اب لانگ مارچ نہیں انقلاب کے لیے اٹھیں گے، ڈاکٹر طاہرالقادری کا ARY News پر مبشر لقمان کو خصوصی انٹرویو

پروگرام: کھرا سچ (ARY News)
میزبان: مبشر لقمان
تاریخ: 22 اکتوبر 2013ء

مبشر لقمان: آج ڈاکٹر طاہرالقادری ہمارے ساتھ شریک ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری کے کچھ کلپس میں آپ کو دکھا رہا تھا جس میں انہوں نے اس نظام کو، اس الیکشن کمیشن کو، آرٹیکل 62 اور 63، آرٹیکل 213 ان سب کی نشاندہی کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ بعد میں جن کو اس پہ پچھتاوا ہو گا ان کو میں ابھی کہہ رہا ہوں کہ اس کا ازالہ کر لیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ بھی prediction کی تھی کہ پروگرام "کھرا سچ" بند کر دیا جائے گا اور اس طرح کے جتنے پروگرامز ہوں گے ان کو وقتاً فوقتاً بند کرنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ کوئی بھی اپنی تنقید اور جائز تنقید کو برداشت نہیں کرتا۔

سوال: ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب بات یہ ہے کہ میں آپ سے دو ٹوک سوال کر رہا ہوں کہ جس جس چیز کی آپ نےنشان دہی کی تھی ڈی چوک اسلام آباد پہ بیٹھ کے اور اس کے آگے پیچھے وہ ساری کی ساری حرف بہ حرف سب صحیح ثابت ہو گئیں، ایسی کون سی وجہ ہے یا وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آپ convinced تھے کہ یہ سب کچھ ہونا ہے اور اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ باقاعدہ، میں بالکل باقاعدہ آپ کو کہہ رہا ہوں کوئی اس میںexaggeration کہ ایک عام آدمی کے لیے اپنے اور اپنے خاندان کا شرافت سے زندگی گزارنا نہ صرف محال ہو چکا ہے بلکہ اب وہ اس کا سوچ بھی نہیں سکتا تنخواہ کے اندر گزارا کرنا، پاکستان کا مستقبل کیا ہے اور آپ نے یہ predictions کس بنیاد پہ کی تھیں؟

جواب: مبشر صاحب وجہ یہ ہے کہ اگر میڈیا میں تمام لوگ تعریف کرنے والے ہی ہو جائیں اور بدی کو بدی کہنے والا کوئی نہ رہے اور برائی کو برائی کہنے والا کوئی نہ رہے، روشنی اور اندھیرے کوdifferentiate کرنے والے لوگ نہ رہیں تو بعض اوقات حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے اچھا ہے، یہ بڑی نادانی ہوتی ہے اسی اچھے کے تصور نے بڑے بڑے جہازوں کو ڈبو دیا ہے اور بڑے بڑے طاقتور لوگوں کو زمیں بوس کر دیا ہے۔ طاقت دراصل حقیقت کو دیکھنے اور سننے کی صلاحیت رکھنے سے آتی ہے، آپ میں realization پیدا ہوتی ہے آپ اپنی کمزوریاں، کوتاہیاں، خرابیاں جانتے ہیں، خود کبھی نظر نہیں آتیں انسان کو اپنی خرابیاں، کوئی بتانے والا بتاتا ہے اور انسان سننے کے لئے تیار ہو تو اس کا ذہن متوجہ ہوتا ہے، دکھانے والا دکھاتا ہے اور اس شخص کی آنکھیں دیکھنے کو تیار ہوں تو پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ میں کہاں کہاں درست کر رہا ہوں اور کہاں کہاں ٹھوکر کھا رہا ہوں، کہاں غلطی کر رہا ہوں۔ ایک کلچر ہوتا ہے reform کا اور self-accountability کا، خود احتسابی کا، اپنی اصلاح کا، قوم کی اصلاح کا، لہذا اس عمل کے لیئے لازمی ہوتا ہے کہ توازن برقرار رکھا جائے اور حق گوئی والے لوگوں کی آواز کو دبایا نہ جائے، بے شک وہ بری لگے کڑوی لگے مگر حقیقت میں وہ ملک اور قوم اور خود حکمرانوں کے اپنے مفادات میں بہتر ہوتی ہے، اگر وہ ریاست کا مفاد سوچتے ہیں۔ اب آپ نے جو سوال کیا کہ میرے یقین کی بنیاد کیا تھی جب میں categorically یہ کہہ رہا تھا جس کو آپ نے پیش گوئی کا title دیا میرے نزدیک مبشر لقمان صاحب یہ کوئی پیشین گوئی نہیں تھی، یہ نوشتہ دیوار تھا اور نوشتہ دیوار ہے، دیکھیے میں ایک طالب علم ہوں میری زندگی کا یعنی آپ یوں سمجھ لیجئے کہ 50 سال یا اس سے زیادہ عرصہ طالب علمی میں گزرا ہے اور آج بھی ایک طالب علم ہوں، کوئی بھی جو Law کا student ہے جو sociology کا student ہے، سماجیات کا، عمرانیات کا، سیاسی عمل کا اور politics کا student ہے، economic کا سٹوڈنٹ ہے، معاشرے ترقی کس طرح سے کرتے ہیں، زوال پذیر کس طرح سے ہوتے ہیں، نظام عروج کیسے پکڑتے ہیں اور نظام برباد اور تباہ کیسے ہوتے ہیں۔ جو آدمی اس چیز کا طالب علم ہے، گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے اس پر یہ حقیقت کبھی مخفی نہیں رہتی کہ تبدیلی ایک ناگزیر شے ہے۔ ہماری society میں ہمارے حکمرانوں نے سیاسی لیڈروں نے اپنے مفادات کے لیے پچھلے 65سال سے، جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا تب سے تبدیلی کو روک رکھا ہے، یعنی برصغیر پاک و ہند میں ایک ہی تبدیلی کا عمل ہوا تھا ایک ہی اور ایک ہی بار، وہ قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمۃ کی قیادت میں جس میں جو sub-continent تھا یہ دو ریاستوں میں تبدیل ہوا، British rule نے آزادی دی اور ایک نیا ملک "مملکتِ خداداد پاکستان Islamic Republic of Pakistan" وجود میں آیا یہ ایک تبدیلی تھی۔ قائد اعظم کی وفات ہو گئی وہ دن اور آج کا دن، جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی ضمام، باگ ڈور آ گئی وہ 65سال سے تبدیلی کو روک رہے ہیں۔ انہوں نے اور کچھ نہیں کیا۔ طرح طرح کے حیلے بہانوں سے، طرح طرح کی مکاریوں سے، طرح طرح کے عیاریوں سے، ظلم اور جبر سے تبدیلی کے عمل کو روکے ہوئے ہیں اور ایک ہی طرز کے انتخابات، اس کو انہوں نے جمہوریت کا نام دے دیا ہے اور وہی پرانے جاگیردار جو انگریز کے زمانے میں جن کے باپ، دادا، پر دادا اور اس سے بھی اوپر کی نسلیں ان کی حکمرانی کا حصہ ہوا کرتے تھے، جن کو انگریزوں نے نوازا تھا، وہی نسل در نسل دیہی آبادیوں میں اس جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے ان کا control ہے اور شہری آبادیوں میں بہت بڑے سرمایہ دار، جنہوں نے اس پورے عرصے کے اندر corruption کے ذریعے، ٹیکس چوری کے ذریعے قوم کا خزانہ لوٹ لوٹ کر اپنے آپ کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے جتنا طاقتور ایک بڑا جاگیردار دیہی آبادیوں میں rural areas میں ہوتا ہے لہذا ان کی بھی غنڈا گردی کی وجہ سے، دہشت گردی کی وجہ سے، طاقت کی وجہ سے، مبشر صاحب تھانے ان کے کنٹرول میں ہیں، D.C ان کے کنٹرول میں ہیں، S.P ان کے control میں ہیں، S.H.O سے لے کے پٹواری اور نیچے تھانیدار تک اور پولیس مین تک ان کے کنٹرول میں ہیں، تمام آفیسرز ان کے ڈیروں پر ان سے پیسے لیتے ہیں monthly ان کو جاتی ہے۔ وہ شام کو ان کے پاس آکے بیٹھتے ہیں یہ ان کو پیتے پلاتے ہیں، ان کو لگواتے ہیں، ان کو ترقی دلواتے ہیں، وہ شراب خوری کرتے ہیں ان کے پیسے پر، ان کی بوتلوں پر، حرام خوری کرتے ہیں، یہ ان کے محافظ ہیں، ان کو وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم سے ان کے تقرری کے لیٹر لے کے آتے ہیں، ان کے بیٹوں کی نوکریاں دلواتے ہیں یہ ان کے محافظ ہیں، وہ ان کے محافظ ہیں، نتیجتاً مبشر صاحب بڑی صاف بات ہے کہ ایک خاص اشرافیہ ہے، اس میں عام امیر لوگ بھی نہیں ہیں جو شرفاء امیر لوگ ہیں، متوسط لوگ بھی نہیں ہیں وہ سب out ہیں process سے، ایک مخصوص اشرافیہ ہے جو شہری اور دیہی آبادیوں پر اپنی طاقت کی وجہ سے قابض ہے جب بھی الیکشن ہوئے 4 سے 5 فیصد افراد کی تبدیلی کے ساتھ وہی طبقات اقتدار میں آئے تو جب وہی طبقات اب بھی 11مئی کے الیکشن میں آئیں گے میں دیکھ رہا تھا اور وہ 100 فیصد آئے تو لہٰذا تبدیلی کیسے آتی، تبدیلی کے نام لینے والے لوگوں نے رونا ہی تھا جو کہ الٹ پلٹ کر قوم نے آخری امید سمجھ کر میری بات پہ کان نہیں دھرا اس وقت انہوں نے سمجھا کہ شاید کہ اب کے الیکشن سے ہماری تقدیر بدل جائے مگر یاد رکھ لیں یہ قوم آپ کی وساطت سے کے سائنس کا ایک مسلمہ، سائنس کا، فزکس کا ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک ہی action، ایک ہی طرح کا action اگر آپ اس کو سو بار repeat کر دیں ایک ہی طرز کے عمل کو اور توقع رکھیں کہ نتیجہ different آ جائے گا، مختلف آ جائے گا، ایسا کبھی نہیں ہوتا، ایک عمل ایک بار کریں جو نتیجہ اس سے آئے گا اسی عمل کو لیبارٹری میں آپ 100 بار دہراتے رہیں ہر روز دہرائیں ہر 5 سال بعد دہرائیں وہی نتیجہ آئے گا۔

مبشر لقمان: اصل میں ڈاکٹر صاحب آپ نے جتنی تفصیل سے بتایا اور میں نے اسی لیے آپ کو بیچ میں interrupt نہیں کیا کیونکہ کرنے والے میرے بہت سے سوالات تھے، ان کے جوابات آپ نے مجھے اسی جواب کے اندر دے دیے۔ اب ٹیکنیکلی میرے پاس ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب آپ سے دو سوال کرنے کے رہ گئے ہیں۔ اس وقت ناظرین میں آپ کو ایک بات بتا دوں کہ جو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں 50 سال سے طالب علم ہوں یعنی کہ یہ وہ شخص ہیں جو ہزار سے زیادہ تصانیف کے مصنف ہیں اور بہت یعنی major قسم کی تصانیف کی بات کر رہا ہوں، یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے چوبیس ہزار سے زائد مقالمے اور پیپر جو ہیں تصنیف کیے ہیں، یہ وہ ہیں جنہوں نے ہزاروں کانفرنسز کو ایڈریس کیا world over اور ڈاکٹر طاہرالقادری وہ ہیں کہ جن کی نشاندہی پر امریکن یونیورسٹیز نے اپنے سلیبسز میں تبدیلی کی ہے تو یقینی طور پر ان کی بات کو ذرا غور سے سننا کرنا پڑے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن worldwide آرگنائزیشن ہے، اور اس وقت پوری دنیائے اسلام میں اتنا stature اور volume رکھنے والی کوئی تنظیم اور جماعت مشرق سے مغرب تک نہیں جو volume اور stature اللہ رب العزت نے تحریک منہاج القرآن کو عطا کیا ہے، پاکستان عوامی تحریک اور دیگر تو بہر صورت اس کے مختلف شعبہ جات ہیں۔ جو اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے ہیں یہ تو ایک کائنات ہے اپنی جگہ۔

سوال: ڈاکٹر صاحب اگر الیکشن سے پہلے آپ کے دھرنے کے وقت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان اُس دھرنے میں شامل ہو جاتے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس کا نتیجہ بالکل مختلف ہوتا، اور جس طرح آپ سے جھوٹے وعدے کیے جس کو اب بلاول جیسے یعنی بچے جو ہیں لوگ جو ہیں وہ آ کے کہتے ہیں کہ ہم نے سیاسی طور پر حل کیا، اگر جھوٹ بولنا یا اپنی کی ہوئی بات سے مکرنا سیاست ہے تو وہ مجھے علم نہیں لیکن بطاہر حل تو یہی ہے کہ وہ تو اپنی بات سے مکر گئے سارے کے سارے قائدین جو تھے وہاں پہ جو انہوں نے آپ سے اور وہاں پر موجود لاکھوں لوگوں سے عہد کیا، لاکھوں لوگ جو وہاں پر اس سردی میں اور اس بارش کے دن پہ موجود جو تھے، اگر عمران خان وہاں پہ آ جاتے تو یقینی طور پر بہت بڑی تقویت ملتی اور قوت بن جاتی اور سسٹم جو ہے اس میں واقعی تبدیلی کی گنجائش آ جاتی۔ عمران خان اگر آتے تو آپ اور آپ کے خاندان نے پہلے سے اعلان کر دیا تھا کہ آپ کسی بھی طریقے سے الیکشنز میں حصہ نہیں لیں گے ذاتی حیثیت سے، نہ آپ کے بیٹے، نہ صاحبزادیاں نہ بیگم صاحبہ نہ آپ، کوئی بھی براہ راست نہیں لے گا تو اس کا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہونا تھا، عمران خان کو ہونا تھا، وہ ایسی کونسی وجوہات ہونگی یا ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے اس وقت ان کے قدم ڈگمگا گئے اور انہوں نے اسلام آباد میں آپ کو join نہیں کیا۔

جواب: مبشر صاحب جو آپ نے تجزیہ کیا ہے اس پہلے حصے تک تو میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں جو بات آپ نے ابھی جس کا ذکر کیا یہ وہ بات ہے جس کا میں نے اعلان کر دیا تھا اور definitely اس کے beneficiary وہ ہوتے عمران خان صاحب اس میں تو کوئی شک نہیں، لیکن وہ کونسی قوتیں تھیں جنہوں نے ان کو روک دیا یا وہ کونسے اسباب تھے جنہوں نے ان کو join نہیں کرنے دیا اس پر میں سمجھتا ہوں میرا ایک اپنا اخلاقی منصب بھی ہے کہ میں comment کرنے سے اجتناب کروں اور یہ جواب وہ خود ہی بہتر دے سکتے ہیں، اس پر میرا comment کرنا مناسب نہیں، اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے ایک بہت بڑی غلطی کی اس وقت، اور اس لیے میں غلطی کا جملہ بھی آج اس لیے بول رہا ہوں کہ وہ بیس مرتبہ خود کہہ چکے ہیں، اگر وہ اپنی زبان سے نہ کہہ چکے ہوتے بار بار تو میں یہ جملہ بھی نہ منسوب کرتا ہے ان کی طرف، میرا ایک اپنا ظرف ہے، سطح ہے اخلاق کی، میں اچھی خواہش رکھنے والے لوگوں کے لیے ہمیشہ دل میں احترام رکھتا ہوں اور اچھے تعلق کو استوار کرتا ہوں۔

بہر صورت ایک اور ایک کہتے ہیں گیارہ ہو جاتے ہیں مل کر، دیکھیے مبشر صاحب ایک بات آپ کو بتا دوں کہ تبدیلی ایک ناگزیر چیز ہے اسے آنا ہی آنا ہے، دنیا کی کوئی طاقت بالآخر تبدیلی کو روک نہیں سکتی، کوئی چیز دنیا میں static نہیں ہے، علامہ اقبال بھی کہتے ہیں کہ "ازل سے صدائے کن فیکون آ رہی ہے" اور یہ صدائے کن فیکون آئے گی پاکستان میں بھی آئے گی، صدائے کن فیکون آئے گی اس کا نام تبدیلی اور انقلاب ہے، بے شک عرصہ دراز سے status quo کو مینٹین کرنے کے لیے تمام قوتیں یکجا ہیں، جڑی ہوئی ہیں مگر بہر صورت وقت کے ساتھ تبدیلی کو آنا ہے, اس کو جتنا بھی چاہیں resist کر لیں، جتنا conservative ہو جائیں، جتنا resistance ہو جائیں، جتنا orthodox ہو جائیں، جتنا reject کرنا چاہیں، آپ اس کو ہمیشہ کے لیے ملتوی نہیں کر سکتے۔ میں یہاں ایک بات عرض کر دوں کہ یہ جو جرائم پاکستان میں پھیل رہے ہیں، آپ نے کبھی مبشر صاحب اتنی کثرت کے ساتھ میں نے زندگی میں نہیں دیکھا، زندگی یہیں گزاری ہے، ہر روز کے ٹی وی نیوز میں اب معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کے مظاہرے کی اطلاعات آ رہی ہیں، اتنی فراوانی کے ساتھ شرمناک درندگی کا یہ عالم پاکستان کی تاریخ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، نہ کبھی سنا تھا۔ ہر روز لوگ درندگی کر کے لوگ اتنے بے شرم، اتنے جرائم پیشہ، اتنے درندہ صفت ہو رہے اور پھر جتنے جرائم ہو رہے ہیں اس کے علاوہ ڈکیٹیوں کے، قتل و غارت گری کے، اغوا کے۔ نوجوان لڑکے بے روزگاری کی وجہ سے شارٹ ٹرم ڈکیٹیاں برائے تاوان کر رہے ہیں، ایئر پورٹ سے آتے ہوئے کو پکڑتے ہیں just for two three hours اور ان کے ساتھ تاوان مقرر کرتے ہیں لاکھ دو، پانچ لاکھ جو طے ہو، لے کے چلتے بنتے ہیں، جرائم سوسائٹی کا source of income بنتا جا رہا ہے۔ ڈاکہ زنی، چوری، لوٹ مار، جرائم، عزت فروشی، عصمت فروشی، کیا سمجھ رہے ہیں کہ اگر کثرت کے ساتھ اگر ہزاروں گھرانے خود کشی نہیں کر رہے تو اس کا مطلب ہے انہیں رزق مل رہا ہے؟ نہیں! انہوں نے اپنے گھروں کو عزت فروشی اور عصمت فروشی کے اڈے بنا لیے ہیں اور بد قسمتی یہ ہے کہ سوسائٹی میں یہ جو اس وقت عصمت فروشی ہو رہی ہے، دہشت گردی ہو رہی ہے، درندگی ہو رہی ہے، جرائم فروغ پا رہے ہیں، طالبان کے گروہ وجود میں آئے، رد عمل ہو رہا ہے، بم بلاسٹ ہو رہے ہیں، دہشت گردی ہو رہی ہے، یہ سارا کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے کئی اسباب ہیں، میں اس پر کئی مرتبہ روشنی ڈال چکا ہوں، اس کے فکری، مذہبی، نظریاتی اسباب الگ ہیں، اس کے سیاسی اور بین الاقوامی اسباب الگ ہیں مگر اس وقت میں صرف ایک نقطے پر concentrate کر رہا ہوں اور وہ Socio-economic aspect ہے، جس سوسائٹی میں مبشر صاحب عدل ملنا بند ہو جائے، جس سوسائٹی میں وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ رہے، جس سوسائٹی میں لوگوں کو روزگار نہ ملے، عدل و انصاف نہ ملے، تعلیم کے مواقع نہ ملیں، ترقی کے برابر مواقع نہ ملیں، بیمار کو علاج اور معالجہ کے لیے کچھ نہ ملے، کہیں داد رسی نہ ملے، جس معاشرے میں سارے دروازے جس سے انسانی زندگی پنپتی ہے، develop ہوتی ہے، ارتقاء پاتی ہے اور اس کے اندر نشوونما ہوتی ہے وہ سب ختم ہو جائیں اور سارے دروازے غم کے، دکھ کے، ملال کے، پریشانی کے، غصے کے، رنج کے، کھل جائیں اور انسان دیکھے کہ یہاں سوائے بے عزتی اور بے غیرتی کے جینا ممکن نہیں اور وہ دیکھے کہ ڈاکے کے سوا کوئی روزگار نہیں، چوری کے سوا کوئی source of income نہیں، بے غیرتی اور درندگی کے سوا کوئی ذریعہ جینے کا نہیں، جب سوسائٹی یہ راستے کھول دیتی ہیں اور اچھے راستوں سے لوگوں کا جینا نا ممکن بنا دیتی ہے، نظام، حکمران اور پولیٹیکل لیڈر، تو نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ status quo روکنے والے لوگ اُس تبدیلی کو جو روک رہے ہیں وہ پھر اچھی تبدیلی نہیں آتی اس معاشرے میں بری تبدیلی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ اس فرسودہ اور ظالمانہ کرپٹ نظام کو برقرار رکھ کے پورے ملک اور اٹھارہ کروڑ عوام کی سوسائٹی کو بدی کی تبدیلی کی آماجگاہ بنا رہے ہیں، لوگوں کو دھکیل رہے ہیں ان حالات کی طرف، جب وہ دیکھیں کہ غربت رزق حلال سے ختم نہیں ہوگی، آپ کو جاب نہیں ملے گا، انجینئر کو نہیں ملے گا۔ وہ زمانہ تھا کہ کوئی ڈاکٹر اور انجینئر بنتا تھا کسی زمانے میں تو کوئی بے روزگار نہیں رہتا تھا، اب MAs کو چھوڑ دیجئے، آپ MBAs کو چھوڑ دیجئے، آپ ٹیکنالوجسٹ کو چھوڑ دیجئے، آپ IT سپیشلسٹوں کو چھوڑ دیجئے، انجینئرز اور ڈاکٹرز اور سپیشلسٹ اور پی ایچ ڈی جس سوسائٹی میں بے روزگار دھکے کھا رہے ہوں اور ان پڑھ لوگ، جعلی ڈگریوں والے، کم تعلیم یافتہ، صرف جن کو ٹاک شو میں بولنا آتا ہے، باتیں کرنا، گالی گلوچ کرنا آتا ہے، جگت بازی آتی ہے سیاسی جگت باز، وہ غنڈہ گردی، دہشت گردی، مال، دولت اور کرپشن کے زور پر پورے ملک کے اقتدار اور دولت پر قابض ہوں اور تعلیم یافتہ طبقہ دیکھے کہ وہ ان کے دروازوں پر دھکے کھاتے ہیں، ان کو نوکری نہیں ملتی، وہ رشوت مانگتے ہیں، میں ذاتی طور پر جانتا ہوں انجینئرز کو، ڈاکٹروں کو وہ نکل کے اپنے ملک سے بیروزگاری کے ڈر سے باہر آ کے ٹیکسیاں چلا رہے ہیں۔ وہاں ان کو جاب نہیں مل رہا، ہسپتال خالی پڑے ہیں حالانکہ وہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجسٹ چاہیں، انجینئرز چاہیں مگر جس ملک میں ضرورت ہے جس علم کی skill کی، اس skill کے رکھنے والوں کو جاب میسر نہیں چونکہ جاب پلاننگ نہیں ہے۔ سوسائٹی کو develop کرنے کی پلاننگ نہیں ہے تو نتیجہ کیا ہو گا، اس کے نتیجے میں frustration پیدا ہوتی ہے اور frustration آدمی کو criminal بناتی ہے، frustration آدمی کو terrorist بناتی ہے، frustration آدمی کو suicide bomber بناتی ہے، frustration آدمی کو عزت فروشی تک لے جاتی ہے اور بچوں کو خودکشی کروانے، قتل کرنے اور نہروں میں دھکیل دینے پر لے جاتی ہے۔ آپ اندازہ کر لیں جب حالات سوسائٹی کے یہاں تک ہو جائیں گے تو آپ ایک اچھی تبدیلی کا راستہ روک رہے ہیں اور ایک تباہ کن حالات ہلاکت انگیز، بری تبدیلی کے ہزار راستے کھول رہے ہیں۔ آپ ان قوموں کو دیکھیں جو ہماری طرح کل تک برٹش کالونیز تھیں، میں اس وقت ملائشیا کی مثال دینا چاہتا ہوں 1970 میں ملائشیا میں 57 فیصد یہ تھا غربت کا ریٹ، poverty ریٹ 57 فیصد شرح تھی غربت کی، آج پانچ فیصد سے کم رہ گئی ہے، بھائی یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں، میں اٹھارہ کروڑ عوام کو مبشر صاحب آپ کے پروگرام کی وساطت سے بتا رہا ہوں، دل خون کے آنسو روتا ہے تڑپتا ہے انسان جس کو اللہ نے آنکھ دی ہے کہ وہ دیکھے کہ کیا ہو رہا ہے، ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ملک، چائنہ ہمارے ساتھ آزاد ہوا دو سال بعد آزاد ہوا ہے، ہماری طرح برٹش کالونی تھا یہ ملائشیا ایک چھوٹا ملک ہے 1970 میں 57 فیصد شرح غربت رکھنے والا ملک آج اس کی پانچ فیصد سے بھی کم رہی گئی ہے، اتنی manufacturing develop کی ہے، اتنی industries develop کی ہیں، اتنے human resources کو انہوں نے منظم کیا ہے، اتنا اپنے آپ کو war strategy کے طور پر انہوں نے price کنٹرول کیا ہے، اتنا inflation کو روکا ہے، اتنے skill ورکرز پیدا کیے ہیں، اتنا ان کو develop کیا ہے پانچ سالہ پلاننگ، دس سالہ پندرہ سالہ پلانگ، بیس سالہ پلاننگ، پچاس سالہ پلاننگ کے ساتھ، یہاں جو لوگ اقتدار میں بیٹھے ہیں ان کو پلاننگ کے نام تک کا کوئی پتہ ہے؟ ان کو پتہ ہے کہ اس ملک کے اگلے پانچ سال میں کیا ہونا ہے؟ دس سال میں کیا ہونا ہے؟ بیس سال میں کیا ہونا ہے؟ قومیں سو سو سال کی ایڈوانس پلاننگ کرتی ہیں مگر ان کے پاس افسوس کہ وژن نہیں ہے۔ آپ نے پچھلے پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت دیکھی، آپ اس گورنمنٹ کے سارے وزراء کے نام، ان کی تعلیم، تجربہ اور ان کی تصویریں سامنے رکھ لیں، میں ایک نیا analysis دے رہا ہوں آپ کو، ان کی قابلیت رکھ لیں اور ان کی اس نالائقی کے نتیجے میں جو کچھ اس ملک کے ساتھ ہوا اس انجام کو بھی دیکھ لیں۔ اب موجودہ گورنمنٹ جو آخری امید بنی ووٹ دینے والوں کی، ان کے وزراء کو بھی سامنے رکھ لیں ان کے نام، ان کی تصویریں، ان کی تعلیم، تجربہ، مہارت، قابلیت، دونوں کو اکٹھا رکھ لیں کمپیئر کر لیں اور میں آپ کو اللہ رب العزت کی قسم دے کر آپ کو کہہ رہا ہوں آپ دونوں کا موازنہ کر کے بتا دیں کسی لحاظ سے یہ ٹیم اس پہلی پیپلز کی ٹیم سے لائق نظر آتی ہے کوئی شخص بتا دیجئے۔

مبشر لقمان نے کہا کہ لاحول ولا قوۃ پہلی ٹیم میں شیخ وقاص اکرم جیسے جاہل تھے اس ٹیم میں عابد شیر علی جیسے لوگ بھی ہیں تو کیا موازنہ کروں میں، choosing the worst evil والی بات ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ میرا مطلب ہے جب یہ معیار رہ جائے تو اس ملک نے ترقی کہاں سے کرنی ہے، پلاننگ کہاں سے ہو گی، ایجوکیشن کیسے بڑھے گی، health environment کیسے پیدا ہو گا، job پلاننگ کیسے ہو گی، poverty کیسے ختم ہو گی، investment کی پلاننگ، investment کیسے آئے گی، ملک خود کفیل کیسے ہو گا، دہشت گردی کیسے ختم ہو گی، امن کیسے ہو گا، عدل و انصاف لوگوں کے گھروں تک کیسے ملے گا، یہ سارے مسائل حل کرنے کے لیے عقل چاہیے، دماغ چاہیے، تعلیم چاہیے experience چاہیے، awareness چاہیے، ایک وژن چاہیے، worldwide study چاہیے اس کا تو نام و نشان نہیں، سرے سے نالائق لوگ جن کو صرف ایک کام آتا ہے ٹی وی شو پر بیٹھ کر ایک دوسرے پر جگت بازی کرنا، کیچڑ اچھالنا، گلے پھاڑنا، گالی گلوچ کرنا، تہمت لگانا، جھوٹ بولنا اور حلقے میں بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ذریعے کنٹرول کرنا، یہ ملک پاکستان میں ان ذرائع سے تبدیلی کر لیں گے، کیا انقلاب آئے گا؟ اور جو لوگ چاہتے تھے تبدیلی وہ بھی ایسے بری طرح پھنسے کہ جتنے سال یہ رہیں گے ان کی زبان بند رہے گی، میں نے کہا تھا کہ یہ نظام نمک کی کان کی طرح ہے، اگر آپ اس میں دس پچاس ہیرے بھی رکھ دیں دو سال تین سال کے بعد دیکھیں تو وہ ہیرا بھی نمک ہو چکا ہو گا گل جائے گا۔ یہ نظام انسان کو انسان رہنے ہی نہیں دیتا، تبدیلی کی خواہش رکھنے والے کو ختم کر دیتا ہے۔

سوال: ڈاکٹر صاحب! الیکشن سے چند مہینے پہلے آپ نے لانگ مارچ کیا، بڑا اچھا کیا، لوگوں نے آپ کو لبیک بھی کہا، لاکھوں لوگوں نے آپ کا ساتھ بھی دیا اور نامساعد حالات کے باوجود ساتھ دیا۔ لیکن اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اب ایک بہت بڑی اکثریت ہے عوام کی جو نظام میں حقیقی طور میں تبدیلی چاہتی ہے، جو سسٹم کو سرے سے تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ سانس تو لے سکیں، باقی کچھ ملے نہ ملے سانس تو ان کو مل جائے۔ کیا اب آپ انتظار کریں گے لانگ مارچ کی کال دینے کا یا صرف الیکشن سے چند مہینے پہلے آ کے آپ لانگ مارچ کرنا چاہیں گے؟ ڈاکٹر صاحب!

جواب: جی مبشر صاحب! یہ جو آخری حصہ ہے نا آپ جملے کا، اس کا جواب تو No میں ہے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ الیکشن سے چند مہینے پہلے لانگ مارچ کی کال ہو، یہ نہیں ہو گا۔ اتنی تاخیر نہیں کریں گے ان شاء اللہ کہ ملک کی کشتی ڈوب جائے یا ملک کے معاذ اللہ، اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے ملک کے ٹکڑے ہو جائیں یا سوسائٹی ایسے درندوں کی سوسائٹی میں منتقل ہو جائے کہ بعد میں اس کو کنٹرول کرنا، سنوارنا بھی ناممکن ہو یا معاشی و اقتصادی و انتظامی طور پہ اتنا تباہ حال ہو جائیں کہ خدا جانے اس کے بعد حشر کیا ہو؟ اتنی تاخیر نہیں کریں گے، ایک بات۔ مگر اتنا جلدی بھی نہیں کرنا چاہتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بات طے ہے میں آپ کی بات پہ Yes کر رہا ہوں وہ یہ کہ ان شاء اللہ آپ نے اس کو لانگ مارچ کا نام دیا۔ میں categorical لفظ تو نہیں بولتا، مگر اب اٹھیں گے تو انقلاب کے لئے اٹھیں گے۔ اس کی شکل کیا ہو گی وہ لانگ مارچ ہو گا یا وہ کئی لانگ مارچز ہوں گے یا کیا شکل بنے گی یہ تو وقت بتائے گا مگر اب انقلاب کے لئے اٹھیں گے۔ بہت جلدی اس لئے نہیں کرنا چاہتا کہ جن لوگوں نے ووٹ دیے ہیں، یہ حکومتیں بنائی ہیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ خود اپنی آنکھ سے مشاہدہ کریں۔

سوال: ڈاکٹر صاحب! یہ ووٹ صرف اور صرف فخر الدین جی ابراہیم نے دے دیے ہیں اور کچھ عدالتی ججوں نے ان کو حامی دی ہے۔ عوام نے نہیں دیے یہ ووٹ، کتنی دھاندلی ہم دکھائیں گے، کتنی ٹریٹنگ دکھائیں گے ہم؟

جواب: جی ہاں یہ بات درست ہے۔ آپ کی اس بات سے میں agree کرتا ہوں کہ ووٹ تین قسموں کے پڑے ہیں، میں تھوڑا سا آپ کی اجازت سے آپ کی بات سے اختلاف بھی کروں گا۔ میری طبیعت ہے کہ میں جو بات بھی کرتا ہوں عدل کے ساتھ کرتا ہوں اور مبالغہ سے اجتناب کرتا ہوں۔ آپ نے جن پوائنٹس کی نشاندہی کی وہ درست ہیں، اس حد تک تائید ہے کہ وہ فخرو بھائی نے دلوائے، الیکشن کمیشن، کرپٹ الیکشن کمیشن اور غیر آئینی الیکشن کمیشن نے manage کیے، دلوائے، یہ ایک حصہ درست ہے۔ اس کے بعد جو ریٹرننگ آفیسرز تھے نیچے جن کو لگایا گیا تھا اسی مقصد کے لئے انہوں نے کروایا، جس کو نادرا نے بھی ثابت کر دیا ہے اور یہاں میں ایک بات کہنا چاہوں گا، برسبیل تذکرہ بات آگئی، دو constituencies نادرا نے establish کر دیں کہ وہاں 75 فیصد یا 80 فیصد ووٹ یا more than 80% ووٹوں کی تصدیق بھی نہیں ہو سکتی ہے، verifiable نہیں ہیں، دھاندلی کی انتہا ہے۔ نہ وہ کاغذ، نہ وہ انگوٹھوں کے نشان، نہ ID Card اور نہ وہ سیاہی جو prescribe تھی۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ پلاننگ تھی کہ ایک آدمی پینتیس پینتیس بار بھی ووٹ ڈالنا چاہے، ڈالے، نکلے، سیاہی مٹا کے پھر چلا جائے اور اندر ریٹرننگ آفیسر یہ کرپشن کروانے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے، They were paid for that۔ یہ بات بھی درست ہو گئی۔ لیکن اب میں یہاں ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں کہ عمران خان صاحب بار بار کہہ رہے ہیں، میں انہیں بھی یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ 25، 30 اور constituencies کا اسی طرح معائنہ کرایا جائے اور نادرا decision کرے۔ نہیں! Nadra should be a part of that process اگر 30، 40، 50 constituencies اس کی چیکنگ اسی طرح کروانے کے لئے فنگر پرنٹس کے ساتھ، ID کی چیکنگ کے لئے verifiability اس کی چیکنگ کے لیے بین الاقوامی neutral کمیشن بننا چاہیے، نادرا میں بھی اسی ملک کے لوگ بیٹھے ہیں۔ اگر دو constituencies میں بھلائی کر دی ہے ممکن ہے اچھا امیج بنانے کے لئے ہی کر دی ہو تاکہ دو constituencies کے نتائج سے خوش ہو کر آپ انہی کو سونپ دیں کہ 30، 40 constituencies آپ ہی کر دیں وہ آپ کو پھر سفید پرچہ لکھ کے verify کر کے دے دیں گے۔ نہیں، There should be an independent international neutral commission to verify this election, validity of this election۔ اس کے اندر نادرا بھی حصہ ہو اور ملک کے اندر پھر غیر جانب دار افراد اور تمام سیاسی پارٹیوں کے نامزد کردہ فرد بھی شامل ہوں، آنکھوں سے دیکھیں اور بین الاقوامی NGO’s کے لوگ بھی ہوں۔ ہم بین الاقوامی، میرا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی neutral commission ہو، جو 40، 50 constituencies ملک کے چاروں صوبوں کی choose کر کے ایم این ایز، ایم پی ایز کی، ان کو verify کرے تاکہ الیکشن کی اصل حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھ جائے۔ یہ میں نے correct کرنا تھا اس مطالبے کو کہ مطالبہ یہ ہونا چاہیے۔ اب میں عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ دوحصے تھے۔ تیسرا بہر صورت میں اس بات کا قائل ہوں کہ ایک حصہ لوگوں کے ووٹوں کا بھی ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ لوگوں نے سرے سے ووٹ ہی نہیں دیے۔

سوال: کیا ہم 23 مارچ 2014ء کو یہ expect کرسکتے ہیں کہ آپ لانگ مارچ کر رہے ہیں یا انقلاب کی کال دے رہے ہیں؟

جواب: آپ 23 مارچ کا لفظ ذرا ہٹا دیں، لیکن میں نے عرض کیا کہ اتنی تاخیر نہیں کریں گے کہ لوگ مر جائیں، میں یہ چاہتا ہوں کہ پوری قوم اٹھے کیونکہ اقتدار عوام کو منتقل کرنا ہے۔ میں جو انقلاب لانا چاہتا ہوں۔

سوال: انقلاب اپنی جگہ پہ، سردی اپنی جگہ پہ، پچھلی باری بھی آپ نے اتنی سردیوں میں کر دیا تھا اس بار میں نےبھی آپ کے ساتھ جانا ہے وہاں پہ تو میں چاہ رہا ہوں کہ ذرا اچھے موسم میں ہو جائے۔

جواب: نہیں سردیاں نہیں ہوں گی، سخت سردیاں نہیں ہوں گی، اتنی بات بتا دیتا ہوں۔ ایسا موسم ہو گا، اچھا، خوشگوار جو قابل برداشت ہو، آپ بھی آئینگے اور بہت سے اینکر بھائی آپ کے ساتھ آئیں گے۔ جنہوں نے الیکشنوں کو آخری امید کے طور پر برت لیا، آزما لیا۔ میں چاہتا ہوں پوری قوم اٹھے۔

مبشر لقمان: میں بحیثیت اینکر نہیں آؤں گا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری: میں سمجھ گیا ہوں آپ کی بات، میں آپ کو welcome کرتا ہوں، لیکن میری درخواست یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ قوم اب اٹھے، وہ قوم realize کرے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جس طرح پولیٹیکل لیڈر کہنے لگ گئے اور اپنے اپنے حلقوں میں عوام کہہ رہے ہیں کہ میں نے جو کچھ کہا تھا درست کہا تھا اب وہ سڑکوں پر آکر کہیں، برملا اعلان کریں اور صرف مجھے اس بات کے سننے سے خوشی نہیں ہے کہ میں نے جو کہا تھا سچ کہا تھا، میری خوشی اس بات میں ہے کہ قوم یہ کہے کہ ہم اس نظام کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم انقلاب کے لئے اٹھتے ہیں۔ اس نظام کو سمندر بوس کرنے کے لئے اٹھے اور اب قوم یہ کہے کہ ہمیں انتخاب نہیں انقلاب چاہیے۔ جب انقلاب کے نام پر قوم اٹھ کے باہر آجائے گی۔ ان شاء اللہ مجھے پھر اپنے پاس، اپنے اندر پائیں گے اور اس وقت تک جنگ لڑوں گا ان شاء اللہ تعالی جب تک انقلاب اس قوم، اس ملک اور اس ریاست کا مقدر نہیں بن جاتا۔ ہم نے ریاست پاکستان کو بچانا ہے، ہم نے قائد اعظم کے دیے ہوئے تحفے کو بچانا ہے۔ ہم نے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فضل اور کرم کو بچانا ہے جو پاکستان کی صورت میں ہمیں ملا۔ ہم نے پاکستان کی غیرت کو بچانا ہے۔ solidarity کو بچانا ہے۔

تبصرہ