لاہور: پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت وزیراعظم کے دورہ امریکا کا تسلسل ہے۔ میری گفتگو کا ہرگز یہ مطلب نہیں اور نہ اس کا یہ معنی ہے کہ حکومت پاکستان حکیم اللہ محسود کے قتل میں شریک ہے، میں نے جو کہا کہ یہ دورہ امریکہ کا تسلسل ہے اس کا مطلب ڈرون اٹیکس کا جاری رہنا، ان کو نہ روکنا، امریکہ اور پاکستانی گورنمنٹ کا ڈرون اٹیکس کے جاری رہنے پر اتفاق۔ جب آپ طے کر کے آئے ہیں، معاہدہ کر کے آئے ہیں کہ ڈرون اٹیکس جاری رہیں گے تو اس میں کوئی بھی ٹارگٹ ہو سکتا ہے، وہ حکیم اللہ محسود ہو جائے یا کوئی اور۔ اب یہ اتفاق ہے کہ اس ڈرون اٹیک میں ٹارگٹ حکیم اللہ محسود تھا۔
انہوں نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام تکرار میں میزبان عمران خان سے گفتگو میں کہا کہ 23 اکتوبر کو وائٹ ہائوس نے اوباما اور نواز شریف کی ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں ڈرون حملوں کا ذکر تک نہیں ہے۔ نواز شریف نے انسداد دہشت گردی کی جنگ میں امریکی تعاون کا شکریہ ادا کیا اور اے پی سی کے فیصلے کا وہاں تذکرہ نہیں کیا۔ وزیراعظم کا امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے ملاقات کے لیے خود جانا پاکستان کے لیے شرمناک ہے۔ اس میں طے پایا کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے، حکومت امریکی انٹیلی جنس سیکیورٹی ایجنسی سے یکطرفہ انٹیلی جنس شیئرنگ کرے گی، آئی ایس آئی کو پیچھے کیا جائے گا، آصف زرداری کی کرپشن کا کوئی مقدمہ نہیں کھولا جائے گا، مشرف چند دن میں رہا ہو کر باہر چلے جائیں گے، طالبان کے ان گروپوں سے مذاکرات ہوں گے جو امریکا اور عرب نواز ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ امریکا میں 4 دنوں کے قیام کے دوران نواز وفد کو صرف 4گھنٹے ملے جس میں اوباما، کیری، انرجی ڈیپارٹمنٹ، پینٹاگون اور سی آئی اے حکام سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ ڈرون حملے افواج روک سکتی ہیں مگر اس کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔ نوازشریف وہاں طے کرکے آئے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے، آپ ہمیں اس جنگ کے بقایا ڈیڑھ ارب ڈالر دیں۔ عمران خان اسمبلی میں آواز کیوں نہیں اٹھاتے کہ نواز شریف دورہ امریکا کے بعد پاکستان سے کیوں بھاگے ہوئے ہیں۔ اصل میں وہ لوگوں کا سامنا نہیں کرسکتے۔ آج تک کسی نے اتنا غیرسنجیدہ وزیراعظم دیکھا؟ ان حالات میں بھی بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہیں۔ ملک وزیر خارجہ کے بغیر چل رہا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا اللہ ہی جانتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرامن انقلاب کے لیے تیاریاں جاری ہیں، اچانک کال دیں گے۔ ہر سیاسی جماعت اور مکتبہ فکر کو شرکت کی دعوت دیں گے کہ ہمیں دہشت گردی، انتہاپسندی، ملاازم، غنڈہ ازم، جنگجوازم اور فوجی حکومت نہیں چاہیے۔ ٹی وی پر دیکھ کر دعائیں دینے کا وقت نہیں، ملکی سالمیت و بقا کے لیے ہمارے ساتھ نکلیں۔ اس مرتبہ اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے، فتح کی صبح یا شہادت تک جنگ لڑیں گے۔
تبصرہ