یہاں ایسا سیاسی نظام رائج ہے جس میں دولت مند ہی سیاست کرسکتا ہے اور غریب و متوسط طبقے کو اپنی روٹی روزی سے فرصت نہیں اور اگر کوئی پرعزم نوجوان سیاست میں طبع آزمائی کی کوشش بھی کرتا ہے تو بہت جلد اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ موجودہ نظام میں اس کے لئے سیاست میں جگہ بنانا ممکن نہیں کیونکہ یہاں سیاست صرف دولت مند طبقے کا کام ہے اور نظام کو اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ مخصوص ٹولے کے علاوہ یہاں کوئی اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتا۔ تحریک استقلال نے 1979ء میں ہی قوم کو متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کا منشور دیا تھا لیکن 33سال تک متناسب نمائندگی کا انتخابی نظام رائج نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے مسائل میں صرف اضافہ ہوا ہے اور مخصوص ٹولہ ہی چہرے بدل بدل کر اقتدار پر قابض رہا ہے۔ سیاست دانوں نے صرف وہ ترقیاتی و توانائی کے منصوبے بنائے جس میں ‘‘بھاری کمیشن’’ مل سکتی تھی اور جن قومی مفاد کے منصوبوں میں کمیشن کا آسرا نہیں تھا انہیں ‘‘قومی اتفاق رائے’’ کے نام پر متنازع بنادیا گیا۔
الیکشن 2013ء سے قبل دسمبر 2012ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ کرپٹ سیاسی نظام کے خاتمے اور انقلاب کے ذریعے نئے نظام کو رائج کرنے کے لئے تحریک کا آغاز کیا جس کے پہلے مرحلے میں انہوں نے الیکشن 2013ء میں امیدواروں کو آئین کے آرٹیکل 62-63 کے معیار پر پرکھنے کے بعد الیکشن کے لئے اہل قرار دینے کا مطالبہ کیا اور الیکشن کمیشن کے قیام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے درست آئینی طریقہ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا جس پر عملدرآمد کے لئے انہوں نے پہلے مرحلے میں اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور حکومت کی تحریری یقین دہانی کے بعد دھرنے کو ختم کیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ان کے ساتھ معاہدے کو ایک کاغذ کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں دی گئی حالانکہ وہ مناسب وقت تھا کہ معاملات کو درست سمت لے جایا جاسکتا تھا۔ اگر الیکشن 2013ء سے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری سے کئے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرلیا جاتا اور آئین پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا تو یقینی طور پر آج حالات مثبت سمت کی جانب رواں دواں ہوتے لیکن اقتدار پر قابض ٹولے نے پرامن طریقے سے نظام کی تبدیلی کا ایک سنہری موقع ضائع کردیا اور پھر 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور الیکشن 2013ء پر نوازلیگ سمیت تمام سیاسی پارٹیوں نے دھاندلی کا الزام لگایا اور برملا طور پر کہاگیا کہ الیکشن 2013ء تاریخ کے بدترین الیکشن تھے۔ ظاہر ہے جب آئین کی مکمل خلاف ورزی کرکے آرٹیکل 62-63 کے معیار پر پورا نہ اترنے والے لوگوں کو انتخابات کے لئے اہل قرار دیا گیا اور خود الیکشن کمیشن آئینی طریقہ کار اختیار کئے بغیر قائم کیا گیا تھا تو اس سے خیر کی کیا توقع کی جاسکتی تھی؟ ایک مخصوص منصوبہ بندی کے تحت نوازلیگ کو جتوایا گیا اور تحریک انصاف و پیپلز پارٹی کو ایک ایک صوبے تک محدود کرکے نوازا گیا۔ الیکشن مئی 2013ء کے دن ملک بھر میں مخصوص ٹولے کی دھاندلی کی ویڈیو تمام الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہوئی اور الیکشن کے اگلے ہی دن تحریک انصاف دھرنوں پر بیٹھ گئی حالانکہ اگر تحریک انصاف الیکشن سے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے میں شرکت کا اعلان کردیتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی اور شفاف انتخابی نظام رائج ہونے سے متوسط طبقے کی حقیقی نمائندگی سامنے آتی اور مسائل تیزی سے حل کی جانب گامزن ہوجاتے۔
میاں نواز شریف نے اپنی گزشتہ 2 حکومتوں کی طرح اس بار بھی حماقت کرتے ہوئے عسکری قیادت سے باقاعدہ ٹکر لی اور باوثوق ذرائع کے مطابق معاملات اب پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکے ہیں اور خدشہ یہی ہے کہ میاں صاحب اپنی پرانی روش سے باز نہیں آئیں گے اور بالآخر کچھ نہ کچھ تو ہونا ہی ہے ۔ سیاسی و عسکری قیادت میں کھینچا تانی کا ماحول جاری ہی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکومت کے خلاف وائٹ پیپر جاری کرنے سے قبل 11 مئی سے نظام کے خلاف تحریک کے آغاز کا اعلان کیا ہوا ہے اور انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ اب کی بار حکومت سے قطعی مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ نظام کے خاتمے تک واپسی نہیں ہوگی۔ ابھی ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی تحریک کے لئے رائے عامہ ہموار کر رہے تھے کہ اچانک عمران خان نے تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا حالانکہ وہ اس سے قبل یہی کہتے تھے کہ ہم جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں اور نظام کے خاتمے کی کسی کوشش کی حمایت و تائید نہیں کریں گے بلکہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی لائیں گے مگر انہوں نے کچھ دن قبل پریس کانفرنس کرکے کہا کہ جب جمہوریت ہے ہی نہیں تو پھر بچانا کس چیز کا؟ لیکن انہوں نے اب بھی نظام کے خاتمے کی تحریک کے بجائے مڈٹرم الیکشن کی تحریک کا اعلان کیا ہے جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے دوٹوک الفاظ میں نظام کے خاتمے کی تحریک کی ہی بات کی ہے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا موقف بالکل درست ہے اور وہ درست سمت میں جارہے ہیں۔ میرے خیال میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا ٹارگٹ ایک ہی ہے لیکن عمران خان اب بھی کھل کر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو بھی چاہئے کہ پہلے وہ اپنی ہم خیال تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورتی میٹنگ طلب کرکے مجوزہ نظام کے بارے میں سب کو اعتماد میں لیں اور عمران خان کو بھی چاہئے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی دعوت پر ان سے ملکر تحریک چلائیں اور یہ دونوں رہنما باہمی مشاورت کے بعد اپنی ہمنوا تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو مشاورت کے لئے طلب کرکے اعتماد میں لیں تو ایسی قومی تحریک جنم لے سکتی ہے جس سے یقینی طور پر نظام تبدیل ہوجائیگا مگر اس تحریک میں دیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ حکومت کی کارکردگی 1 سال میں سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ انہوں نے کیا کچھ کرنا تھا اور اب ان سے امیدیں رکھنا حماقت ہی ہوگی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کو انقلاب کے بعد صدر و وزیراعظم کے اختیارات میں توازن کے لئے بھی آئینی تبدیلیوں کا اعلان کرنا چاہئے کیونکہ موجودہ صدر تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا حالانکہ صدر محترم تو آئین پاکستان کا محافظ ہوتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے آئین کی دھجیاں اڑائے جانے کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ صدر کو مناسب اختیارات لازمی طورپر ملنے چاہئیں ۔ صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہونا چاہئے۔ صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن بہت ضروری ہے۔
ملک میں پہلے بھی تحریکیں چلی ہیں مگر قوم کوایجنڈا نہیں دیا گیا اور ان کا نتیجہ صفر ہی رہا اور عوام اسی فرسودہ نظام کی قید میں رہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری، عمران خان اور ان کی ہمنوا سیاسی جماعتیں ملک کر تحریک سے قبل قومی ایجنڈے کا اعلان کریں اور بالکل واضح الفاظ میں قوم کو بتایا جائے کہ کیا متناسب نمائندگی کے تحت انتخابی نظام رائج کیا جائیگا یا نہیں؟ کیا آئین کے تحت ہر 3 سال میں باقاعدگی کے ساتھ ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوتے رہیں گے یا نہیں؟ کیا کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائیگا یا نہیں؟ کیا آئین میں ترمیم کرکے عام انتخابات ہر 4 سال میں منعقد کئے جائیں گے یا نہیں؟ کیاوفاق میں 4امور خارجہ‘ خزانہ‘ دفاع اور مواصلات رکھ کر باقی تمام امور صوبوں کو دیئے جائیں گے یا نہیں؟ اگر عوام کو واضح ایجنڈا دیا جائیگا تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم سڑکوں پر نہ آئے لیکن پھر ایجنڈے سے انحراف کسی صورت نہیں ہونا چاہئے اور آئینی طور پر حکومت کو اس چیز کا پابند کیا جائے کہ اگرکسی وجہ سے غیر ملکی قرضہ لینا ضروری ہے تو صرف اتنی مدت کیلئے لیا جائے جتنی مدت اس حکومت کی باقی ہے اور وہ حکومت اپنی مدت میں ہی اپنا لیا ہوا قرضہ ہر صورت واپس کرنیکی پابند ہو کیونکہ ہر حکومت لمبی مدت کا قرضہ لیکر قوم کو قرضے کے بوجھ میں چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ جو قرضہ جس منصوبے کے لئے لیا جائے وہ منصوبہ بھی اسی حکومت کی موجودگی میں ہر صورت مکمل ہونا چاہئے۔
11 مئی کا احتجاج کسی ایک سیاسی جماعت کا طبقہ فکر کا احتجاج نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ پوری قوم کی ایسی موثر آواز بن کر تحریک کی شکل اختیار کرے کہ متوسط طبقے کی نمائندگی کی راہ ہموار ہو ۔ موجودہ کرپٹ نظام کے ذریعے اگر کوئی شخص یہ دعوٰی کرتا ہے کہ عوام کے مسائل حل ہونا تو درکنار کمی ہوگی، وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ موجودہ نظام صرف اور صرف دولت مندوں کے تحفظ کیلئے ہے اور عوام کا استحصال کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ موجودہ نظام کسی صورت بھی جمہوریت نہیں۔ اب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب اور عمران خان صاحب پر منحصر ہے کہ وہ کس سمت میں معاملات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ اگر وہ تمام حامی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں تو بہت جلد انقلاب آسکتا ہے اور پھر راج کرے گی خلق خدا۔
تبصرہ