عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا احتجاج (قیوم نظامی - روزنامہ نوائے وقت)

11 مئی 2013ء کو اشرافیہ کے وہ لوگ بھی تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے نکلے تھے انہوں نے کبھی ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا۔ عمران خان کے حامیوں کو پختہ یقین تھا کہ وہ روایتی جماعتوں سے بہت بہتر سیاسی اور جمہوری ماڈل پیش کرینگے۔ انتخابات کے بعد عمران خان نے جس انداز سے تحریک انصاف کو چلایا وہ ہرگز انکے حامیوں کی توقع کیمطابق نہ تھا۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کی موجودگی میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے غنڈہ گردی کی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو اس ’’شرمناک‘‘ واقعہ پر عمران خان کی جواب طلبی کرنا پڑی۔ چیف جسٹس نے نرمی اور برداشت کا مظاہرہ کیا وگرنہ عمران خان کو دوسری بار توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوجاتا۔افسوس عمران خان نے اس واقعہ کی مذمت بھی نہیں کی۔ خدا کیلئے عمران خان اپنے حامیوں کو مایوس نہ کریں انکے پاس تو اور کوئی متبادل لیڈر ہی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی کورکمیٹی کے ایک رکن کے مطابق 11 مئی کو احتجاج کا فیصلہ پارٹی کو متحد رکھنے کیلئے کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی اور صوبائی لیڈر اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی تو ’’برسر ایوان‘‘ اپنے لیڈر میاں نواز شریف کو یاد کرنے لگے ہیں۔ عمران خان غور وفکر کریں کہ پارٹی کے لیڈر ان سے بے زار کیوں ہونے لگتے ہیں۔ معراج محمد خان جیسے نظریاتی اور تجربہ کار سیاستدان آدھے راستے پر ان کو کیوں چھوڑجاتے ہیں۔وہ اگر خود نہیں بدل سکتے تو پاکستان کو کیسے بدلیں گے۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں

تحریک انصاف اگر انتخابی نتائج کے بعد دھاندلی کی تحریک چلاتی تو نگران حکومت کو دوبارہ انتخابات کرانا پڑتے۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما کے مطابق عمران خان کے حادثے نے یہ سنہری موقع گنوا دیا۔ خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے اور ایک سال گزارنے کے بعد دھاندلی کے نام پر تحریک نہیں چلائی جاسکتی۔ اقتدار کے مزے بھی لیں اور احتجاج بھی کریں یہ ممکن نہیں۔ 11مئی کو اسلام آباد میں ایک دن کا شو ہوگا جس سے حکومت اور اسٹیبلشمینٹ کو پیغام مل جائے گا کہ تحریک انصاف آج بھی سیاسی قوت ہے۔کارکنوں کو مڈ ٹرم انتخابات کی خوشخبری سنائی جائے گی تاکہ جڑے رہیں اور تحریک انصاف کے اندر بغاوت کی کوشش کرنے والے بھی اپنا منصوبہ مؤخر کردیں ۔ عمران خان کا سیاسی مستقبل خیبرپختونخواہ سے وابستہ ہوچکا ہے۔ وہ اسے مثالی ماڈل بنانے کی کوشش کریں۔ خیبرپختونخواہ کے صحت، تعلیم اور پولیس کے شعبے پہلے سے بہتر ہوئے ہیں۔ سیاسی معاونت کیلئے کسی موزوں خاتون سے شادی کرلیں تاکہ انکے بارے میں بے بنیاد افواہوں کا سلسلہ رک جائے۔ صاف اور شفاف انتخاب کیلئے انتخابی اصلاحات عوام کے سامنے لائیں اور ان کیلئے اتفاق رائے پیدا کریں۔ اجتماعی قیادت کے اصول پر اپنے اختیارات رفقاء میں تقسیم کردیں اس طرح انکے تنظیمی مسائل کم ہوجائینگے۔ عمران خان یہ خیال دماغ سے نکال دیں کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بننے والے تھے مگر دھاندلی کرکے انکے خواب چکنا چور کردئیے گئے۔ پنجاب سے ان کو کس بنیاد پر کامیابی حاصل ہوسکتی تھی انکے پاس جیتنے والے اُمیدوار ہی نہیں تھے۔ کچھ نشستوں پر دھاندلی ضرور ہوئی ۔ تحریک انصاف یہ نشستیں جیت بھی جاتی تو مسلم لیگ(ن) ا کے باوجود آسانی کے ساتھ صوبے اور مرکز میں حکومت بنا لیتی۔ عمران خان نیک نیت ہیں اور کرپٹ نہیں ہیں یہ خصوصیت آجکل نایاب ہے۔ عوام کی دلی خواہش ہے کہ وہ کامیاب ہوں مگر ان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ:۔

آپ خود اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے واحد سیاسی اور مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے منظم طور پر پاکستان کے عوام کو انقلاب پر آمادہ کیا ہے انکے پرجوش خطابات نے پاکستانی قوم کو موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام سے بے زار کردیا ہے۔ موجودہ نظام میں انکی جماعت پاکستان عوامی تحریک چند نشستیں ہی جیت سکتی ہے کیونکہ ان کے پاس ’’انتخابی گھوڑے‘‘ نہیں ہیں اس لیے انکی زبردست خواہش ہے کہ عوامی طاقت سے موجودہ انتخابی نظام تبدیل کردیا جائے تاکہ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے افراد منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ سکیں تاکہ عوام کو قومی لٹیروں سے نجات مل سکے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے گزشتہ انتخابات سے قبل اسلام آباد میں ہر لحاظ سے تاریخی دھرنا دے کر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عملدرآمد کرانے کی کوشش کی تھی اس سنہری موقع پر اگر عمران خان دھرنے میں شامل ہوجاتے تو آج پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ ڈاکٹر طاہر القادری سابق حکمرانوں کے ٹریپ میں آگئے اور اسلام آباد کا دھرنا نتیجہ خیز نہ ہوسکا البتہ اس دھرنے سے پورے پاکستان میں بیداری کی لہر ضرور پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری آخری اور فیصلہ کن رائونڈ کیلئے موزوں وقت کے انتظار میں ہیں۔ 11 مئی کا احتجاج کارکنوں کا لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ اور اسٹیبلشمینٹ کو یہ پیغام دینا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے اہم لیڈر ہیں جو مثبت اور تعمیری سیاسی کردار ادا کرنے کے اہل ہیں۔تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک دونوں مزاج کے اعتبار سے انقلابی تحریکیں ہیں جو نظام کی تبدیلی میں یقین رکھتی ہیں۔ تحریک انصاف اسی نظام کا حصہ بن کر تبدیلی کا خواب دیکھ رہی ہے جبکہ پاکستان عوامی تحریک آئین کے اندر رہتے ہوئے نظام کو تبدیل کرنے اور سٹیٹس کو توڑنے کی آرزومند ہے۔ یہی آپشن بھٹو شہید نے اختیار کیا تھا مگر اس نظام کے سرپرستوں نے ان کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ابھی تک انقلابی ایجنڈا قوم کو نہیں دیا جس سے اندازہ ہوسکے کہ وہ آئین کے اندر رہتے ہوئے ریاستی نظام کو کس طرح تبدیل کرسکیں گے انکی موجودہ تحریک کو آئین اور قانون کی حکمرانی کی تحریک تو کہاجاسکتا ہے مگر انقلاب نہیں کہا جاسکتا کیونکہ عوامی انقلاب کسی آئین کا پابند نہیں ہوتا بلکہ اپنا آئین نافذ کرتا ہے۔ 11 مئی کا احتجاج ایک دن کا ولولہ اور جوش ہے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری اگر قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو وہ مکمل عوامی انقلاب کیلئے مشترکہ انقلابی ایجنڈے پر متفق ہوجائیں۔ انقلابی لانگ مارچ کے ذریعے پرانا نظام نیست و نابود کرکے نیا نظام نافذ کریں۔ چار سال کی وسیع البنیاد قومی حکومت بنائیں۔ صدر اور وزیراعظم کے منصب تقسیم کرلیں۔ چار سال کے بعد نئے سیاسی اور معاشی نظام کے تحت صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد کریں۔

ذریعہ: http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/10-May-2014/301800

تبصرہ