینا چاہتے ہیں اور خود 5 برس پورے کرنا چاہتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی میں روزانہ سینکڑوں لوگ مر رہے ہیں، جان ومال کا تحفظ نہ کرنے والی حکومت کو اقتدار میں رہنے کا حق نہیں۔ عوام کو اٹھنا ہو گا، اپنے حقوق چھیننا ہوں گے، لٹیرے انہیں حقوق نہیں دے سکتے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے تین ماہ میں منہگائی کا جن بے قابو ہو گیا ہے، پہلے 10، 15 برس معاشی استحکام رہتا تھا، روز قیمتیں نہیں بڑھتی تھیں، یہی لوگ 5 سال برسراقتدار رہے تو ملک کا حشر ہو جائے گا۔ روزانہ خود کشیاں ہو رہی ہیں، کئی گھرانے اپنی بیٹیوں کی عزتیں بیج کر لقمہ کھا رہے ہیں، بیروزگار نوجوان ڈاکے مار کر گزر بسر کر رہے ہیں، انہیں قرضوں کی بجائے روزگار دیا جائے۔
ایک اور سوال پر ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ملک میں انقلاب کےلیے دو کروڑ نمازی چاہیں، ایک کروڑ مرکزی اور ایک کروڑ علاقائی جماعتوں کے لیے، وہ اپنے حقوق چھیننےکےلیے اٹھ کھڑے ہوں تو سبز انقلاب آ جائے گا، حقیقی اسلام کی روح بحال ہو گی، نظام انتخاب اس راہ میں رکاوٹ ہے، اس نظام کے تحت تبدیلی نہیں آئے گی، اب لانگ مارچ ہو گا تو واپسی نہیں ہو گی اس وقت تک جب تک انقلاب 18 کروڑ عوام کا مقدر نہیں بن جاتا۔
تبصرہ