’ساٹھ روپے کلو آلو ہے جو غریب ہی سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اور اگر یہ آلو بیس روپے کلو ہوجائے تو بھی ان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے‘
لاہور کی مال روڈ پر دو نوجوان گلے میں سبزیوں کی مالائیں پہنے پاکستانی عوامی تحریک کے حکومت مخالف احتجاجی جلوس کا حصہ تھے۔
ان نوجوانوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ٹھوکر نیاز بیگ سے تین گھنٹے پیدل چل کر جلسے میں شرکت کے لیے پہنچے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ احتجاج مہنگائی کے خلاف ہے۔
علی شیر کا کہنا ہے کہ وہ سبزی کی ریڑھی لگاتے ہیں جس سے ماہانہ سات سے آٹھ ہزار روپے آمدنی ہوتی ہے۔ ’اس سے گھر کا کرایہ، بجلی، پانی اور گیس کے بل ادا کرتے ہیں۔ ان ادائیگیوں کے بعد ان کے حصے میں کچھ نہیں بچتا ہے اور مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ساٹھ روپے کلو آلو ہے جو غریب ہی سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اور اگر یہ آلو بیس روپے کلو ہوجائے تو بھی ان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ماہ آلو کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لے کر آلو کی درآمد پر سے ڈیوٹی ختم کردی تھی لیکن تاحال اس کی قیمت نیچے نہیں آسکی۔
بقول علی شیر کے ان کا طاہر القادری سے کوئی تعلق نہیں وہ یہاں صرف مہنگائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے آئے ہیں۔
اس احتجاج کا مقصد انتخابی اصلاحات اور نظام کی تبدیلی بتایا گیا تھا۔ اسی نوعیت کے مال روڈ پر بینر اور پوسٹر بھی آویزاں تھے جبکہ ’انقلاب ساتھیو، انقلاب ساتھیو‘ کے سیاسی ترانے بھی بجائے جا رہے تھے۔
چہرے پر عوامی تحریک کے جھنڈے پینٹ کیے ہوئے لڑکی سے میں نے پوچھا کہ کیا ایک سیاستدان نظام تبدیل کرسکتا ہے تو وہ پراعتماد تھیں کہ یہ ممکن ہے اور طاہرالقادری یہ کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس متبادل نظام موجود ہے لیکن وہ کیا ہے اس سے یہ نوجوان لڑکی آگاہ نہیں تھی۔
فٹ پاتھ پر پاکستان عوامی تحریک کا ایک بڑا سا جھنڈا لے کر ایک بزرگ خاتون چلتی رہیں۔ وہ کینٹ سے جلسے میں آئی تھیں اور انہیں یہ جھنڈا جلسے گاہ میں ہی دیا گیا تھا۔
آسیہ نامی اس خاتون نے بھی مہنگائی کی ہی شکایت کی: ’حکمرانوں نے گیس، بجلی ہر چیز بند کی ہوئی ہے۔ اتنی تنخواہیں نہیں ہیں جتنی مہنگائی ہے۔ ہم نے ناخن لگا کر ان کے گلوں کو دبانا ہے۔ ہماری جوان بچیاں بیٹھی ہیں لیکن ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں جبکہ حکمرانوں نے بینک بھرے ہوئے ہیں۔‘
اس ریلی میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شریک تھیں جنہوں نے مختلف رنگوں کے عبایا، برقعے اور سکارف پہن رکھے تھے۔ سڑک کی ایک طرف خواتین اور دوسری طرف مرد شرکا چلتے رہے اور دونوں میں فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے ڈنڈوں سے مسلح نوجوانوں کا گروہ بھی آگے اور پیچھے موجود رہا۔ سکیورٹی پر مامور نوجوانوں نے بتایا کہ یہ ڈنڈے انہیں مرکز کی طرف سے فراہم کیے گئے ہیں۔
معاذ حسن نامی نوجوان کا کہنا تھا کہ اس فرسودہ نظام کے اندر بیٹھ کر کچھ لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ خود اس کا حصہ ہیں: ’اس تبدیلی کے لیے اس نظام سے باہر آنا ہوگا جس طرح ٹوٹے ہوئے گھر کے اندر رہ کر اس کی جنگ نہیں لڑی جاسکتی ہے اس کو گرانے کے لیے باہر آنا پڑتا ہے۔‘
لاہور اور آس پاس کے شہروں میں عوامی تحریک کے شعبے منہاج القران کے زیر انتظام بڑی تعداد میں سکول اور کالج موجود ہیں، جن کے طلبہ اور اساتذہ بھی اس جلسے میں نظر آئے۔
بعض شرکا خواتین نے معصوم بچوں کو بھی اٹھا رکھا تھا۔ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’یہ بتانا چاہتے ہیں ان بچوں کا مستقبل اندھیرے میں جھونک دیا گیا ہے جس کی ذمے دار حکومتیں اور نظام ہے۔‘ بقول ان کے وہ آج کا دن یوم سیاہ کے طور پر منایا جارہا ہے۔
سڑک کے کنارے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان شہزاد غازی آباد سے آئے تھے۔ میرے سوال کا پنجابی میں جواب دیتے ہوئے کہا ’اسّی ویلے آں، ایس لئی اتھے بھہہ رہے آں ، جے روزگار ہوئے تے کون اتھے پاگلاں طرح پھرے۔ (میں فارغ ہوں اسی لیے میں یہاں بیٹھا ہوں۔ اگر روزگار ہو تو کون پاگلوں کی طرح یہاں آئے گا۔)
پنجاب حکومت نے اس ریلی سے پہلے سخت بیانات جاری کیے لیکن عملی طور پر کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آئی۔ ایک مقام پر بعض نوجوانوں نے شہباز شریف کی تصویر والے بینر کو بجلی کے پول سے اتار کر نیچے پھینک دیا لیکن عوامی تحریک کے رضاکاروں نے ان سے لاتعلقی ظاہر کی اور کہا کہ ان کی قیادت نے اس کی تعلیم نہیں دی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/05/140511_lahore_pat_protest_rh.shtml
تبصرہ