اسلام آباد: پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق حکومت اور نظام کا خاتمہ واجب ہوچکا ہے، عوامی تحریک جمہوریت کو ڈی ریل نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔
نظام کی تبدیلی کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین سے ملک کے مختلف شہروں میں کینیڈا سے ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کاکہنا تھا کہ پاکستان کی از سر نو تعمیر کا وقت آچکا ہے اگر موجودہ حکمران مزید ایوانوں میں رہے تو لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے لیکن ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں، اس نظام کو جمہوریت نہیں کہتے جہاں غربت ہو، لوگ بھوکے سوتے ہوں اور مائیں اپنے بچوں کو فروخت کرتی ہوں، جمہوریت میں تمام طبقات کو برابری کے حقوق دیےجاتے ہیں اور کرپٹ عناصر کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔
سربراہ پاکستان عوامی تحریک کا کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے کہ جو شہری وسائل نہیں رکھتے انہیں روزگار، تعلیم ،علاج، انصاف اور گھر دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن عوام کو کہیں کچھ نہیں مل رہا جبکہ ملک میں چند خاندانوں کا قبضہ ہے، جو حکومت آئین و قانون پر عملدرآمد نہیں کرسکتی تو وہ کس طرح موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ 42 سال مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی نے ملک میں حکومت کی لیکن عوام کو کچھ نہیں ملا، ہم پاکستانی عوام کو سیاسی آمریت سے نجات دلانا چاہتے ہیں،استحصالی نظام کے خاتمے کےلیے ایک سال کا وقت دیا تھا لیکن جلد فائنل کال دوں گا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ 14 سال سے کم بچوں کو تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن حال یہ ہے کہ سب سے کم تعلیم یافتہ 10 ممالک میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے اورنائجیریا، اتھوپیا اور کینیا جیسے ملک بھی پاکستان سے بہتر ہیں، انہوں نے کہا کہ کورین وزیراعظم کشتی حادثے میں ہلاکتوں کے باعث عہدے سے مستعفی ہوگئے لیکن یہاں ہر روز آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور روزانہ لاشیں گرتی ہیں لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی، اسی طرح ملک میں آرٹیکل 11، آرٹیکل 38 اور 62 ،63 کی سنگین خلاف ورزی ہورہی ہے اس کے باوجود حکومت قائم ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ہم پاکستان میں ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیں گے اور ملک میں 30 سے 35 صوبے بنائیں گے اور ان صوبوں میں 150 ضلعی حکومتیں قائم کریں گے، موجود حکومت سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔
http://www.express.pk/story/253284/
تبصرہ