اگر انقلاب ضروری ہے تو کیسا؟ (روزنامہ نوائے وقت - رحمت خان وردگ)

موجودہ نظام تو سرمایہ داروں نے بنایا ہے اور یہ نظام انہی کا تحفظ کرتا ہے۔ میں ڈاکٹر طاہر القادری کے اس موقف سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ موجودہ نظام میں رہ کر ملک میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی اورموجودہ نظام میں رہ کر کوئی بھی ملک کیلئے کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ 1971ءمیں شہید ذوالفقار علی بھٹو ولولے کے ساتھ الیکشن لڑے تھے لیکن انہیں اس قدر اکثریت نہیں مل پائی تھی کہ وہ آئین میں تبدیلی کرسکتے اور بالآخر انہیں جاگیرداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ میں اقتدار میں آکر زرعی اصلاحات کروں گا اور زمین ہاریوں میں تقسیم کی جائیگی لیکن مجبوراً جاگیرداروں سے ملکر حکومت چلانے کی وجہ سے وہ زرعی اصلاحات نہ کر پائے اور اب تو پیپلزپارٹی مکمل طور پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں ہے۔ حالانکہ پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے آئین میں درج ہے کہ ہم اقتدار میں آکر ملک میں متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات منعقد کرائیں گے اور اقتدار کو متوسط طبقے کی حقیقی نمائندگی کو منتقل کیا جائیگا لیکن یہ سب پارٹیاں بھی سرمایہ داروں کے چنگل میں ہیں اور مخصوص طبقہ ملک پر مسلسل قابض ہے۔

یہاں یہ سوال کہ کیا ملک کو انقلاب کی ضرورت ہے؟ تومیرے خیال میں اگر اس بارے میں شفاف عوامی سروے کرایا جائے تو 99%لوگ ملک میں پرامن عوامی انقلاب کے حامی ہونگے۔ ایسا انقلاب جس سے عوام کو 2 وقت کی روٹی‘ سستی بجلی‘ معیاری تعلیم و صحت کی سہولیات‘ انصاف‘ امن و تحفظ اور برابری کے حقوق مل سکیں۔ کیا ایک عام آدمی انتخابات میں حصہ لیتا ہے؟ کیا وہ سرمایہ داروں اور سیاست پر قابض مافیا کی دولت کا اپنی شرافت و دیانت کے بل بوتے پر مقابلہ کرسکتا ہے؟ کیا بغیر رشوت و سفارش کے کسی کو سرکاری نوکری ملتی ہے؟ یہاں تو پیسے دیکر سی این جی بھروانے کے لئے آدھا دن قطاروں میں لگنا پڑتا ہے۔ ساڑھے تین ماہ سے وہ بھی دستیاب نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کچھ کب تک ہوتا رہے گا؟ یہاں تو مزار قائد کی حرمت بھی چند روپے میں فروخت کردی گئی ہے۔

تحریک انصاف کواس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ آیا وہ موجودہ نظام میں رہ کر ملک میں تبدیلی لاسکتے ہیں؟ کیونکہ عوام کی بے چینی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ زبردست اضافہ ہورہا ہے۔ تحریک استقلال نے 1979ءمیں متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کا مطالبہ کیا تھا جس پر ضیاءالحق نے متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کا وعدہ کیا تھا اور انتخابات کے انعقاد سے چند روز قبل ایسا لگ رہا تھا کہ انتحابات میں یقینی طور پر ایئرمارشل اصغر خان بھرپور کامیابی حاصل کریں گے لیکن حاجی کیمپ کراچی میں حاجیوں کی پہلی فلائٹ کوالوداع کہنے کی تقریب میں ضیاءالحق نے یہ کہہ کر انتخابات ملتوی کردیئے کہ ”چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ انتخابات میں چونکہ 51% ٹرن آﺅٹ نہ ہونے کی اطلاعات ہیں اس لئے یہ انتخابات غیر آئینی ہوں گے“۔ ضیاءالحق کے اس اعلان نے ملک میں تبدیلی کے آغاز کو روک دیا۔ اب تک ہونیوالے کونسے الیکشن میں 51% ٹرن آﺅٹ رہا ہے؟ اس دعوے سے تو پھر اب تک ہونیوالے تمام انتخابات ہی غیر آئینی ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری کو چاہئے کہ عمران خان اور دیگر ہم خیال جماعتوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں اور ان تمام سیاسی قوتوں کوایک آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کریں جو ملک میں نظام کی تبدیلی کی حامی ہیں اور متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو سیاسی جماعتیں ملک کی ترقی کے لئے ناگزیر کالا باغ ڈیم سمیت تمام بڑے آبی ذخائر کی فوری تعمیر کی حامی ہیں۔ ان سب سیاسی جماعتوں کو ایک آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کیا جانا چاہئے تاکہ ملک میں تبدیلی کیلئے انقلاب کی حامی تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔ انقلاب کے بعد ترجیحی اقدامات اور باہمی اختیارات کی تقسیم کا طریقہ کار بھی طے کیا جانا چاہئے۔ اگر عمران خان اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر ڈاکٹرطاہر القادری کے ساتھ سڑکوں پر آجاتے ہیں تو انقلاب کے بعد دونوں پارٹیاں صدارت اور وزارت عظمٰی آپس میں تقسیم کرسکتی ہیں اور صدر و وزیراعظم کے اختیارات کی مساوی تقسیم ہونی چاہئے۔

یہاں کچھ لوگ یہ دلیل دیںگے کہ ڈاکٹر طاہر القادری دوہری شہریت رکھتے ہیں اس لئے یہ انقلاب نہیں آنا چاہئے تو کیا دوہری شہریت جرم ہے؟ آخر یہ کون لوگ ہیں جو دوہری شہریت کو جرم بنارہے ہیں؟ میرے خیال میں وہی سیاسی مافیا جو یہاں اقتدار پر قابض ہے وہ نہیں چاہتا کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے کوئی شخص آگے آسکے اور اگر ایسا کرنا چاہے تو اسے کسی بھی ممکنہ طریقے سے متنازع بنایا جاسکے۔ پاکستان میں قیمتی زرمبادلہ بھجوانے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی حب الوطنی کسی سند کی محتاج نہیں اور ان لوگوں کا جسم دوسرے ملک میں لیکن دل و دماغ پاکستان میں رہتا ہے۔ دوہری شہریت کو جرم بنانے والے اس کی مناسب دلیل نہیں دے سکتے۔

2013ءکے پرامن دھرنے کے بعد اب پرامن انقلاب کی بات خوش آئند ہے اور اگر ایسا ہو تو یہ لازمی ہے کہ ایک گملہ بھی نہ ٹوٹے۔ ڈاکٹر طاہر القادری تمام ہم خیال جماعتوں کومکمل اعتماد میں لیکر نکلیں تو میرے خیال میں ایسا نہیں ہوسکتا ہے وہ کسی بھی صورت میں پرامن انقلاب نہ لاسکیں لیکن انقلاب کی کامیابی تبھی ہوگی جب اقتدار سنبھالتے ہی ملک بھر میں نئی مردم شماری‘ حلقہ بندیاں کرانے کے بعد ووٹر لسٹوں کی آرمی کے ذریعے تصدیق کرائی جائے اور ملک بھر میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کا اعلان کیا جائے اور فوری طور پر بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے جائیں کیونکہ جمہوریت کے چیمپئن تو گزشتہ 6 سال سے بلدیاتی انتخابات کرانے سے ڈر رہے ہیں۔ انقلاب کے فوری بعد سندھ میں 4چھوٹے ڈیموں کی تعمیر اور واٹر ویژن 2016ءپر عملدرآمد کا اعلان کیا جائے جو جنرل مشرف کی وفاقی کابینہ نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا اور واٹر ویژن 2016ءمیں 5 بڑے آبی ذخائر بشمول کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کا آغاز کیا جائے ۔ جب تک بڑے آبی ذخائر تعمیر نہیں ہونگے پاکستان نہ توخودمختار ہوسکتا ہے اور نہ ہی توانائی بحران ختم ہوسکتا ہے۔اگر کوئی یہ دعوٰی کرتا ہے کہ بڑے آبی ذخائر کی تعمیرکے بغیرمہنگائی میں کمی آسکتی ہے تووہ احمقوں کی جنت میںرہتا ہے۔

انقلاب کے بعد غیر ملکی امداد نہ لینے کا اعلان کرکے چین‘ ایران اور پڑوسی ممالک سے تجارت کواولین ترجیح دی جائے اور گوادر پورٹ کو جلد از جلد فعال کرکے خطے کی تجارت میں پاکستان اہم کردار کا آغاز کرے۔ امریکی جنگ سے علیحدگی کا اعلان کرکے پاکستان کی حدود میں حکومتی رٹ کو چیلنج کرنیوالوں سے سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا جائے۔ کرپشن‘ لوٹ ماراوراختیارات کا ناجائز استعمال کرنیوالوں کا کڑا محاسبہ کیا جائے اور لٹیروں کوملک سے فرار نہیں ہونے دیا جانا چاہئے۔ قومی اداروں کی بحالی کیلئے ہنگامی اقدامات ہونے چاہئیں اور چور‘ قاتل‘ لٹیروں کو چوراہوں پر اسلامی سزائیں دی جائیں تو میرے خیال میں چند لوگوں کو چوراہوں پر سزائیں دینے کے بعد 99% جرائم ختم ہوجائیں گے۔

ذرائع: روزنامہ نوائے وقت

تبصرہ