بھارت میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی نے دنیا کے سیاسی و جمہوری نظاموں کو متاثر کیا ہے۔ بھارت میں جمہوریت ایک تسلسل کے ساتھ چل رہی ہے مگر یہ جمہوری تجربہ عوام کے مسائل حل نہیں کرسکا۔ جمہوریت کرپشن پر قابو نہیں پاسکی۔ ایک سماجی کارکن انا ہزارے نے کرپشن کے خلاف مثالی تحریک چلائی جس میں بھارت کے لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ عام آدمی پارٹی اس تحریک کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ انا ہزارے سیاسی جماعت بنانے کے خلاف تھے البتہ ان کے ایک قریبی ساتھی اروند کجریوال نے سیاسی جماعت بنانے کی ٹھان لی۔ نئی جماعت کا نام ’’عام آدمی پارٹی‘‘ رکھا۔ انتخابات میں چونکہ عام آدمی ووٹ کا حق زیادہ استعمال کرتا ہے اور بھارت کے عوام بڑی سیاسی جماعتوں سے تنگ آچکے تھے لہذا وہ نئی سیاسی جماعت کے انقلابی پروگرام اور عوامی انتخابی نشان ’’جھاڑو‘‘ سے بڑے متاثر ہوئے۔ عام آدمی پارٹی نے ایک سال کے اندر معجزہ کر دکھایا اور ریاستی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے دہلی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ بھارت میں چونکہ جاگیرداری، قبائلی پیری مریدی اور برادری ازم نہیں ہے اس لیے عوام اپنی جماعت کے پلیٹ فارم پر متحد ہوگئے۔ انتخابی سیاست میں سرمایہ دار بالادست افراد وقتی طور پر ہار بھی جائیں مگر وہ مقتدر رہتے ہیں اور چیلنج کرنے والی سیاسی قوتوں کو بے بس اور عاجز کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی صرف 49 دن اقتدار میں رہ سکی۔
دہلی ریاست کے وزیراعلیٰ نے ریاستی اسمبلی میں جان لوک پال بل پیش کیا جس کا مقصد کرپشن کا خاتمہ تھا۔ عام آدمی پارٹی کی اتحادی جماعت کانگرس نے تحریری وعدہ کیا کہ اس کے ارکان لوک پال بل کی حمایت کریں گے بقول آصف علی زرداری معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ دہلی اسمبلی میں جب بل پر رائے شماری کا وقت آیا تو بی جے پی اور کانگرس کے ارکان اس بل کی مخالفت میں متحد ہوگئے۔ عام آدمی پارٹی یہ بل منظور نہ کراسکی کیونکہ اس نے کانگرس کے آٹھ ارکان کے تعاون سے حکومت بنائی تھی عین موقع پر وہ فریب دے گئے۔ بھارت کی بڑی سیاسی جماعتیں کرپشن کے مسئلے پر متحد ہوگئیں یہ بھارت کی تاریخ کا پہلا اتحاد تھا۔ کجریوال کے مطابق کرپٹ سیاستدانوں کا اصل چہرہ سامنے آگیا۔ مکیش امبانی بھارت کا بڑا سرمایہ دار ہے جو بی جے پی اور کانگرس کو فنڈ دیتا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ مکیش نے ذاتی مفاد کی خاطر دولت کی چمک سے بڑی سیاسی جماعتوں کو عام آدمی پارٹی کے خلاف اکٹھا کردیا۔ کجریوال نے سوال اُٹھایا کہ بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی کی انتخابی مہم کے لیے کروڑوں روپے کا سرمایہ کہاں سے آرہا ہے۔ لوک پال بل مسترد ہونے کے بعد آئین کی رو سے کجریوال کو مستعفی ہونا پڑا۔ انہوں نے بھارت کے صدر کو مشورہ دیا کہ دہلی میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں مگر صدر نے دہلی میں صدارتی راج نافذ کردیا۔ عام آدمی پارٹی کے تجربے سے ثابت ہوا کہ جب تک انقلابی قوت سے سٹیٹس کو توڑنہ دیا جائے اور استحصالی قوتوں کو بے اثر نہ کیا جائے وہ سیاست میں دوبارہ بالادست ہوجاتی ہیں۔ بھارتی عوام اگر لوٹ مار سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو مکمل انقلاب کا آپشن استعمال کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے عوام دوست اور محب الوطن افراد بھارت کے تجربے سے بڑے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پاکستان میں عام آدمی پارٹی بنانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ ان کو شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام کا سیاسی اور جمہوری شعور بھارت کے عوام کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پاکستان کے غریب عوام اس قدر بے بس اور مجبور ہیں کہ وہ طاقتور افراد کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتے۔ بھٹو شہید عام آدمی پارٹی (پی پی پی) کا تجربہ کرچکے ہیں۔ کرشماتی شخصیت اور انقلابی پروگرام کی وجہ سے انہوں نے انتخابی کامیابی تو حاصل کرلی مگر وہ انقلابی اصلاحات کرتے کرتے اجارہ داریوں کو ختم کرنے کی بجائے خود ہی مقتدر طبقوں کی سازشوں کا شکار ہوگئے اور تختۂ دار تک پہنچ گئے۔ بھٹو شہید کے جمہوری تجربے کے بعد کئی سیاستدانوں نے عوامی جماعتیں بنانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ان سیاستدانوں میں حنیف رامے، مولانا کوثر نیازی، معراج محمد خان، معراج خالد، مرزا اسلم بیگ اور شیخ رشید شامل ہیں جو کوشش پہلے ناکام ہوچکی اسی کو دہرانا وقت کا ضیاع ہے۔ پاکستان میں ابھی تک انقلاب کا تجربہ نہیں ہوا۔ تاریخی شعور کا تقاضہ یہ ہے کہ عوام کو منظم کرکے انقلاب کا نسخہ آزمایا جائے۔
بھٹو شہید نے موت کی کوٹھڑی میں کتاب لکھ کر پاکستان کے نوجوانوں کو عوامی انقلاب کے ذریعے پاکستان پر عوام کی بالادستی قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ موجودہ ریاستی نظام مفاد پرستی، اقربا پروری اور موقع پرستی پر مبنی ہے اس نظام میں مافیاز بالادستی اختیار کرچکے ہیں ان اندرونی مافیاز نے عالمی مافیاز کے ساتھ گٹھ جوڑ کررکھا ہے۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام پاکستان کے تین قوم پرست اور محب الوطن رہنمائوں (لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو) کو شہید کرچکا ۔ ہزاروں نظریاتی سیاسی کارکن فلاحی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے قربان ہوگئے۔ پاکستان کے استحصالی طبقے اس قدر بے شرم بے حیا اور بے حمیت ہیں کہ عوام کو عزت سے جینے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان اور عوام سے محبت کرنے والے سیاستدان اور مذہبی رہنما اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ عوامی انقلاب کے بغیر عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ان میں ملک معراج خالد، قاضی حسین احمد اور ڈاکٹر اسرار احمد شامل ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری ایک مفکر، مورخ اور دانشور ہیں انہوں نے انقلاب کی اذان دے دی ہے وہ انقلابی جماعت کی تیاری کررہے ہیں۔ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے ایک لاکھ کارکنوں کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ انقلابی لانگ مارچ کے لیے ایک ایک سو انقلابی کارکن تیار کریں۔ ایک کروڑ لوگ اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے اور پُرامن انقلاب برپا کرکے پاکستان کو کرپٹ اور مفاد پرست لٹیروں سے واپس لے لیں گے۔ ہمارے سماج میں جو مفاد پرستی پر مبنی ذہنیت، مائنڈ سیٹ اور کلچر رائج ہوچکا ہے اسے انقلاب کے بغیر نہیں توڑا جاسکتا۔ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹر محی الدین حسین قادری ٹیکنو کریٹس کی مشاورت سے انقلاب کے لیے ہوم ورک کررہے ہیں۔ نئے ریاستی نظام کا خاکہ تیار کیا جارہا ہے تاکہ عوامی انقلاب کے بعد پولیس، بیوروکریسی، تعلیم، صحت، صنعت اور زراعت کے شعبوں میں انقلابی اصلاحات نافذ کی جاسکیں۔ راقم نے گزشتہ دنوں تحریک منہاج القرآن کی چند تقاریب میں شرکت کی ان تقاریب میں شامل نوجوانوں اور خواتین کا جوش و جذبہ حوصلہ افزاء تھا۔ منہاج کے کارکن جوش و خروش کے ساتھ انقلاب کی تیاری کررہے ہیں۔
پی پی پی، مسلم لیگ، ایم کیو ایم، تحریک انصاف، اے این پی، جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں سے اپیل ہے کہ وہ تاریخ کے شعور کو سمجھیں۔ تاریخ کا قرض اُتاریں اور موقع پرستی کی انتخابی سیاست کا ایندھن بننے کی بجائے عوامی انقلاب کا ہر اول دستہ بن کر پاکستان میں انقلاب برپا کرکے پاکستان کو لٹیروں سے بچانے کی جدوجہد کریں اور یقین کرلیں کہ لٹیرے سیاستدانوں نے عوامی انقلاب کے بغیر اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ نوجوانوں کے لیے کھونے کو کچھ نہیں جبکہ پانے کو سارا پاکستان ہے۔ عوام کا خون چوسنے والے لٹیروں کو سیاست سے بے دخل کرنے کا انقلاب کے بغیر اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ چند ہزار ظالم، سفاک اور سنگدل افراد نے پاکستان کے قومی وسائل پر قبضہ کرکھا ہے۔ جب تک عوامی طاقت سے استحصالی افراد سے پاکستان بازیاب نہ کرالیا جائے پاکستان میں مساوات پر مبنی عدل و انصاف کا نظام قائم نہیں کیا جاسکتا۔
ذرائع: http://www.nawaiwaqt.com.pk
تبصرہ