ڈاکٹر دانش: پاکستان کی جو اس وقت current situation ہے، جس طریقے سے آپ نے دیکھا کہ پرائم منسٹر صاحب نے وزٹ کیا اور اس کے بعد ڈرون اٹیکس ہوئے اور ڈرون اٹیک کے ساتھ ساتھ حکیم اللہ محسود مارا گیا اور پھر جو اس سے پہلے ایک ملاقات ہونے والی تھی یعنی طالبان اور حکومت کے درمیان۔ اب اس میں بہت سارے سوالات ہیں، کہ آیا وہ شروع ہوئی تھی یا نہیں ہوئی تھی اپوزیشن کہتی ہے نہیں ہوئی تھی، حکومت نے کہا کہ شروع ہو گئی تھی۔ پھر ڈرون اٹیک کے اوپر بات آئی کہ اس نے سب کچھ سبوتاژ کیا۔ اب اصل حقائق ہیں کیا اور وہی حقائق جو پچھلی ہم نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی statement سنی تھی اس میں کئی سوالات تھے، ان سوالات بارے ہم ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سے پوچھتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے وہ کہاں تک سہی ہے اور کس لیول پر یہ سارے agreements ہوئے ہیں۔
پچھلے پروگرام میں اٹھائے گئے سوالات
22 اکتوبر کو جب نواز-جان کیری کی میٹنگ ہوئی تو اس میں طے کیا ہوا؟ میں وہ جو چیزیں طے ہوئی ہیں میں وہ قوم کو بتانا چاہتا ہوں۔ نواز-اوباما ملاقات سے ایک دن پہلے Prime Minister of Pakistan طے کر کے گئے تھے جان کیری کے ساتھ اس کا پہلا پوائنٹ ہے کہ "drones will carry on in Pakistan for the future" یہ تو ایک دن پہلے طے کر کے آئے ہیں، اب یہاں شور کس بات کا۔ یہاں دھوکہ بازی کس بات کی کہ
- ڈرون اٹیکس جاری رہیں گے
- پاکستان terrorism کو combat کرنے کے لیے expenses equipment پاکستان خریدتا رہے گا۔ پندرہ بڑے بڑے state enterprises پاکستان کے چھ بلین ڈالر پیدا کرنے کے لیے بیچے جائیں گے۔
- نواز گورنمنٹ unilateral انٹیلی جنس شیئرنگ کرے گی امریکہ کی NSA - National Security Agency کے ساتھ اور پاکستان کی ISI کو پیچھے کیا جائے گا۔ بجائے اس کے کہ ISI کے ساتھ complete شیئرنگ ہو اس کی بجائے نواز شریف صاحب کی موجودہ حکومت، شیر دلانہ حکومت National Security Agency of America کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کرے گی unilateral۔ یکطرفہ ان کو اطلاعیں دے گی۔ آپ نے پاکستان کی حکومت کو یکطرفہ جاسوس کا سٹیٹس دے دیا ہے اور اپنی ISI اور ملک کے اپنے اداروں پر اعتماد ختم کر دیا ہے۔
- اس کے بعد پھر آگے یہ بھی طے ہوا ایک دن پہلے، کہ زرداری صاحب کی کرپشن کا کوئی کیس نہیں کھولا جائے گا، It has been decided۔
- مشرف صاحب اگلے تھوڑے عرصے میں رہا ہو کے چلے جائیں گے یہ بھی 22 اکتوبر کو طے کر کے آئے۔
- اور پھر گورنمنٹ ایران کے ساتھ ہونے والی جو گیس پائپ لائن کی ڈیل ہے اس پر زیادہ پریشرائز نہیں کرے گی۔ نرم رویہ رکھے گی تاکہ US اور بڑی طاقتوں کے جو concern ہیں، اور عرب طاقتوں کے جو concern ہیں انہیں ایڈریس کیا جائے۔
- اور آخری یہ بات بڑی important ہے کہ یہ جو آپ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں، اس میں یہ مان کر آئے ہیں پوائنٹ نمبر 13 کہ طالبان کے صرف ان گروپس کے ساتھ مذاکرات ہونگے جو پرو امریکہ ہیں اور پرو سعودی عریبیہ ہیں۔ سن لیں یہ یہاں کے مذاکرات ہیں۔
ڈاکٹر دانش: ناظرین یہ وہ باتیں ہیں جو ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے پچھلے پروگرام میں کی تھیں، آج ڈاکٹر طاہرالقادری ہمارے ساتھ ہیں، ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ اگر یہ ساری باتیں طے ہوئی ہیں جو باتیں آپ نے کہی ہیں تو یہ تو بہت سیریس بات ہے اور یقینا جہاں یہ statement آپ نے دی ہے، آپ اس کو جسٹی فائی کریں گے وہاں آپ پرائم منسٹر آف پاکستان کو بھی یہ جو بات کی جارہی ہے اس کی تردید کرتے ہیں یا تصدیق کرتے ہیں یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہو گا۔ جی ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کیا کہتے ہیں اپنی اس statement پہ آپ۔
ڈاکٹر طاہرالقادری: ڈاکٹر دانش صاحب اللہ جل مجدہ کی مدد و نصرت سے میں نے اس قوم کو جو کچھ بتایا وہ حق اور سچ ہے اور میں اس statement پر قائم ہوں اور اس statement کے سچے ہونے کے شواہد قوم کے سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں یعنی 22 اکتوبر کو جان کیری کے ساتھ پاکستانی Prime Minister کی ملاقات تھی اور ڈرون اٹیکس کے جاری رہنے پر اتفاق کیا تھا اور آپ نے دیکھا کہ گورنمنٹ آف پاکستان کے بقول نام نہاد مذاکرات کے عمل کے شروع ہوتے ہی یہ اللہ بہتر جانے کہ شروع ہوا تھا، نہیں ہوا تھا، شروع ہونے والا تھا، نہیں ہونے والا تھا مگر گورنمنٹ کے بقول ڈرون اٹیک ہوا اور حکیم اللہ محسود مارا گیا، تو میری statement کو تو شہادت میسر آئی اور پھر امریکہ کے وائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے آفیسرز کا statement آیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ہم سے کوئی باضابطہ احتجاج بھی نہیں کیا۔ آپ تو میڈیا کے لوگ ہیں یہ چیزیں تو میڈیا پر آ گئی ہیں، CNN پر امریکہ کے statement آ رہے ہیں، عوام کو اس لیے معلوم نہیں کہ عوام چونکہ امریکن چینلز کو سنتے نہیں، ان کے پاس دستیاب نہیں مگر میڈیا پرسنز کو تو علم ہے اور پاکستانی چینل میں بھی یہ دکھائے گئے کہ ہم سے باضابطہ احتجاج بھی نہیں کیا، یہ احتجاج صرف دکھلاوے کے لیے پارلیمنٹ کے فلور پر ہو رہا ہے، شور شرابہ کیا جا رہا ہے اور ساری پارٹیز مل کے ایک ہنگامہ کھڑا کر کے دراصل اُس continuing پالیسی پر جس پر یہ چلنا چاہتے ہیں، اس کے اوپر ایک نئی فضا کریٹ کر کے لوگوں کے ذہنوں کو دوسری سمت متوجہ کرنا چاہتے ہیں، اپنے آپ کو سچا بنانے کے لیے، اپنی مجبوریاں دکھانے کے لیے۔
یہاں پر میں ایک بڑا اہم سوال کرتا ہوں اور میں نے بتایا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے بھی ختم ہو جائیں گے، رہا ہو جائیں گے اور actually اس statement میں طے ہوا تھا کہ پندرہ دن کے اندر with in two weeks۔ 22 اکتوبر کو طے ہوا تھا اور 7 نومبر کو ان کے تمام مقدمات میں ان کی ضمانتیں ہو گئیں اور آج وہ رہا ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کیوں رہا ہوئے، ہمیں خوشی ہے ان کے خلاف اگر کوئی مقدمہ کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا جا سکا تو قانونی استحقاق ہے ان کا، مگر یہ چیز 15 دن کے اندر جان کیری کے ساتھ طے شدہ ایگریمنٹ کے مطابق ہوئی ہے۔ اور میں یہاں یہ بات بھی بتا دوں ڈاکٹر دانش صاحب یہ حکومت پاکستان نے اپنی پارٹی اور بعض وہ پارٹیز جو جنرل پرویز مشرف کے خلاف بہت شور مچاتی ہیں ان کے پاس خفیہ وفد بھی بھیجا تھا ان کے چک شہزاد کے فارم ہاؤس میں کہ آپ ٹکٹ لیں اور چلے جائیے ملک سے باہر، ہم کچھ نہیں کرتے، انہوں نے refuse کر دیا اس وقت باہر جانے سے، یہ سب کچھ خفیہ ہوتا ہے قوم کو کچھ اور بتایا جاتا ہے، در پردہ رات کے اندھیروں میں اور بڑی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں کچھ اور settle ہوتا ہے۔ جب تک ہماری زندگی سے یہ جھوٹ، دجل، فریب اور منافقت ختم نہیں ہوتی اور ہم نے چہروں پر جو کئی چہرے سجا رکھے ہیں ان کے خول جب تک اتارے نہیں جاتے اس وقت تک ملک اس بحران سے نہیں نکلے گا۔ اور یہاں پر ایک اور بڑی important بات آپ کے ذریعے کہنا چاہتا ہوں کہ میری اس پوری بات کی شہادتیں تو آ گئیں اور آ رہی ہیں بقیہ باتیں بھی ثابت ہو جائیں گی مگر یہاں ایک خاص نکتہ وہ یہ کہ واشنگٹن ڈی سی سے دورہ کر کے واپس آنے کے بعد، سے لے کر آج دن تک، even پاکستان کی پارلیمنٹ میں آنے کے بعد Prime Minister آف پاکستان نے ایک statement اگر دیا ہو تو مجھے دکھا دیں، آپ On Air کر دیں، ایک statement نہیں دیا، اپنی زبان سے نہیں کہا کہ ہاں میں نے ڈرون اٹیکس بند کرنے کے لیے پریزیڈنٹ اوباما سے بات کی ہے، میں نے کیس لڑا ہے ڈرون اٹیکس نقصان دہ ہیں بند کیے جائیں۔ US پریزیڈنٹ اوباما سے میں نے بات کی ہے، وہ اپنی زبان سے خود نہیں کہہ رہے، میں بڑا اہم نکتہ قوم کو بتا رہا ہوں اور ان پارٹیز کو بتا رہا ہوں جو کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے بھائی دھوکہ کس نے کیا ہے؟ امریکہ نے کیا ہے یا آپ کا اپنا وزیراعظم کر رہا ہے، دھوکہ US گورنمنٹ کر رہی ہے یا آپ کی اپنی گورنمنٹ کر رہی ہے یا آپ سارے مل کر قوم کے ساتھ دھوکہ کر رہے ہیں۔ میری statement کے بعد، میں چیلنج کر رہا ہوں آج بیس دن ہونے کو ہیں یا پندرہ سے زائد دن، وزیراعظم نے خود اپنی زبان سے ایک بار نہیں کہا کہ میں نے پریزیڈنٹ اوباما سے ڈرون اٹیکس بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے، بھلے اگلی بات ہے انہوں نے مانی ہے یا نہیں مانی، ساتھ وہ بتا دیں کہ disagree کیا، میری بات نہیں مانی مگر وہ تو یہ بھی نہیں کہہ رہے کہ میں نے بات کی ہے۔ یہ اوپر والے شور مچا رہے ہیں اردگرد تنخواہ دار ملازم لوگ کہ ہماری بات نہیں مانی گئی، بھائی تمہاری کونسی بات نہیں مانی گئی تم نے تو بات کی ہی نہیں ہے اور میں نے آپ کو یہ ثبوت بھی دیا تھا یہ دوسرا ثبوت دے دیا ہے کہ Prime Minister کے بند ہونٹ ان کا منہ بند ہے جب خود نہیں کہہ رہے کہ میں نے پریزیڈنٹ اوباما سے بات کی ہے، ڈرون اٹیکس کے بند کرنے کی، تو یہاں شور کس بات کا، ہنگامہ کس بات کا، پھر اے پی سی کس بات کی، مطالبات کس بات کے، فلاں حکومت نے دھوکہ کر دیا ہمارے مذاکرات کے، پرامن مذاکرات پر ڈرون اٹیک کر دیا، بھائی یہ سارا تماشا کیوں ہے، گورنمنٹ کے گریبان پر عوام کا ہاتھ جانا ہے جو اس ملک میں امن دیکھنا چاہتے ہیں، جو اس ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم نہیں دیکھنا چاہتے، جو اس ملک میں انسانی لاشوں کا سودا نہیں دیکھنا چاہتے، جو اس ملک میں لوگوں کی جان و مال کا تحفظ دیکھنا چاہتے ہیں، ان کا اور ان کی پارٹیز کا اور ان کے لیڈرز کا جو مذاکرات کے حق میں ہیں، بھائی وہ گریبان کیوں نہیں پکڑتے اور انہیں کیوں یہ نہیں کہتے کہ آپ نے زبان کیوں سی لی ہے، ہونٹ کیوں بند ہیں، categorically بتاؤ کہ پریزیڈنٹ اوباما سے بات کی ہے یا نہیں کی، just it's a matter of yes or no۔ خود وہ کہہ نہیں رہے، چپ ہیں 'مدعی سست گواہ چست'۔ یہ میرا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے اور پھر میں نے ڈاکٹر دانش صاحب آپ کے سامنے وائٹ ہاؤس کا آفیشل statement بتا دیا ہے۔
Joint Statement by President Obama and Prime Minister Nawaz Sharif
[The White House Office of the Press Secretary - October 23, 2013]
میں نے آپ کو ویب سائٹ [http://www.whitehouse.gov] بتا دی ہے، open secret ہے۔ پوری دنیا کے سامنے انہوں نے ننگا کر دیا ہے وزیراعظم پاکستان کو اور یہ اس کی کاپی ہے۔
یہ statement آفیشلی طور پر دونوں طرف سے متفقہ طور پر جاری ہوا ہے، سات صفحے کا statement ہے اور میں آپ کو دکھا رہا ہوں اور آپ پوری قوم کو سکرین پر دکھائیے۔ میں نے ویب سائٹ بتا دی ہے اور گھر میں بیٹھا ہوا ہر میرا بیٹا اس قوم کا، بیٹی، جوان پڑھا لکھا آج کمپیوٹر On کر کے اس ویب سائٹ سے statement نکالے اور کل ہر ایک کے ہاتھ میں statement ہونا چاہیے، ان کو ننگا کر دو جو ڈرامہ کرتے ہیں پاکستان کی سرزمین پر آ کر، پارلیمان کی کی پارلیمنٹ میں آ کر اور پولیٹیکل پارٹیز مل کر ایک تماشا کرتی ہیں، ان سب کے چہرے سے فراڈ کر پردہ اٹھا دیں کہ یہ statement ہے اس میں ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا ڈرون اٹیکس سے متعلق یا طالبان سے متعلق یا طالبان سے مذاکرات سے متعلق۔ ہر ایشو کو ڈسکس کیا گیا ہے، اس statement میں ڈیموکریٹک ویلیوز کو شیئر کرنا ڈسکس کیا ہے، enduring partnership ڈسکس کی ہے، اکنامک گروتھ ڈسکس کی ہے، انرجی و سوشل سیکٹر کوآپریشن ڈسکس کی ہے، اس میں ڈیفنس کوآپریشن ڈسکس کی ہے، انہیں شاباش دی ہے وزیراعظم صاحب نے اوباما صاحب اور امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے، اظہار اطمینان کیا ہے کہ ہمارے ساتھ آپ بڑی شفقت مہربانی کر رہے ہیں شکریہ ادا کرنے آیا ہوں، کاونٹر ٹیررازم پر بات کی ہے، جب کاونٹر ٹیررازم پر بات ہو رہی تھی تو سب سے پہلا نکتہ یہ ہونا چاہیے تھا ڈرون اٹیکس بند کریں چونکہ اس سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو مزید لوگوں کو endorse کرنے کا موقع مل رہا ہے یا کہتے کہ ہمارے پیس پراسیس کو نقصان ہو رہا ہے جو آپ کا نکتہ نظر ہے میں اپنی بات نہیں کر رہا ہوں، تو کاونٹر ٹیررازم کا پورا پیرا گراف ہے اس میں نہ طالبان کا ذکر، نہ ڈرون اٹیکس کا ذکر، نہ مذاکرات کا ذکر، میں آپ کو counter terrorism کی کی ہیڈنگ پڑھ کر بتا رہا ہوں۔ پھر اس کے بعد نیوکلیر سیکیورٹی کی بات کی ہے، ریجنل کوآپریشن کی بات کی ہے، conclusion ہو گیا ہے یہ statement ہے مجھے تعجب ہے اسمبلی کے فلور پر ڈسکشن ہو رہی ہیں کوئی شخص نہیں رہا گورنمنٹ کی صفوں میں، اپوزیشن کی صفوں میں ایون پی ٹی آئی عمران خان صاحب کو میں بار بار متوجہ کر رہا ہوں آپ کا حق ہے سب سے پہلے مذاکرات کی بات آپ نے شروع کی تھی، آپ کا حق ہے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر اٹھیں، گریبان پکڑیں مرد جوان بنیں، ڈرنے کی ضرورت نہیں، قوم حق کا ساتھ دیتی ہے، کیوں نہیں پوچھتے ان سے کہ Prime Minister صاحب یہ مشترکہ statement وائٹ ہاؤس کا تو بتا رہا ہے کہ ڈرون اٹیکس کی بات ہی نہیں کی آپ نے وہاں جا کر، مذاکرات کی بات ہی نہیں کی۔ اے پی سی کی بات ہی نہیں کی جو آپ نے کرنی تھی۔ ہمیں کس تماشے اور فراڈ میں ڈال رکھا ہے۔ افسوس نہ گورنمنٹ کی صفوں میں، نہ اپوزیشن کی صفوں میں، نہ امن کی بات کرنے والوں کی صفوں میں، نہ ایکشن لینے کی بات کرنے والوں صفوں میں، ایک زبان میں جرات نظر نہیں آتی، یہ اونچے اونچے قد کے لوگ! ان کی مردانگی کہاں گئی ہے، ڈرتے کس بات سے ہیں وجہ یہ ہے جو روز اول میں نے کہا تھا یہ نظام تباہ کر دے گا جو شخص اس کا حصہ بنے گا۔
ڈاکٹر دانش : آج بھی ہمیں ڈاکٹر صاحب ساری سیاسی جماعتیں اور حکومت ایک ساتھ نظر آتی ہیں جب ان کے مفادات کو ذک پہنچتی ہے یعنی بلدیاتی انتخابات کی بات آئی تو حکومت اور اپوزیشن سب نے مل کر ایک قرار داد لے آئے اور جب بات آتی ہے قومی معاملات کی، عوامی معاملات کی تو پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی پارلیمنٹ جو ہے وہ بٹی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب! ذاتی مفادات نظر آتے ہیں تو اپوزیشن کیا، حکومت کیا سب ایک ساتھ پارلیمنٹ میں نظر آ رہے ہیں، قرارداد آ رہی ہے، ملکی مفادات کا اتنا بڑا ایشو ہے، طالبان کا مسئلہ جس کی نشاندہی آپ نے کی ہے اور ڈرون اٹیکس ہے اور نیٹو سپلائی کا مسئلہ ہے اور سب سے بڑھ کر ان تمام چیزوں سے بڑھ کر عوامی مسائل کا مسئلہ ہے پیاز، ٹماٹر بڑی چھوٹی چھوٹی چیزیں میں لسٹ دے دوں وہ تباہی کے مسائل کی طرف ہیں۔ اس پر حکومت اور اپوزیشن اتنی بٹی ہوئی ہے حکومت کے اندر بھی بٹے ہوئے ہیں even کہ امریکہ سے رائے یعنی اگلا جو ان کا relation ہے ریویو کرنے کے لیے چودھری نثار نے جو پانچ اہم پوائنٹس دیئے ہیں اس پر پارٹی بٹ گئی ہے تو قومی ایشوز پہ یہ ساتھ نہیں کھڑے ہو رہے کیا کہیں گے آپ۔
ڈاکٹر طاہرالقادری: یہ ایک لفظ ڈاکٹر دانش صاحب آپ سنتے ہونگے پاکستان میں استعمال ہوتا ہے ٹوپی ڈرامہ۔ یہ پاکستان کی ساری سیاست ٹوپی ڈرامہ ہے لوگوں کو بیوقوف بنانے کا ایک تماشہ ہے، ایک کھیل ہے، یہ ایک میلہ ہے، لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے، لوٹا جاتا ہے انتخابات کے نام پر، جمہوریت کے نام پر، آئین کے نام پر، اصولوں کے نام پر۔ آپ کی بات کو میں آگے بڑھا رہا ہوں تعریف کرتے ہوئے بالکل سوفیصد صحیح کہا آپ نے۔ آپ خود اندازہ کریں کہ ایک طرف پچھلے دو تین دن سے جو پارلیمنٹ کا ہاؤس ہے سینٹ اس سے باہر گراونڈ میں اپوزیشن جماعتیں گراونڈ میں اجلاس لگا کے بیٹھی ہیں اور ہر روز آپ ہی کے ٹی وی چینل ان کی تقریریں سنا رہے ہیں یعنی پارلیمنٹ کے اندر نہیں جا رہے سینٹ میں۔ ایک طرف وہ سینٹ میں داخلہ نہیں کر رہے اپنا اور باہر گراونڈ میں احتجاج کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بلدیاتی انتخابات جنہیں پہلے ہی پانچ سال گزر چکے ہیں اور آئین کی دھجیاں اڑ چکی ہیں، آئین پاکستان کی دھجیاں اڑ چکی ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے آرڈر کے بخیے ادھیڑ دیئے ہیں، بار بار کہہ کر سپریم کورٹ کا یہ آرڈر کہ کروائے جائیں کروائے جائیں کروائے جائیں، پھر التوا کے لیے درخواست دی ہے، ان بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے وہ پارلیمنٹ کے اندر سارے اکٹھے ہو جاتے ہیں تو یہ اندر بھی ہیں اور یہ باہر بھی ہیں۔ باہر ایک نیا اجلاس بنایا ہوا ہے، تقریریں ہو رہی اور جہاں ان کے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کا معاملہ ہوتا ہے اس مقصد کے لیے جو میں نے 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان کی تقریر میں استعمال کیا تھا "مک مکا" کوئی اپوزیشن نہیں اس دور میں، جب مک مکا کا معاملہ آتا ہے تو ایک ہی متفقہ قرار داد پاس ہو جاتی ہے، اس وقت پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور باہر کیوں بیٹھے ہیں اب ذرا سوچئے گراونڈ میں، احتجاج کر کے باہر نکلے ہوئے ہیں کس مسئلے پر کہ وزیرداخلہ نے ہمیں اعداد و شمار غلط بتائے ہیں، خدا کے بندو آسمان گر گیا ہے زمین پر، اعداد و شمار غلط آج بتائے ہیں اس ملک کو تو دس سال ہو گئے ہیں غلط اعداد و شمار بتاتے، ہر گورنمنٹ غلط بتاتی ہے جب پیپلز پارٹی تھی پانچ سال غلط اعداد و شمار بتائے جاتے رہے، یہ بھی بتائیں گے۔ اس سے پہلے بھی غلط بتائے جاتے رہے۔ بھائی یہ تو قوم کو بولا ہی جھوٹ جاتا ہے، سچے اعداد و شمار تو بتائے ہی نہیں جاتے۔ اب اعداد و شمار غلط بتائے ہیں خیبر پختونخواہ اور مختلف casualty اور مختلف معاملات میں، اس کے لیے پارلیمنٹ سے باہر نکل آئے ہیں۔ ارے بجلی نہیں مل رہی اس کے لیے باہر نکل رہے ہوتے، لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، عزت و مال محفوظ نہیں ہیں، عزتیں لٹ رہی ہیں اس کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر نکلے ہوتے، خود کشیاں ہو رہی ہیں اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، اندھیر نگری ہے، رشوت کا بازار گرم ہے اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، کوئی شخص محفوظ نہیں اغوا سے، ہر شخص اغوا برائے تاوان کے خطرے میں ہے اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، ایک لوٹ مار کر بازار گرم ہے، مہنگائی عروج پر ہے اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، پاکستان روپے کی قیمت ابھی کل اس چار مہینے میں دو تین مرتبہ بڑھتے بڑھتے پھر ایک سو نو روپے کے قریب قریب ڈالر کی پرائس چلی گئی ہے، اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، گردشی قرضے کل ہی 156 بلین جا پہنچے ہیں اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، اس قوم کو تعلیم اور صحت اور علاج معالجہ نہیں مل رہا اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، ہاسپیٹل میں ایک گولی نہیں مل رہی اس کے لیے باہر نکلے ہوتے، ارے اگر تم اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریبوں کے لیے، جوانوں کے لیے، بیٹوں کے لیے، بیٹیوں کے لیے، اگلی نسلوں کے لیے، ان کی بیروزگاری کے لیے، ان کے علاج کے لیے، ان کی تعلیم کے لیے، ان کی عزت و آبرو کے لیے، ان کی جان و مال کے لیے، ملک کی ترقی کے لیے باہر نکلے ہوتے تو تمہارا باہر نکلنا قابل ستائش ہوتا اور گراونڈ میں کیا بیٹھتے باہر سڑکوں پر نکلتے، اگر پارلیمنٹ ڈلیور نہیں کر سکتی تو پھر سڑکوں پر لوگ نکلیں گے ان شاء اللہ، لانگ مارچ کی طرح اور لوگ ڈلیور کروائیں گے ان کو ہٹا کر ظلم، دھاندلی، نالائقی، جہالت، کرپشن اور لوٹ مار کے بازار کو ختم کر کے عدل و انصاف اور حقیقی جمہوریت کا نظام لانے کے لیے لوگ نکلیں گے، تو ان کا عالم یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کے لیے ایک ہو گئے تو ایک یہ جب چاہتے ہیں اپنے مفاد کا معاملہ آتا ہے ایک ہوتے ہیں اور پھر بٹ جاتے ہیں دکھانے کے لیے، اپوزیشن کا رول پلے کرنے کے لیے۔
ڈاکٹر دانش: ڈاکٹر صاحب یہاں پر میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک بات ضرور پوچھنا چاہوں گا الیکشن ہوا، الیکشن کمیشن بنا، پارٹیوں نے اس کے اوپر اعتراض کیا۔ کچھ پارٹیاں تو ایسی ہے جو اسے illegal کہتے ہیں آپ بھی illegal کہتے تھے، آپ کا stand ابھی بھی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس الیکشن کمیشن کی نیچے الیکشن لڑا اور اس سے پہلے کہا کہ دھاندلی ہو گی لیکن روکیں گے، اور اس کے بعد جب دھاندلی ہو گئی تو بقول آپ کے یہ صرف پریس کانفرنس کرتے رہیں گے، وہ ہو گیا پریس کانفرنس۔ آج بھی دھاندلی دھاندلی اور جیتی ہوئی پارٹی بھی اور ہاری ہوئی پارٹی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اس جنرل الیکشن میں اتنی دھاندلی ہوئی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے کہا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی اندھی دھاندلی ہوئی ہے۔ اب بلدیاتی الیشکن اسی الیکشن کمیشن کے نیچے ہو رہا ہے دھاندلی بھی کہی جا رہی ہے، الیکشن کمیش کو illegal کہا جارہا ہے اور الیکشن بھی لڑا جا رہا ہے کیا کہیں گے۔
ڈاکٹر دانش صاحب ابھی تو ملتوی کروا رہے ہیں اس لیے کہ مرضی کے مطابق ان کے نتائج برآمد کروانے کے انتظامات اور mechanism تیار نہیں ہوا تھا، جمہوریت کے لیے ملتوی نہیں ہو رہے اگر گراس روٹ لیول تک اختیارات کو منتقل کرنا ہوتا تو ایک مہینے میں الیکشن کروا دیئے جاتے۔ آئین پاکستان کے تقاضے پر اور بلدیاتی حکومتوں کے ملکی قانون کے تقاضے کے تحت اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے آرڈر کے تحت کروا دیے جاتے مگر یہ اختیارات منتقل نہیں کرنا چاہتے، پیسے وسائل جو صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں اور اتنے وسائل ہیں کہ قانون اگر ایک لاکھ قانون آج کے دور میں ہوتے تو ان کے سامنے گردن جھکا دیتے، خزانہ کھلا ہے ان وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کے پاس وزرائے اعلیٰ کے پاس، وہ چاہتے نہیں ہیں کہ پیسہ نیچے جائے، ڈویژنز میں جائے، اضلاع میں جائے، تحصیلوں میں جائے، یونین کونسلز میں جائے، موت آتی ہے جب یہ سوچتے ہیں، تصور کرتے ہیں کہ ہائے یہ پیسہ نیچے چلا جائے، ہمارے ہاتھ سے نکل جائے، وہ مر جائیں گے اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیں گے، اختیارات نہیں چاہتے کہ وہ نیچے منتقل ہوں decentralisation نہیں چاہتے، devolution of power نہیں چاہتے، devolution of authority نہیں چاہتے، devolution of finances نہیں چاہتے، devolution of economic growth نہیں چاہتے، devolution of prosperity نہیں چاہتے، devolution of investment نہیں چاہتے، الغرض devolution of resources نہیں چاہتے، اول تو یہ defer کریں گے جتنا کر سکے، اب آپ کی یہ بات کہ اسی الیکشن کمیشن کے نیچے کروائیں گے جب کروانا پڑ گیا، کروائیں گے کب جب mechanism تیار ہو جائے گا دھاندلی کا۔ جب بلدیاتی الیکشن جیتنے کے سارے انتظامات مکمل ہو جائیں گے، دھن، دھونس، دھاندلی، اونچے درجے کی بے ایمانی، اپنی حکومتیں نیچے بھی قائم کرنے اور اپنے ہی لوگوں کو جو رہ گئے ہیں، جو قومی اسمبلی میں نہیں آ سکے، صوبائی میں نہیں آ سکے اور ان کے ورکر ہیں، ان کے تابع ہیں اور ان کے ملازم ہیں، غلام ہیں، ان کی وجہ سے دوسروں کو گالی گلوچ دینے والے ان کے وفادار ہیں جب انہیں accomodate کرنے کا mechanism تیار ہو جائے گا سب کا، سب پارٹیز کا پھر یہ کروائیں گے۔ اب آپ کا سوال کروائیں گے اسی الیکشن کمیشن کے تحت یہ بھی سن لیں، وہ شور شرابہ تھا کہ دھاندلی ہے، اس الیکشن کمیشن کو نہیں مانتے، چیلنج، یہ شور بھی رہے گا اور اسی الیکشن کمیشن کو مانتے بھی رہیں گے اور اسی کی تحت اگلا الیکشن بھی کروائیں گے بلدیاتی الیکشن، اب سوال پیدا ہوتا ہے کیوں کروائیں گے؟ اس لیے کہ سب کی پانچوں گھی میں ہیں، سب پارٹیز کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں، اس لیے کروائیں گے کہ ایک حکومت جو وفاق پر ہے، اس کی حکومت پنجاب میں بھی ہے اور وہی بلوچستان میں بھی ہے لہذا صوبائی حکومتوں کے تحت بلدیاتی الیکشنز کو ہونا ہے لہذا ان کا interest ہونا ہے پنجاب، بلوچستان وہ mechanism کے ذریعے اس کو گرفت میں لے لیں گے تو دونوں صوبوں کو جیت لیں گے وہ، کسی کی جرات نہیں کہ مچھر کا پر بھی ہل سکے، مچھر کا اڑنا تو دور کی بات ہے، اس کا پر بھی ہل سکے۔ اور تھوڑا تھوڑا اثر و رسوخ باقی دوستوں کو بھی پہنچا لیں گے۔ وہ یہ mechanism تیار کر رہے ہیں تو پانچوں گھی میں ہو گئیں نا۔ اب اس کے بعد ایک پارٹی سندھ میں پاور میں ہے، وہ mechanism تیار کرنا چاہتی ہے تاکہ جب بلدیاتی انتخابات سندھ میں ہوں تو سندھ بھی سارا اسی پارٹی کے کنٹرول میں آجائے تاکہ اوپر بھی وہی ہوں اور باٹم میں بھی وہی ہوں یونین کونسل پر تو ان کا بھی سارا معاملہ سنور جائے گا تب وہ مان جائیں گے کہ اب کروا لیں۔ ایک پارٹی کی حکومت KPK میں ہے تو KPK میں بھی mechanism تیار ہو جائے گا، بھائی باقی جب تین صوبوں میں ایک علاج ہو رہا ہے تو KPK والوں نے کوئی جرم کیا ہے۔ وہ وہی انجکشن نہ لگائیں، وہ وہی ٹریٹمنٹ نہ کریں، جب پنجاب میں بھی وہ کام ہو رہا ہے، بلوچستان میں میں بھی ہو رہا ہے، سندھ میں بھی ہو رہا ہے تو KPK کی حکومت کیوں نہ کرے۔ تو چونکہ حکومتیں تقسیم کر دی گئی ہیں اس الیکشن میں ہر ایک کو حصہ دیا گیا ہے اور ہر ایک کو صوبہ ایک ایک دے دیا گیا ہے۔ ایک کو وفاقی حکومت اور دو صوبے پنجاب اور بلوچستان، ایک کو سندھ کا صوبہ، ایک کو کے پی کے کا صوبہ۔ چونکہ صوبے بانٹ دیئے ہیں لہذا سب کا گھر بھر دیا جائے گا، اس وجہ سے جب ٹائم آئے گا اسی الیکشن کمیشن کو تقسیم کریں گے مانیں گے لہذا ڈاکٹر ڈانش صاحب یہ انتخابات بلدیاتی ہوں، یا صوبائی ہوں، یا وفاقی اور قومی، یہ اس ملک کا حل نہیں ہیں، یہ الیکشن کمیشن اس ملک کا حل نہیں ہے، کرپٹ، illegal اور unconstitutional یہ حل نہیں ہے۔ حل اس پورے نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہے اور ایک نیا نظام دینا ہے جو 35 صوبوں پر مشتمل ہو پاکستان کے 35 صوبے ہوں، ہر ڈویژن کو ایک صوبہ بنایا جائے اور یہ صوبوں کے اختیارات اور ان کے مالی وسائل جو ایک آدمی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں پورے پنجاب کے وسائل، ملک کے 65 فیصد آبادی کے وسائل ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، وہ تقسیم کر کے پنجاب میں 9 ڈویژن میں تقسیم کیے جائیں، بولیے! مر جائیں گے ایک ہاتھ میں رکھنے والا، ایک گروہ کیسے مانے گا کہ 9 صوبوں میں تقسیم ہو جائیں اور 9 ڈویژن میں صوبے بنیں۔ ہر ڈویژن ایک صوبہ اور صوبے میں کوئی وزیر اعلی اور کیبنٹ نہیں چاہیے کہ غریب عوام کے وسائل کا خون چوس چوس کر خاتمہ کر دیں صرف ایک گورنر ہو جو کوآرڈینیٹر ہو اور گورنر کا خرچہ صوبے کا، صرف اتنا ہو جو آج ڈویژن پر کمشنر کا ہوتا ہے۔ not more than a commissioner اور اس سے زیادہ کوئی ریل پیل پیسے کی نہیں چاہیے، Just has to coordinate اور اصل اختیارات ضلعی حکومتوں میں جائیں، پھر نیچے تحصیلی حکومتوں میں جائی،ں پھر نیچے یونین کونسل کی حکومتوں میں جائیں تاکہ چھوٹے چھوٹے محلے، گلی کوچوں میں رہنے والے لوگ گھر سے اٹھیں اپنی یونین کونسل کی گورنمنٹ کے پاس جا کے مسائل حل کر سکیں۔ وہیں ان کو ہاسپیٹل بھی ملے، وہیں سکولز بھی ملیں، وہیں چھوٹی عدالتیں ملیں، ضلعے میں ان کو بڑی عدالتیں ملیں اور ہر ہائی کورٹ ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر پر چلی جائے، فیصل آباد میں ہائی کورٹ ہو، سرگودھا میں ہائی کورٹ ہو، ملتان میں ہائی کورٹ ہو، بہاولپور میں ہائی کورٹ ہو، ڈی آئی خان میں ہائی کورٹ ہو، گوجرانوالہ میں ہائی کورٹ ہو، راولپنڈی میں ہائی کورٹ ہو، سکھر میں ہائی کورٹ ہو، حیدرآباد میں ہائی کورٹ ہو، سبی میں ہائی کورٹ ہو، الغرض ہر ڈویژن پر 35 ہائی کورٹ بنیں، کسی شخص کو دور روجھان اور گھوٹکی اور راجن پور، اور صادق آباد اور دور دراز کے اندرون بلوچستان سے چل کر کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ نہ جانا پڑے۔ غریب کے پاس کھانے کا لقمہ نہیں ہے، اس کو عدل و انصاف لیتے لیتے تین نسلیں گزر جاتی ہیں۔
ڈاکٹر دانش: ڈاکٹر صاحب ایک سوال آپ کے ساتھ کرتا ہوا چلوں گا یہ سوال بہت important ہے ڈاکٹر صاحب، میں چاہوں گا اس کا جواب دیجئے اور وہ سوال یہ ہے کہ چند اہم مذہبی سیاست دان یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں انقلاب لانا چاہتے ہیں لیکن کیونکہ وہ اور ان کا تعلق ایک مسلک سے ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا تعلق گویا ایک مسلک سے ہے اس لئے وہ پاکستان میں انقلاب نہیں لا سکتے ہیں، اس کے اوپر میں آپ سے بات کروں گا کہ ان کے اس statement آپ کیسے دیکھتے ہیں اور یہ بہت اہم سوال ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری بہترین طریقے سے اس کو بتا سکتے ہیں کہ آیا یہ بات کس حد تک صحیح ہے اور کس حد تک غلط ہے؟
ڈاکٹر طاہرالقادری: جی ڈاکٹر دانش صاحب مجھے معلوم ہے یہ باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے اس ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی ہے اور بڑھاتے بڑھاتے ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جا کر دھکیل دیا ہے جو خود مسلک پرست اور فرقہ پرست ہیں، جو امت مسلمہ کی وحدت پر اور پاکستان کی وحدت پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسی بات کہنا اس ملک میں فتنہ پروری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ انتہائی بے ہودہ اور جاہلانہ بات ہے کہ فلاں کا ایک مسلک ہے کوئی شخص اس پورے ملک میں ایسا بھی جس کے بیک وقت تین مسلک ہوں؟ کوئی ہے جو بیک وقت سنی بھی ہو اور شیعہ بھی ہو؟ جو بیک وقت اہلسنت، اہل تشیع بھی ہو اور اہلحدیث بھی ہو؟ کوئی ہے جس کے دو مسلک ہوتے ہوں؟ بھائی ایک فقہی مذہب بھی ہوتا ہ،ے ایک مسلک بھی ہوتا ہے جو دین اسلام کی چھوٹے معاملات میں تعبیر و تشریح سے عبارت ہے۔ اور یہ جو مسلک ہے پاکستان مسلکوں کے لئے نہیں بنا۔ پاکستان بنانے والے کا بھی ایک مسلک تھا۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ان کی سوانح حیات کی جو کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، پاکستان کی لکھی ہوئی یا western world, America میں کہیں دنیا میں وہ by birth اسماعیلی عقیدے کے تھے اور بعد ازاں اثنا عشریہ شیعہ مسلک کے تھے۔ لیکن کیا قائد اعظم کے شیعہ مسلک نے قیام پاکستان میں کوئی دخل دیا؟ وہ پورے متحدہ ہند کی مسلم قوم کے سربراہ تھے، لیڈر تھے، نمائندہ تھے اور پاکستان بنا تو کیا وہ شیعہ مسلک کے لئے بنا۔ ہر سنی اور شیعہ، ہر مسلم اور غیر مسلم نے قائد اعظم کی قیادت کو مانا اور ان کے نتیجے میں پاکستان کا تحفہ ملا تو مسلک کہاں گیا؟ مسلک ایک personal matter ہوتا ہے۔ پاکستان مسلکوں کے لئے نہیں بنا، مسالک تو دور کی بات ہے سارے مذاہب کا بھی یہ ملک ہے۔ مسلمان، ہندو، سکھ اور Christians کا بھی یہ ملک ہے۔ پاکستان سعودی عرب نہیں ہے کہ یہاں ایک مسلک کی حکومت ہو گی، نہ پاکستان ایران ہے کہ ایک مسلک کی حکومت ہو گی۔ پاکستان Islamic Republic of Pakistan ہے۔ اس میں ہر مسلک اور ہر مذہب کی حیثیت برابر ہے۔ یہ بات کرنا اس ملک کو بہت بڑے فتنے کی آگ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ مسلک کی آپ بات کرتے ہیں۔ میرا مسلک ہے، میں اہلسنت والجماعت ہوں۔ مگر میرے مسلک میں اہلسنت والجماعت ہو کر میں دوسرے مسالک کو کافر نہیں کہتا اور نہ کافر سمجھتا ہوں۔ جن لوگوں نے یہ فتنہ چلایا ہے ان کے اور میرے مسلک میں فرق یہ ہے کہ وہ دوسرے مسلک والوں کو یا کافر کہتے ہیں یا سیاسی اعتبار سے زبان سے نہیں کہتے تو دل سے سمجھتے ہیں۔ میں کسی کو کافر نہ کہتا ہوں نہ سمجھتا ہوں۔ میں مسلم اور غیر مسلم سب قومیتوں کو یکجا پاکستان کا وارث سمجھتا ہوں، یہ میرا مسلک ہے اور میرا مسلک وہی ہے جو علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کا تھا۔ یہ سن لیجئے! علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال ان کی کتاب ہے اپنی "زندہ رود" علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل سوانح حیات اور وہ لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ میرے والد بچپن سے سلسلہ قادریہ میں بیعت کئے ہوئے تھے۔ میں بھی قادرئ الطریقت ہوں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔ "مکاتیب اقبال رحمۃ اللہ علیہ" میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں، خود "مکاتیب اقبال رحمۃ اللہ علیہ" میں نیاز الدین خان کے نام اپنا مسلک بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت مبارک ہو، وہ لکھتے ہیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے علامہ اقبال کے لفظ، میرا یہ عقیدہ ہے یعنی مسلک ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت اور فیض سے اسی طرح مستفیض ہوتے ہیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں اس قسم کے عقائد کا اظہار بہت سے دماغوں کو ناگوار ہو گا اس لئے خاموش رہتا ہوں۔ تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک مسلک ہے، وہ اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات پہ جاتے، داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے لوح مزار پر لکھا ہوا قطعہ پڑھ کر دیکھئے، وہ ہمہ وقت اجمیر شریف جاتے، خواجہ نظام الدین اولیا جاتے، سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے مگر کیا علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مسلک ہونا ان کے پورے فکر کو متاثر کرتا ہے؟ وہ پورے برصغیر پاک وہند کے فکری رہنما تھے، فکری مجتہد تھے، فکری قائد تھے، جن کے فکر نے پاکستان کا خواب دیا۔ میں کہوں گا ذوالفقار علی بھٹو مسلکاً شیعہ تھے مگر Practically وہ سیکولر تھے، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، آپ کے جرنلز، آپ کے لیڈر کون ہے جس کا کوئی مسلک نہیں؟ آپ اگر نماز پڑھتے ہیں تو یا ہاتھ باندھ کے پڑھتے ہوں گے یا ہاتھ چھوڑ کے پڑھتے ہوں گے، کوئی تیسرا طریقہ تو کوئی نہیں کہ ایسے ایسے (رفع یدین کا اشارہ کرتے رہیں ایسے ایسے)، اگر ہاتھ باندھ کے پڑھتے ہیں تو تب بھی آپ کا ایک مسلک ہے، آپ سنی ہیں، اگر ہاتھ چھوڑ کے پڑھتے ہیں تو تب بھی آپ کا ایک مسلک ہے، آپ شیعہ ہیں۔ اگر آپ ہاتھ باندھ کے پڑھتے ہیں تو یا ناف پہ ہاتھ رکھتے ہوں گے، یا سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوں گے، اگر سینے پہ رکھ کے پڑھتے ہیں تو آپ اہلحدیث ہیں۔
تبصرہ