سیدنا عمرو بن العاص مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معروف سپہ سالار تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو مصر کا گورنر مقرر فرمایا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکمرانی میں ایک مرتبہ حسب معمول گھڑ دوڑ منعقد ہوئی جس میں عمرو بن العاص کے صاحبزادے بھی شریک تھے۔ مقابلے میں ایک مصری نوجوان اپنا گھوڑا دوڑاتا ہوا سب سے آگے نکل گیا تو عمرو بن العاص کے صاحبزادے کو غصہ آگیا۔ اس نے اس جیتنے والے مصری جوان کو کوڑے رسید کر دیئے اور کہا تمہیں معلوم نہیں میں مصر کے گورنر کا بیٹا ہوں۔ مصری جوان نے عدل فاروقی سے متعلق سن رکھا تھا، ہمت کرکے مصر سے کئی روز کے طویل سفر کے بعد مدینہ منورہ پہنچ گیا۔ سیدنا فاروق اعظم کے دربار میں ہر ایک کو رسائی حاصل تھی خصوصاً باہر سے آنے والے فریادی کو۔ جوان نے اپنی آپ بیتی سیدنا عمر کو سنائی تو حضرت عمر نے اپنے مایہ ناز گورنر عمر بن العاص کو فوری پیغام بھیجا کہ پہلی فرصت میں اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوں۔ جب وہ مدینہ منورہ آگئے توحضرت عمر نے مصری نوجوان کو طلب کیا اور فرمایا تمہارا مجرم تمہارے سامنے ہے جتنے کوڑے اس نے تجھے مصر میں مارے تھے اتنے ہی کوڑے میرے سامنے اسے مارو۔ پھر حضرت عمر بن العاص سے مخاطب ہو کر ترجمانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو یورپی اقوام میں تبدیلی اور خصوصاً انقلابِ فرانس کا سبب بنا۔ آپ نے فرمایا: ’’جن لوگوں کو ان کی ماؤں نے آزاد پیدا کیا تھا انہیں تم نے کب سے اپنا غلام بنا لیا ہے؟ بلکہ بعض روایات میں آیا ہے کہ سیدنا عمر نے اس مصری نوجوان کو فرمایا کہ ایک کوڑا اس کے باپ عمر ابن العاص کو بھی مارو جس کی شہ پر اس کے بیٹے نے سرِ عام ظلم کی جرات کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک ملک کے گورنر کو محض اس لئے مدینہ طلب کرکے انہیں کھردرا لباس پہنا کر بکریاں چرانے پر لگا دیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے لباس اوررہائش کو دیگر لوگوں کی نسبت پر آسائش اور پرکشش بنانا شروع کر دیا تھا۔
قارئین موضوع زیر بحث سے قبل میں نے شاہکارِ رسالت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں نظام عدل انصاف اور اصولِ حکمرانی کی ایک دو مثالیں اس لیے پیش کیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہ محض افسانوی باتیں نہیں بلکہ اسلام میں سماجی انصاف اور عدل خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین نے معاشرے میں نافذ کرکے دکھایا تھا۔ تب جا کر اسلامی معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ بن سکا تھا۔ پاکستان بھی اس لیے لاکھوں قربانیوں کے بعد معرضِ وجود میں لایا گیا تھا کہ یہاں بھی وہی نظام عدل و انصاف حقیقی معنوں میں نافذ ہوسکے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص دوسروں کو اصول و ضوابط اور قانون کا پابند دیکھنا چاہتا ہے مگر جب اس کی اپنی ذات کا معاملہ آتا ہے تو ہر کوئی استثناء کا خواہشمند ہوتا ہے۔ کسی ملک کی حکمرانی تو خیر بہت بڑا منصب ہے ہمارے ہاں تو سیکشن آفیسر، اسسٹنٹ کمشنر یا تھانیدار بننے والا شخص خود کو دوسروں سے الگ مخلوق سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ بس یہیں سے سماجی تضاد اور ظلم کا آغاز ہو جاتا ہے۔گذشتہ روز وزیراعلیٰ شہباز شریف مظفر گڑھ خود سوزی سے مرنے والی جس جواں سال بچی کے ورثا کے پاس گئے اور وہاں متعلقہ پولیس آفیسرز کو معطل کرتے ہوئے جس نظام کے خلاف بے ساختہ ارشاد فرمایا کہ ’’اس نظام ظلم کو ہم برداشت نہیں کریں گے‘‘ کاش اس کمٹمنٹ کو ہی وہ اپنا منشور بنالیں تو پاکستان کی تقدیر سالوں میں نہیں مہینوں میں بدل جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو حادثات رونما ہونے کے بعد جس اضطراب سے گزرنا پڑتا ہے وہ فکر اور احساس انہیں عام حالات میں کیوں نہیں ہو پاتا؟..... وزیراعظم نواز شریف نے تھرپار کر جا کر قحط زدہ لوگوں پر اس وقت ترس کھاتے ہوئے امدادی رقم کا اعلان کیا جب سینکڑوں معصوم بچے اور بوڑھے موت کے منہ جا چکے تھے۔ وہ بھی میڈیا کے ان لوگوں کا بھلا ہو جنہوں نے کچھ تصویریں دکھا کر عوام و خواص کو اس المیے کی طرف متوجہ کیا۔ اس قحط زدہ علاقے کا کوئی صوبائی اور قومی نمائندہ زندہ نہیں ؟ کسی کو سالہا سال سے پنپنے والے فاقوں کا احساس کیوں نہیں ہوا؟ جواب بڑا سادہ ہے کہ ان میں سے کوئی اس علاقے میں آتا جاتا ہی نہیں۔ کراچی اور اسلام آباد کے محلات اور نعمتوں میں رہنے والوں کو صحرائے تھل کی مشکلات کا احساس کیسے ہو سکتا ہے۔ نظام حکومت انسان دوست ہو تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ حکمران اگر احساس ذمہ داری اور عوامی حقوق کی حساسیت سے آگاہ ہوتے تو انسان تو کیا وہاں کے حیوانات بھی تلف نہ ہوتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی پیاس سے مرے گا تو عمر اﷲ کے سامنے اس کا ذمہ دار ہو گا۔ یہ تھا ان کا احساس ذمہ داری، جذبہ حکمرانی اور خدمتِ خلق کا معیار۔ اسی لیے تو روم اور ایران کے وفود جب مسلمانوں کے اس عظیم سپوت کو حیرت و حسرت سے دیکھنے مدینہ منورہ آتے تھے تو حیران ہوتے تھے کہ یہ شخص تو اینٹ پر سر رکھ کر بغیر کسی پہرہ دار کے سوتا ہے۔ اس کے بیٹھنے کے لیے کوئی تخت اور رہنے کے لئے کوئی شاہی محل نہیں ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں کی خواہش تو یہی ہے کہ وہ بھی امیر المؤمنین کہلائیں، لوگ ان کی عدالت مساوات اور عوام دوستی کے گن گائیں لیکن چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک!
ہمارے ہاں بے حسی عوام سے لے کر حکمرانوں تک ہمارے کردار کا حصہ بن چکی ہے۔ لالچ ہماری شخصی کمزوری میں ڈھل گئی ہے اور بد دیانتی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ حکمران اگر حساس، دیانتدار اور مخلص ہوگا تو افسر شاہی میں بھی یہ خصوصیات پیدا ہوں گی۔ہم ان سطور کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کی خدمت میں گذارش کر رہے ہیں کہ پولیس والوں کو ارتکابِ جرم کے بعد معطل کرنے کی بجائے انہیں باکردار اور مخلص بنائیں تاکہ مخلوقِ خدا ان سے پناہ مانگنے کی بجائے انہیں اپنے تحفظ اور امن کا ضامن اور مددگار سمجھیں۔ پولیس انتظامیہ اور عدلیہ میں اگر بے حسی، بددیانتی اور لالچ کی وباء ختم یا کم ہو جائے تو اس ملک کے اسی فیصد مسائل خود حل ہو جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے علماء اور ماہرین نفسیات کو لے کر ایک تربیتی نصاب بنانا چاہیے جو ان لوگوں کو پڑھایا جائے تاکہ ان کی اخلاقیات میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے۔ ظلم تو کوچہ و بازار میں بچے جنم دے رہا ہے مگر عدل و انصاف یہاں کی عدالتوں میں بھی بانجھ ہے۔ ہمارے ہاں سماجی، سیاسی، تعلیمی اور عائلی معاملات میں خود غرضی، نا انصافی کو جنم دے رہی ہے اور نا انصافی ظلم اور چوری ڈاکے کا سبب بن رہی ہے۔ یہاں تو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتیں بھی مہنگے داموں خریدنی پڑ رہی ہیں۔ اس لیے ان بنیادی ضرورتوں کے لئے ترستے ہوئے لوگوں کو ان کے حقوق کی ضمانت درکار ہے۔ انکو جیتے جی انصاف تعلیم اور صحت درکار ہے۔ مرنے کے بعد اگر حاکم وقت ان کی قبر پر جاکر ٹسوے بہا بھی لے تو اس سے عوام کے مسائل تو کم نہیں ہوں گے۔
تبصرہ