نام نہاد نجکاری کمیشن رات کے اندھیرے میں قومی اثاثے بیچ کر ڈاکہ زنی کرے گا
خریدار خبردار رہیں، عوام پر امن انقلاب کے بعد نجکاری کی تمام ڈیلیں منسوخ کر دیں گے
نجکاری کے خلاف نہیں ہوں، صرف شفافیت کی بات کرتاہوں
عوام گھروں میں بیٹھنے کی بجائے کرپشن اورلوٹ مار کے خلاف کراچی سے پشاور تک حقیقی تبدیلی کیلئے نکلیں
ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پر ہجوم پریس کانفرنس
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی بقا کے اعتبار سے اہم دور میں داخل ہو رہا ہے۔ حکمران نج کاری کی آڑ میں بڑے قومی اداروں کو در پردہ خرید رہے ہیں۔ 1991 میں ن لیگ کی پہلی حکومت نے 10منافع بخش قومی ادارے اپنے سیاسی حلیفوں، عزیزوں اور کاروباری شراکت داروں میں بانٹے تھے۔ اس کے بعد ن لیگ نے اپنے دوسرے دورے حکومت 1997سے 1999میں بھی 6اہم قومی اداروں کو نجکاری کے ذریعے اپنے سیاسی حلیفوں کو تحفہ میں دے دئیے۔ انہوں نے کہا کہ 1996 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں مسلم کمرشل بنک کے صدر حسین لغاری کی دیانت داری سے ملک کو آٹھ سو ارب روپے کا فائدہ ہوا جس کو 1997میں ن لیگ کی حکومت نے اسکی دیانت داری کی اتنی بڑی سزا دی کہ وہ محب وطن شخص ملک ہی چھوڑ گیا۔ مرکزی سیکرٹریٹ میں گذشتہ روز ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ نام نہاد نجکاری کمیشن رات کے اندھیرے میں قومی اثاثے بیچ کر ڈاکہ زنی کرے گا۔ قومی اثاثے قائداعظم اور 18کروڑ عوام کی امانت ہیں۔ ان کی چور بازاری اور ڈاکہ زنی کی گئی تو عوامی انقلاب جلد آ جائے گا۔ عوام پر امن انقلاب کے بعد نجکاری کی تمام ڈیلیں منسوخ کر دیں گے، خریدار خبردار رہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ چیئرمین نجکاری زبیر خان کی قابلت پر اعتراض نہیں بلکہ طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ زبیر خان کا پورا نام زبیر عمر ہے جو MNA اسد عمر کے بھائی ہیں۔ زبیر عمر مسلم لیگ ن کی کور کمیٹی کے اہم رکن ہیں۔ اس طرح حکمرانوں نے اپنے ایک خاص آدمی کو بورڈ کا چیئرمین بنایا ہے۔ نجکاری کمیشن کے ممبر عمر فاروق پنجاب کے امیر ترین صنعتکار ہیں جو مسلم لیگ ن کے فنانسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پارلیمنٹ اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کیوں خاموش ہیں۔ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ہمیشہ طاہر القادری نے ہی تنہا بے نقاب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منیر کمال بھی اسد عمر اور زبیر عمر کا بھائی ہے۔ جس کو نجکاری کمیشن کے ممبر کے عہدے سے ہٹا کر نیشنل بنک آف پاکستان کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے اور نیشنل بنک کے صدر کے عہدے کیلئے آئندہ امیدوار بھی یہی ہیں۔
انہوں نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری عارف سعید سابق وفاقی وزیر احمد مختار کے بھائی، ارسلا خان ہوتی مسلم لیگ ن مردان کے جنرل سیکرٹری جو آجکل پاکستان کو بیچنے کے ممبر اور نجکاری کمیشن کے ایک اور ممبر ظفر اقبال شوبانی وزیر اعظم کے قریبی دوست ہیں۔ اس طرح نجکاری کمیشن منشیوں کا ایک ٹولہ ہے، شفافیت انکی مہارت نہیں ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ بر طانیہ، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا اور ہندوستان میں بھی نجکاری ہوئی انکی نگرانی چوٹی کے سیاست دانوں نے کی۔ سیاست دان اثاثے بیچنے اور خریدنے میں شامل نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ 11مئی کے الیکشن کے بعد حکمرانوں نے ملک بیچ کر کھانے کا مینڈیٹ لے لیا ہے۔ انہوں نے نجکاری کے حوالے سے 15 نکاتی فارمولہ دیا جسکے مطابق اچھی شہرت کی حامل انٹرنیشنل فرمز سے نجکاری کروائی جائے۔ کمیشن کے تمام ممبرز ٹیکس ادا کرتے ہوں۔ ہائیکورٹ، سپریم کورٹ کے غیر متنازعہ اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ ججز پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔ بند کمرے میں خفیہ ٹریڈنگ کی بجائے اوپن پبلک ڈبیٹ ہونی چاہیے۔ منشاء گروپ جیسے لوگوں کی بجائے خریدنے والے کا بھی اس شعبے میں 10سالہ تجربہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس چور اور نادہندگان خریدنے والے نہ ہوں۔ قومی اثاثے وزیر اعظم کی ذاتی جائیداد نہیں جو رات کے اندھیرے میں بیچ دے۔ پارلیمنٹ میں ایکٹ بنایا جائے۔ بذریعہ ایکٹ آ ف پارلیمنٹ یہ معاملات طے ہونا چاہیے۔ طاہر القادری نے کہا کہ میڈیا اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حساس معاملے کواٹھائے۔ عوام گھروں میں بیٹھنے کی بجائے کرپشن، لوٹ مار اور بد امنی کے خلاف کراچی سے پشاور تک حقیقی تبدیلی کیلئے نکلیں۔ کسی ماں نے ایسا لال پیدا نہیں کیا جو مجھے پاکستان آنے سے روکے، ملک کے کونے کونے میں خود جاؤنگا۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کا مقصد صرف لوٹ مار اور کرپشن ہے وہ قوم کو امن و امان نہیں دے سکتے۔ مذاکرات عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہیں۔ دہشت گردی اور پرویز مشرف کے معاملے کو جان بوجھ کر ہوا دی جا رہی ہے تا کہ قوم کی توجہ بٹی رہے۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری کے خلاف نہیں ہوں، صرف شفافیت کی بات کرتاہوں۔ دیانتداری سے یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ کون سے اداروں کی نجکاری ضروری ہے اور کن کی نہیں۔
تبصرہ