پاکستان جو بیک وقت ترقی یافتہ ایٹمی طاقت، ترقی پذیر صنعتی، زراعتی اور تجارتی مرکز، پس ماندہ جاگیرداری نظام میں جکڑا ہوا، لارا لپا جمہوریت کی امی، سالم ملک لیکن آدھا پاکستان، تضادات کی زنبیل، مناقشاف (ملکی، نسلی، لسانی وغیرہ) کی پوٹلی، کو افغانستان سے جو پس ماندہ اور قبائلی نظام کا حامل ہے دو باتوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ A۔ حب الوطنی۔ B۔3D (دھن، دھونس، دھاندلی) ٹیکنالوجی سے پاک آزادانہ، منصفانہ انتخابات کس چڑیا کا نام ہے؟ یاد رہے میں بھارت کی مثال نہیں دے رہا ہوں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہے میں افغانستان کی بات کر رہا ہوں جس کو دنیا پس ماندہ ملک کہتی ہے۔
A۔ نسلاً جنگجو اصلاً خانہ جنگی کے رسیا افغان بیرونی حملہ آور کے خلاف اپنے وطن کے دفاع کے لیے اپنے ذاتی خاندانی قبائلی جھگڑے الگ رکھ کر فوری ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے جب تک کہ اسے عبرت ناک شکست نہیں دیتے۔ B۔ مغربی پاکستان کے جاگیرداروں نے اپنی جاگیریں بچانے کے لیے آدھے پاکستان (مشرقی) کو کاٹ کر علیحدہ کر دیا۔ کیونکہ وہاں 1950 میں ایسٹ بنگال اسٹیٹ ریکوی زیشن اینڈ ٹیننسی (Tenancy) ایکٹ متعارف ہوا۔ جس کے نتیجے میں زمیندار اشرافیہ حقیقی معنوں میں کالعدم ہو گئی۔ زمین کی ملکیت کی حد فرد کے لیے 3.3 ایکڑ اور خاندان کے لیے 33.3 ایکڑ (جو بھی کم ہی تھی ہوئی۔) خدشہ تھا کہ اگر اکثریت کی بنیاد پر مجیب الرحمن کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا جاتا تو مغربی پاکستان کے جاگیردار سب سے زیادہ گھاٹے میں رہتے۔
C۔ ساری دنیا میں جمہوریت کا طے شدہ اور تسلیم شدہ اصول یہ ہے کہ کامیابی کے لیے 100 (سو) ووٹوں کی اکثریت 51 (اکیاون) ووٹ مانی جاتی ہے۔ افغانستان جیسے پس ماندہ قبائلی نظام کے حامل ملک میں صدارتی انتخابات اسی اصول کے تحت ہوئے، پہلے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ نے 44.9 اور ڈاکٹر اشرف غنی نے 31.5 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ (باقی صدارتی امیدوار اس سے بھی کم) چنانچہ اب پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں میں مقابلہ ہو گا، ڈالے گئے ووٹوں کا 51 فیصد حاصل کرنے کے لیے۔
D۔ اس کے برخلاف پاکستان میں 60 فیصد ووٹر ووٹ ڈالنے کے لیے آتے ہی نہیں کیونکہ وہ انتخابات کو وقت کا ضیاع اور اربوں روپے کی عیاشی سمجھتے ہیں چونکہ سب کو پتہ ہے پچھلی باری PPP کی تھی اب (ن) لیگ اپنی باری لے رہی ہے۔ آیندہ الیکشن جیتنے کا PPP کا نمبر ہو گا۔ یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ چاہے جاگیردار مرے یا اس کا بیٹا مرے میراثی کا بیٹا کبھی جاگیردار بن ہی نہیں سکتا۔ اب بچے چالیس فیصد ووٹ جو ڈالے جاتے ہیں۔
دس امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور دس امیدواروں میں سے جس امیدوار کے ووٹ باقی نو امیدواروں سے زیادہ ہوتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتا ہے یعنی VVIP۔ اس کی آسان مثال یوں ہے کہ فرض کریں 40 ووٹ ڈالے گئے 10 امیدواروں میں سے 8 امیدواروں نے چار چار ووٹ لیے۔ نویں امیدوار نے 3 ووٹ حاصل کیے اور دسواں امیدوار 5 ووٹ حاصل کر سکا۔ پاکستان میں 5 ووٹ لینے والا جیت جائے گا جو ڈالے گئے ووٹوں کا صرف 12.5 فیصد ہے حالانکہ ڈالے گئے 40 ووٹوں کا بھی 51 فیصد 20.4 ووٹ بنتا ہے۔
اصولاً تو ایسے انتخابات کو کالعدم قرار دینا چاہیے اور یہ امیدواروں کی ذمے داری ہے کہ ٹرن آؤٹ کسی طرح 75 فیصد سے کم نہ ہو۔ (افغانستان کا ٹرن آؤٹ 58 فیصد ہو سکتا ہے تو پاکستان کا 75 فیصد کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس کے لیے امیدوار کو گھر گھر جانا پڑے گا۔ ووٹر کو پچھلے منشور کا حساب دینا پڑے گا کہ اس نے کتنے وعدے کیے تھے اور کتنے پورے کیے۔
A۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ’’امت اوسط‘‘ نہیں رہے بلکہ افراط و تفریط کا شکار قوم بن گئے۔ آصف علی زرداری ایک حادثے کے نتیجے میں سیاست میں وارد ہوئے۔ انھوں نے ثقہ سیاستدانوں کے درمیان سے پھسل کر وقت کے سب سے بڑے عہدہ صدارت کا حلف اٹھایا، پچھلے صدر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا خود کرسی صدارت پر براجمان ہو گئے۔ پہلے اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کر دیے۔ خود عدالت صدارت اور سوئس کیس تک محدود ہو گئے۔ جب وہ ایوان صدر میں ہوتے تو پیشین گوئیاں کی جاتیں کہ پھنس گئے۔ جب ملک سے باہر ہوتے تو شرطیں لگتیں اب واپس نہیں آئیں گے فرار ہو گئے۔
آج اپنی مفاہمتی سیاسی کی وجہ سے کلفٹن کے ساحل پر تھکن اتار رہے ہیں۔ B۔ میاں نواز شریف جب تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے انھوں نے کہا میں نے ماضی سے سبق حاصل کیا ہے اب میں بدل گیا ہوں۔ ان کا مطلب تھا کل میں میاں نواز شریف تھا اور آج میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم نواز شریف بن گیا ہوں (چھوڑوں گا ایک کو بھی نہیں) نتیجہ؟ کامیاب جمہوریت پارٹ II کی پہلی سالگرہ سڑکوں اور چوراہوں پر منائی جا رہی ہے۔ C۔ قوم طاہر القادری کو آج پھر Under Estimate کر رہی ہے۔ 11 مئی اتوار کا میلا صرف موصوف کی کارکردگی کا ثبوت ہے۔ پچھلے الیکشن سے کچھ پہلے آ کر آئین کے آرٹیکلز 62، 63 کے طلسمی ماترے کے قطرے پوری قوم کے حلق میں ٹپکا کر گئے تھے اور کہہ گئے تھے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کرو ورنہ Status Quo برقرار رہے گا۔
اس وقت ان کے خیالات تھے ثبوت نہیں تھے ارشادات تھے شہادت نہیں تھی۔ ایک سال بعد ہی چلتا پھرتا، چیختا چلاتا ثبوت سونامی خان ڈی چوک پر ایک متاثر کن مجمع کے آگے دھاندلی کے ثبوت بھی دے رہا تھا اور شہادت بھی۔ جب کہ (ن) لیگ کی ٹیم اس سنجیدہ مسئلے کا جس انداز سے جواب دے رہی تھی چند جملے ملاحظہ کیجیے۔ 1۔ بال ٹمپرنگ نہیں چلے گی۔ 2۔ عمران خان کوارٹر فائنل کھیلے بغیر فائنل کھیلنا چاہتے ہیں۔3۔ کیونکہ ان کو وزارت عظمیٰ نہیں ملی اس قوم پر غصہ اتار رہے ہیں۔ 4۔ ان کے ساتھ سیاست کی ممیاں نہیں۔ 5۔ 23 مئی کو سونامی فیصل آباد جاتے جاتے 20/15 ہزار رہ جائے گا کیونکہ وہ تھک چکا ہے بیمار ہو چکا ہے اور بوڑھا ہو چکا ہے وغیرہ۔
ایک طرف تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے درمیان ٹاکرہ ہو رہا تھا دوسری طرف (دور بیٹھے) طاہر القادری نہایت اطمینان اور سکون سے قوم کے آگے آئین پاکستان سے چھانٹ چھانٹ کر ایسے آرٹیکلز پیش کر رہے تھے جس سے پتہ چلتا تھا کہ ٹیکس لینے والے ٹیکس دینے والوں کو تعلیم، صحت، روزگار اور امن و امان کے تعلق سے کیا کیا سہولتیں دینے کے پابند ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے یہ تمام آرٹیکلز کو سوکھے گلابوں کی طرح ٹیکس لوٹنے والوں نے قانون کی گرد آلود کتابوں میں (63,62 کی طرح) دفن کر دیا ہے۔ چنانچہ اب نظام بدلنا واجب ہو گیا ہے انھوں نے تفصیل سے 35 صوبوں، ضلعوں، ڈویژنوں کا مکمل ریاستی ڈھانچہ سمجھایا، مالی وسائل پر روشنی ڈالی، انقلابی اقدامات کی تفصیل بتائی اور عنقریب انقلاب کی کال دینے کی خوش خبری سنائی۔
یہ مئی کا مہینہ ہے عوام کو گھروں سے باہر نکلنے کی درخواست کرنی پڑی۔ لوڈشیڈنگ کے مارے عوام ملکہ کوہسار کوہ مری پر نہیں بلکہ سڑکوں پر ہی ملتے ہیں۔ جن کی کھوپڑیوں کے اندر کا دھواں کانوں کی چمنیوں سے نکل رہا ہوتا ہے۔ آنکھوں سے شعلے ٹپکتے ہیں اور منہ سے بھاپ نکلتی ہے ایسے میں وہ گندم جو گوداموں میں پڑی سڑ رہی ہے نئی فصل کے لیے بار دانہ نہیں ملتا، مارکیٹ میں لائیں تا کہ آٹے کے دام نہ صرف گریں بلکہ اوندھے منہ گریں ورنہ حکومت کا آٹا گیلا ہو سکتا ہے ۔ برا وقت اجازت لے کر نہیں آتا۔ موٹر وے، میٹرو بس، سڑکیں بجلی کے منصوبے نہایت ضروری اور قابل ستائش، لیکن اس سے بھی پہلے بھوکے عوام کو (بار بار کہتے ہوئے شرم آتی ہے) وہ چیز چاہیے جس کو دال میں ڈبو کر کھاتے ہیں۔
ذرائع: روزنامہ ایکسپریس
تبصرہ