انٹرویو جاوید چودھری کے ساتھ (پروگرام: کل تک - ایکسپریس نیوز)
11 مئی کے احتجاج کے حوالے سے PAT اور PTI میں اشتراک؟
میں ایک اِصلاح کرنا چاہتا ہوں ایک غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ معلوم نہیں کیوں؟ کہ یہ احتجاج کسی ایک جگہ پر PTI اور PAT کا اکٹھا نہیں ہورہا، اس وقت تک کی صورت حال کے مطابق ہم اکٹھا نہیں ہوئے۔ PTI کا احتجاج ڈی چوک اسلام آباد میں ہورہا ہے، میں نے اپنے احتجاج کا اعلان دس پندرہ دن پہلے کردیا تھا، اور یہ ملک گیر احتجاج ہے۔ مرکزی احتجاج ہمارا راولپنڈی میں ہوگا، اور لاہور، کراچی اور پشاور میں، ہیڈکواٹرمیں اور پھر تمام اضلاع میں ہوگا۔
گیارہ مئی کے معاملے میں PAT اور PTI ایک page پر نہیں ہیں؟
اِس وقت تک PTI کے احتجاج کا ایجنڈا اور مطالبہ مخصوص ہے، ہمارا اس سے وسیع تر ہے، وہ صرف چار حلقوں میں ہونے والی دھاندلی کے اوپر دوبارہ گنتی کا اپنا مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کی شفافیت کو ثابت کیا جائے، وہ دھاندلی کے انکشافات چاہتے ہیں، ان کا مطالبہ اگر منظور نہیں ہوتا تو وہ آگے کس سمت بڑھتے ہیں، یہ وہ جانتے ہیں۔ ہمارا احتجاج چند حلقوں کے دھاندلی کا نہیں ہے۔ ہمارا احتجاج اس دھاندلی کے خلاف ہے جو 65 سال سے ملک کے اٹھارہ بیس کروڑ عوام سے ہورہی ہے۔ ہمارا احتجاج اس فرسودہ نظام کے خلاف ہے جو آواز میں نے دسمبر 2012ء میں اور پھر لانگ مارچ میں بلندکی تھی۔
ہمارا احتجاج بنیادی طورپر یہ ہے کہ آئین پاکستان آرٹیکل نمبر پانچ میں یہ کہتا ہے کہ یہ ایک سوشل کنٹریکٹ ہے ریاست اور عوام کے درمیان۔ اس کے ذریعے عوام نے اپنے اختیار ریاست کے سپرد کرکے surrender کردیا ہے۔ ہر شہری نے کہا کہ میں ریاست کی تابعداری کروں گا اور آئین سے وفاداری کروں گا۔ اس کے بدلے میں ریاست نے بھی عوام کو کچھ دینا تھا۔ ریاست چلانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، اور اسے Fulfil بھی حکومت نے کرنا تھا۔ توریاست نے پاکستان کی بیس کروڑ عوام سے وہ وعدہ کیا جو آرٹیکل 9 سے لے کر آرٹیکل 40 تک میں درج ہے۔ عوام نے ایک آرٹیکل میں وفاداری کی جب کہ ریاست نے 31 آرٹیکل میں وعدے کیے۔ اور میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ وہ 31 وعدے جو آئین پاکستان نے کیے ان میں سے ایک بھی آئین کے مطابق حکومت نے پورا نہ کیا اور نہ پچھلی پیپلز پارٹی کی حکومت نے اور نہ کسی اور حکومت نے۔ اس لیے پورا نہیں کیا کہ اس نظام میں اٹھارہ، بیس کروڑ عوام کی جگہ ہی نہیں ہے، یہ مخصوص اشرافیہ کا نظام ہے۔ میں تو اس سے قبل بھی عرض کردیا تھا کہ انتخابات سے کچھ نہیں ملنا، عوام محروم رکھے گئے، لیکن پھر بھی ایک سال کی خاموشی اس لے دی کہ سال کے عمل میں کئی غریب لوگ ہیں۔ ہم اس نظام کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اس نظام حکومت کے خلاف۔
کیا اس تحریک سے عام آدمی کو وہ ساری حقوق مل جائیں گے جو 65 سالوں سے نہیں ملے؟
لانگ مارچ میں بھی اسی قسم کے وعدے تھے، لیکن پھر انہی لوگوں سے ایک معاہدہ کرکے واپس آگئے جنہیں آپ نے یزیدی نظام کا حصہ بھی کہا اور بھی کہا تھا کہ یہ وہ غاصب ہیں جنہوں نے آج تک عوام کے حقو ق کے اوپر ڈاکہ ڈال رکھا ہے۔ کیا گیارہ مئی کے بعد بھی اسی قسم کا ایک معاہدہ ہوجائے گا اور پھر عوام اسی طرح پستے رہیں گے لیکن سسٹم نہ بدلے گا؟
اس کے جواب دو ہیں:
ایک جملے میں مختصر جواب یہ ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوگا، جو آپ نے 2013ء کے لانگ مارچ میں دیکھا۔
نہ اِس قسم کا اور نہ اُس قسم کا؛ زیر اور زبر دونوں کو ملا کر بات کررہا ہوں۔ معاہدہ ہوگا ہی نہیں۔ معاہدہ عوام کا مطالبہ ہوگا اور اس کی عوامی قوت کا نفاذہوگا۔ آئین کے دیے ہوئے ان آرٹیکل کے مطابق جو وعدے ہیں ان کا ایفاء ہوگا۔ ہم نے ان کو ایک بار معاہدے کا موقع دیا۔
یہاں میں اس کی بھی درستگی کردوں کہ آپ یاد کریں میرے لانگ مارچ سے دو تین پہلے کی مسلسل کانفرنسز حتی کہ بارہ جنوری کی پریس کانفرنس جس میں ایجنڈا دے کر چلا تھا کہ لانگ مارچ کن مقاصد کے لیے ہو رہا ہے۔ میں نے اس میں categorically specify کر دیا تھا کہ الیکشن کمیشن سراسر غیر آئینی بنا ہے، اس کی تشکیل نو کے لیے اسلام آباد جارہا ہوں۔ آرٹیکل 62 اور 63 کے عملی نفاذ کے لیے جارہا ہوں۔ اور ایک غیر جانبدار عبوری حکومت کے قیام کے لیے جارہا ہوں۔ پانچ نکات تحریری لکھ دیے تھے۔ پریس کانفرنس کردی تھی۔ سو معاہدے کی وجہ یہ بنی کہ میں اس وقت پورے نظام کی بات نہیں کررہا تھا۔ میں انتخابی اصلاحات کی بات کررہا تھا۔ الیکشن کمیشن غیر آئینی یعنی آرٹیکل 213 اور 218 کے خلاف بنا تھا۔ اس کی تشکیل نو کی بات کررہا تھا اور الیکشن process کی بات کررہا تھا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو مکمل طور پر یعنی in letter and spirit نافذکیا جائے۔ سو جب میں نے نوے منٹ کی ڈیڈ لائن دی تو یہ لوگ آگئے اور ان پانچوں چیزیں کی commitment کردی اور آپ کے سامنے ہے کہ دستخط کردیئے۔ عوام اور قوم کے سامنے وعدہ کردیا۔ بعد ازاں وہ آپ کے سامنے پھر گئے۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ لوگ اس قابل نہیں تھے۔
کیا گیارہ مئی کی ریلی سے عوام کو ان کے حقوق مل جائیں گے اور اگر نہیں ملے تو تحریک کتنا عرصہ چلے گی؟
دیکھیے! ایک بات بڑی clear ہے کہ گیارہ مئی کا احتجاج صرف ایک دن کا احتجاج ہے۔ میں عوام کو بھی اور میڈیا کو بھی اور کسی کو confusion میں نہیں رکھنا چاہتا اور یہ بات اول دن سے categorically اعلان میں ہے کہ یہ ایک دن کا احتجاج ہے۔ آپ کو یاد ہے کہ میں نے تین terms استعمال کی تھیں۔ میں نے کہا تھا کہ لانگ مارچ اس پرامن جمہوری انقلاب کے لیے اذان تھی، لوگوں کو بات سمجھانے کے لیے۔ اب گیارہ مئی اس کی اقامت ہے۔ میں کہتا رہا ہوں کہ گیارہ مئی کو اقامت ہوگی یعنی یہ یوم اقامت ہے۔ اس دن دراصل ہم دیکھنا چاہا رہے کہ کارکن کتنے تیارہو چکے ہیں پرامن انقلاب کے لیے۔ ان کے ساتھ پاکستان کی عوام کتنی آچکی ہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتاہوں کہ صرف پاکستان عوامی تحریک ایک تنہا اپنے کارکنوں کے ساتھ انقلاب نہیں لاسکتی، اور دنیا میں کسی ملک میں ایسا نہیں ہوا۔ بیس کروڑ عوام کا کتنے فیصد حصہ اس تحریک کو جوائن کرتا ہے اور پرامن انقلاب کے لیے باہر نکلتا ہے، یہ test day بھی ہے اور ہمارا یوم اقامت بھی ہے۔ ایک دن کا ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ عوام کتنے تیار ہوچکے ہیں اور صف بندی کے لیے کتنے نمازی تیار ہیں۔ پرامن انقلاب کی فائنل کال آگے آئے گی۔ اس کے بعد دیر سے نہیں بہت جلد فائنل کال کی تاریخ کا اعلان کروں گا۔ میں نے ایک عرض کردیا کہ وہ لیٹ نہیں ہوگی۔ وہ جو تاریخ کا اعلان کروں گا وہ مسلسل تحریک ہوگی۔ چند دن لگیں یا جتنا بھی وقت لگے، وہ جو مسلسل تحریک شروع ہوگی، اس کا اختتام عوام کو اقتدار منتقل کرنے اور لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو کک آؤٹ کردینے پر۔ دوسرا مرحلہ ہے۔
گیارہ مئی کو ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان تشریف لائیں گے یا وہیں بیٹھ کر خطاب کریں گے؟
اگلے مرحلے کے لیے straight away پاکستان آؤں گا۔ میں اس گیارہ مئی کے لیے بھی آگیا ہوتا، لیکن میری دونوں آنکھوں کی سرجری ہوئی ہے اور recovery کا process چل رہا ہے۔ سرجن چیک اپ کررہے ہیں اور الحمدللہ بہترہے۔ لیکن مجھے جلد ہی سفر کی اجازت دے دیں گے، ورنہ میں گیا رہ مئی کو ہی آجاتا اور وہی ٹھہرتا مگر اس کے فوری بعد جو فائنل کال کی تاریخ کا اعلان کروں گا، میں کروڑوں عوام کے ساتھ ہوں گا اور تحریک کے End تک اور اقتدار عوام کو منتقل کروانے تک خود لڑوں گا۔
خود ایک ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر گرم ملک کے گرم عوام کے سامنے گرم تقریر کررہے ہیں۔
آپ کا انقلاب صرف اس حد تک محدود ہے کہ آپ صرف ایک خطاب کریں گے ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کے اور لوگ گرمی میں سڑتے رہیں گے اور جلتے رہیں گے۔ پھر اس کے بعد خاموشی ہو جائے گی؟
یہ تصور لوگوں کے ذہنوں میں پراگندی پھیلانے کے لیے وہ status quo کے عناصر ایسی باتیں کررہے ہیں جو پچاس ساٹھ سال سے عوام کی تقدیر سے کھیلنے کے عادی ہیں۔ یاد رکھ لیں! میں اس ٹھنڈے ملک میں گرمی کے موسم میں ساتواں سال ہے کبھی بھی نہیں رہا، جب گرمی آتی ہے تو میں پاکستان آجاتا ہوں، حرمین شریفین جاتا ہوں گرم ملک ہے، اور وہاں عمرہ کے بعد میں پاکستان میں پچاس، ساٹھ ہزار افراد کے ساتھ اعتکاف بیٹھتا ہوں۔ عید وہاں کرتا ہوں۔ میں تو گرمیوں کے تین مہینے ٹھنڈے ملک میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا میں کلیئر کردوں کہ یہ بات بالکل لغو ہے۔ اب آگے چلیے کہ یہ تحریک شروع ہو رہی ہے تو گرم موسم ہی ہوگا۔
جو اگلہ مرحلہ ہے نماز کا، آپ پاکستان میں بیٹھ کر اس کی قیادت کریں گے؟
پاکستان میں بیٹھ کر، پاکستان میں کھڑے ہو کر، پاکستان میں سڑکوں پر چل کر اور اس دیوار کواپنے ہاتھ سے دھکا دوں گا۔ اس فرسودہ دیوار کو گراؤں گا اور ان کے گریبانوں سے پکڑ کر ان شاء اللہ عوام کو اقتدار دلوا کے ان کو جیل میں بھیجوں گا۔ یہ سارا عمل خود بیٹھ کر کھڑا ہو کر کروں گا، اِن شاء اللہ۔ یہ تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فائنل کال آئے اور میں باہر ہوں۔
آپ کس کس کو جیل میں بھیجیں گے؟
ہر وہ شخص اور حکمران جس نے سالہاسال پاکستان کا خزانہ لوٹا ہے اور سوئٹزر لینڈ کے بنک اور پوری دنیا کے اندر business empires بنائی ہیں، عوام کے پیسے لوٹ کر باہر لے گئے ہیں۔ جب تک وہ حساب پورا نہیں دیتے اور قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس نہیں کردیتے۔ اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ انقلاب اس طرح پرامن ہوگا یعنی green انقلاب۔
اس میں میاں نواز شریف صاحب بھی شامل ہوں گے، میاں شہباز شریف صاحب بھی شامل ہوں گے، عمران خان صاحب بھی، آصف زرداری صاحب بھی اور شیخ رشید صاحب بھی اور مولانا فضل الرحمن بھی شامل ہوں گے آپ کے احتساب میں؟
میں نے جتنی بات کہنی تھی وہ میں نے عرض کردی ہے آپ جب نام لیں گے تو نام کے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ وہ وقت بتائے گا کہ جو شخص جس پر کرپشن ہے، جو اپنے وسائل سے بڑھ کر لے رہا ہے، جس نے ٹیکس نہیں دیا، جس نے قرض لیے اور واپس نہیں کیے یا معاف کروائے ہیں، ٹیکس چوری کی ہے یا غلط statement دی ہیں، ملک کے دولت لوٹ کر باہر لے گیاہے، یہ ساری کرپشن کی صورتیں ہیں جو آئین پاکستان جن کی کرپشن law بتاتا ہے، جس جس پر وہ صادق آئے گا، وہ جیل کے اندر ہوگا۔
جس جس نے آئین توڑا ہے اور قانون کی خلاف ورزی کی ہے، مارشل لاء لگایا ہے، اقتدار پر قبضہ کیا ہے، کیا وہ بھی شامل ہوں گے آپ کے احتساب میں؟
جی ہاں! جس نے آئین توڑا وہ بھی شامل کرتا ہوں۔ اور میری جو تعریف ہے آئین توڑنے کی اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جس نے آرٹیکل 62، 63 توڑا ہے وہ بھی اسی کے اندر آئیں گے۔
کیا آپ کے پاس کوئی متبادل سسٹم ہے جس سے آپ اس ملک کو چلا سکیں گے؟
اس کا جواب YES میں ہے۔ الحمدللہ! میں نے اس پورے عرصے میں اس فرسودہ اور استحصالی نظام کو ختم کرکے متبادل شاندار نظام جو عوام کو relief دے سکے وہ پورا تیار کرلیا ہے۔ میں اور میرے ماہرین کی ٹیم نے اس پورے عرصے میں پورا نیا سسٹم تیار کرلیا ہے اور اس کی detail میں سے کچھ حصے میں اِن شاء اللہ گیا رہ مئی کے خطاب میں بیان کروں گا جو ضروری ہوں گے۔ آپ سمجھے لیں کہ کچھ جھلک دوں گا اور زیادہ تفصیل جب فائنل کال ہوگی تو اس وقت release کردوں گا؛ پورا نیا سسٹم جو apply کرنا ہے، مگر ان شاء اللہ عوام کو اقتدار منتقل ہوتے ہی اس کی implementation پہلے ماہ ہی سے شروع ہو جائے گی۔ تیاری مکمل ہے۔ اس کی پہلی جھلک یہ ہو گئی کہ 35 صوبے ہوں گے۔ تمام ترقیات، مالیات اور قانون سازی کے اور عوامی خوشحالی کے پروگرام اور اختیارات مرکز اور بڑے چار صوبوں سے لے کر نچلی سطح تک منتقل کرنے کا نظام حکومت تیار کیا ہے، جو 35 صوبوں پر مشتمل ہوگا۔ ہر ایک ڈویژن ایک ایک صوبہ declare ہو جائے گا تاکہ اختیارات اور وسائل جمع ہو کر ایک آدمی اور ایک مختصر لوگوں کے ہاتھوں میں نہ رہیں۔ اور سب سے پہلے صوبہ ہزارہ ہوگا جہاں کے لوگ شہادتیں دے چکے، کمیشن بنے، اسمبلیوں کے قرارداد پاس ہوئیں، قربانیاں ہوئی مگر صوبہ ہزارہ کی عوام کی بات نہیں سنی گئی۔ ان کے ساتھ مذاق ہوا۔ ان کو ترجیحی بنیادوں پر پہلا صوبہ اور تمام اختیارات اس کے نیچے ضلعی حکومتوں کو منتقل کردیں گے۔ ان کے نیچے تحصیلی حکومتوں کو منتقل کردیں گے اور ان کے اندر ٹاؤن شپ جو ہماری ضلعی حکومتیں ہیں، انہیں منتقل کریں گے۔ اور سپریم کورٹ نیچے ڈیژون میں لے جائیں گے، ہائی کورٹ ضلعوں میں لے جائیں گے۔
جب 1973ء کا متفقہ آئین معطل ہو جائے گا، آپ کس آئین کے تحت 35 صوبے بنائیں گے؟
کس آئین کے تحت بلدیاتی نظام بنائے گئے؟ کس آئین کے تحت آپ اختیارات نچلی سطح پر دیں گے؟ اوپر تو آئین ختم ہوچکا ہوگا اور آپ کس طرح لوگوں کو جمع کریں گے؟ کون سی پارلیمنٹ بنائیں گے جو ایک نیا آئین وضع کرے گئی؟ اس آئین پر پورے پاکستان کے لوگ اس کے اوپر دستخط کریں گے، اس کو تسلیم کریں گے اس کے لیے آپ کو کئی دہائیاں چاہیے؟
میں عرض کردوں کہ یہ ایک رازہے جو میں آج بیان نہیں کروں گا مگر میں اس کا بیان کرچکا ہوں۔ اس کا پہلا قدم آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر ایک پر ہوگا، جہاں سے شروع ہورہا ہے پاکستان کا آئین۔ اس کے اندر ایک پورا nucleus ہے اور عوامِ پاکستان اسے approve کریں گے۔ اس سے زیادہ میں اس وقت بات نہیں کرنا چاہتا، دہائی نہیں لگے گئی، یہ ساری چیزیں اس بات پر آپ اتفاق کریں گے کہ اختیارات دینے کا کام یہ پارلیمنٹ نہیں کرے گئی، یہ حکمران نہیں کریں گے۔ یہ کیوں چاہیں گے اَربوں کھربوں روپے کے وسائل نچلی سطح پر جائیں؟
کیا آپ اس ملک کو نئے سرے سے بنا سکتے ہیں؟
بات یہ ہے کہ اگر 1973ء کے آئین کو آپ ردّ کر دیتے ہیں تو آپ کو پولیس سسٹم سے، افواج پاکستان سے، جسٹس سسٹم سے بلکہ پورے ملک سے لڑنا پڑے گا۔ مجھے یہ بتائیے گا کہ آپ فوج سے لڑ سکتے ہیں جو اس آئین پاکستان کا حلف اٹھاتی ہے؟ آپ تمام bureaucracy سے لڑ سکتے ہیں جو اس آئین کا حلف اٹھاتی ہے؟ اور آپ پوری سیاسی لاٹ سے لڑسکیں گے؟ اس کے لیے آپ کوبہت بڑی جنگ کرنی پڑے گی۔ یہ ملک نئے سرے سے بنانا پڑے گا۔ کیا آپ بنا سکتے ہیں اس ملک کو نئے سرے سے؟
ضرورت ہی یہی ہے کہ اس ملک کو نئے سرے سے بنایا جائے۔ وہ ملک جو گم ہوگیا جو قائد اعظم نے بنایا تھا۔ ان جاگیرداروں، سرمایہ داروں، لٹیروں اور استحصالی طبقے اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ ملک اٹھارہ بیس کروڑ عوام کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ ان کے لیے صرف خود کشیاں رہ گئی ہیں؟ قانون نہیں رہا؟ ان کے لیے گردے بیچنا اور قبروں سے مردے نکال کرکھانا اور حرام خوری رہ گئی ہے؟ ان کے لیے عزت فروشی رہ گئی ہے؟ یہ قانون اور یہ سارا کچھ ان اشرافیہ کے ہاتھ میں رہ گیا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکلز جو 40 ہیں وہی ان شاء اللہ اس سارے مسئلے کو حل کردیں گے اور افواج پاکستان اورعدلیہ عوام کی بہتری کی راستے میں رکاوٹ کیوں کھڑی کریں گے؟ وہ تائید کریں گے۔ ہر وہ قدم جو آئین کی روح کے مطابق ہورہا ہے، ہر وہ قدم کو عوام کو empower کررہا ہے، ہر وہ قدم جو ملک میں rule of law لارہا ہے۔
آپ فوج کے ساتھ لڑسکتے ہیں کیونکہ فوج آئین پاکستان کا حلف اٹھاتی ہے؟
فوج کیوں لڑائی کرے گی؟ فوج لڑائی نہیں کرے گی کیونکہ عدل کا نظام لایا جارہا ہے۔ دیکھیں! لڑائی وہ لوگ کررہے ہیں جو آج فوج کے دفاع کو کمزور کررہے ہیں، ہم تو پاک فوج کے دفاع کو مضبوط کریں گے۔ خلاف ان کے ہے جنہوں نے دفاعِ پاکستان پر حملہ کیا ہے، ISI اور افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلوایا ہے اور سازش کی ہے۔
آپ فوج کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور سیاست دانوں کے ساتھ لڑیں گے۔ یہ کریں گے آپ؟
جہاں تک تعلق ہے دفاع پاکستان کی مضبوطی کے لیے تو میں فوج کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ پاکستان کی سلامتی کے لیے فوج کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ ان کے ادارے کے دفاع کے لیے فوج کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ وہ جو سرحدوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ کر اپنے جوانوں کی قربانیا ں دے رہے ہیں ان کی عزت کی بحالی کے لیے ان کی شہادتوں کے لیے میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
اب آگیا rule of law۔ جب عوام کی خوشحالی کی بات ہوگی تو افواج پاکستان یا اعلیٰ عدلیہ وہ عوام کے ساتھ کیوں نہیں ہوں گے؟ یہ عوام کا ایجنڈا ہے جو آئین پاکستان کے 40 آرٹیکل دیتے ہیں، اور وہ آج تک معطل پڑے ہوئے ہیں۔ ہم تو معطل شدہ آئین پاکستان کو اور اس کی روح کو نافذ کر دیں گے، اِن شاء اللہ۔ بین الاقوامی اور جمہوری اصولوں کے مطابق یہ ضابطہ بنے گا۔ میں اس وقت quote کروں گا کہ پوری دنیا امریکہ سے لے کر جاپان تک، اسلامی دنیا اور غیر اسلامی دنیا، ان کے جمہوری اصولوں کے بنیاد پر decentralized ماڈل بنا چکی ہے۔ ہم بیس کروڑ عوام کے ساتھ کیوں چار صوبوں پر کھڑے ہیں؟ میں تو اس وقت امریکہ کو quote کروں گا، ترکی کو، چین کو، ساوتھ کوریا کو، ایران کو، انڈیا کو۔ میں پوری دنیا کو quote کروں گا کہ ساری دنیا جمہوریت کو grass root level تک لے جاکر خوش حالی منتقل کرچکی ہے اور ہمارے ملک کو چند خاندانوں نے اپنے قبضے میں لے کر اس کی ساری دولت اور اختیارات پر براجمان بیٹھے ہیں۔
اگر آپ کی اس تحریک سے حکومت چلی جاتی ہے اور فوج کو فائدہ ہوجاتاہے تو کل کو لوگ آپ کے بارے میں کس قسم کے خیالات کا اظہار کریں گے، اندازہ ہے اس کا؟
اس کا جواب بھی بڑا clear ہے۔ جس طرح میں اس کرپٹ نظام حکومت کے خلاف لڑ رہا ہوں، اگر فوج نے take over کیا اور مارشل لاء لگایا، military rule لگایا تو اس کے خلاف بھی اسی طرح لڑوں گا۔ میں فوج کے military rule کی جنگ نہیں لڑ رہا، میں بیس کروڑ ترستے ہوئے محروم لوگوں کے حقوق کے لیے جنگ کررہا ہوں۔ عوام کی خوشحالی کے لیے، میں ملک میں حقیقی عوامی جمہوریت چاہتا ہوں۔ اِن شاء اللہ جو بھی رکاوٹ ہوا میں اس کے ساتھ لڑوں گا۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے کسی قسم کا کوئی take over نہیں ہوگا۔
آپ کے نالج کے لیے بتا رہا ہوں کہ جو بھی آئے گا وہ اس ایجنڈے پر آئے گا۔ میں بیس کروڑ عوام کے لیے کام کررہا ہوں۔ اِن شاء اللہ! یہی نظام نافذ ہوگا، جس کا اعلان میں عوامی take over سے پہلے کروں گا۔ اس سے انحراف نہیں ہوگا۔
آپ کے خیال میں PPP ،PML-N اور PTI میں کوئی فرق نہیں یا عمران خان ان دونوں سے مختلف ہیں؟
دیکھیے جی! عمران خان صاحب کی ایک نئی پارٹی ہے، وہ الیکشن میں آئی ہے اور KPK میں حکومت بنائی ہے اور یہاں وہ اپوزیشن میں ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی اور ان کے علاوہ کچھ اور جماعتیں تو چالیس سال سے اقتدار میں ہیں۔ وہ تین تین بار پورے ملک کے اوپر قبضہ اقتدار کرچکے ہیں اور اب ان کا مکمل مک مکا ہے۔ یہ میثاق جمہوریت ان کے مک مکا کا agreement تھا۔ پچھلے پانچ سال ن لیگ نے ان کے گزارے، ایک فرینڈلی اپوزیشن کی شکل میں تحفظ دیا، ان کی کرپشن کو، یہ پانچ سال وہ ان کو تحفظ دے رہے ہیں۔ دونوں گھر مل کر الیکشن کمیشن بناتے ہیں، دونوں گھر مل کر ترمیمات کرتے ہیں آئین میں، دونوں گھر مل کر احتساب بیورو کا چیئرمین لگاتے ہیں جس نے ان کی کرپشن کا احتساب کرنا ہے، دونوں اپنی مرضی سے نادرا کے چیئرمین کو نکالتے ہیں، دونوں اپنی مرضی سے پیمرا کے چیئرمین کونکالتے ہیں، گورنر اسٹیٹ بنک کو نکال دیتے ہیں۔ یہ تمام اداروں کو اپنے خاندانی غلام کے طور پر چلانے کے قائل ہیں، دونوں پارٹیاں ایک page پر ہیں۔ ہم اور بیس کروڑ عوام کی سوچ ایک page پر ہے۔ ہم ان شاء اللہ ان تمام طبقات کے خلاف لڑیں گے جو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے ہیں۔
گیارہ مئی یوم اقامت ہوگا۔ میں test کرنا چاہتا ہوں کہ کروڑوں عوام میں سے کتنے لوگ نکلے ہیں۔ اگر میں نے دیکھ لیا کہ عوام تیار ہے تو میں اگلی تاریخ کا اعلان کردوں گا جب میں ان کے اندر ہوں گا۔ اور ایک پرامن، عوامی، جمہوری انقلاب پر end ہوگا کہ دنیا دیکھے گی کہ انقلاب پرامن بھی ہوگا۔
اگر لوگ گیارہ مئی آپ کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے تو؟
میں اس پر آج بات نہیں کرتا۔ آپ بھی اور ہم سب بھی 11 مئی کو دیکھتے ہیں۔ اللہ کرے میڈیا تمام اضلاع کو دکھائے اور صحیح طریقے سے دکھائے۔ میں درخواست کرتا ہوں تمام میڈیا سے، کوئی رعایت اور سہولت نہیں مانگتا، زمین کے حقائق کو صرف دکھایا جائے تاکہ میں بھی دیکھوں اور آپ بھی دیکھیں، قوم بھی دیکھے کہ صرف پاکستان عوامی تحریک کے کارکن اس انقلاب کے لیے باہر نکل رہے ہیں یا عوام بھی ان کے ساتھ ہے، کیوں کہ فیصلے کی طاقت ان کے پاس ہے، فیصلہ عوام کے سمندر نے کرنا ہے۔
آپ اس ملک میں حکمران بنناچاہتے ہیں یا صدر بننا چاہتے ہیں یا وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، اس ملک خلیفہ بننا چاہتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں آپ؟
یہ ٹائٹل سب specific question ہیں، اس کا کوئی جواب نہیں دوں گا۔ مگر میں ان شاء اللہ خود عوام کو اقتدار منتقل کروں گا تو کچھ عرصے کے لیے خود بیٹھ کر وہ تمام نظام کو implement کروں گا پاکستان میں اور عوام کو حقوق منتقل کرنے کی ضمانت مہیا کروں گا۔ ایسا نہیں کہ میں باہر بیٹھ جاؤں یا باہر چلا جاؤں۔ میں اپنے مشن کی تکمیل تک خود بیٹھوں گا۔
تبصرہ