سرزمین پاکستان کے بیشتر علاقے آج کل جس قدر شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اسی قدر دہشت گردی کے واقعات اور سیاسی حالات میں بھی شدت آرہی ہے۔ ایک طرف سورج صبح سے شام تک نہتے لوگوں پر آگ برسارہا ہے اور دوسری طرف مہنگائی کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ زندگی کی بوجھل گاڑی کو دشوار گزار راستوں پر دھکیلنے پر مجبور ہیں۔ گرمی جتنی بھی شدت اختیار کرلے اسے تو لوگ موسمی مجبوری سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں مگر جب ایک ہی بستی میں غریب پانی، بجلی، علاج اور تعلیم کی سہولت سے محروم ہو اوردوسری طرف کشادہ محلات میں عشرت کدے آباد ہوں تو یہ موسمی شدت، مزاج میں بغاوت اور انتقام کے شعلے بھی بھڑکادیتی ہے۔ یہ طبقاتی تضاد اکثر اوقات سماجی تضادات کی خوفناک صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اور لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر انتقامی کاروائیاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ صورت حال صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کے تمام ممالک میں پائی جاتی ہے خصوصاً بھارت، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک اس معاشرتی تضاد کی بھیانک تصاویر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ موسمی شدت کے بعد ہمارے ہاں دوسری بڑی ’’گرمی‘‘ سیاست میں نظر آرہی ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں نے حکومت کی ایک سالہ مایوس کن کارکردگی پر سیخ پا ہوکر سڑکوں پر آنے اور حکومت کی ’’چھُٹی‘‘ کروانے کے مشکل پروگرام کو حتمی شکل دینا شروع کردی ہے۔ مشکل اس لئے کہ حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہی سہی اور انتخابی دھاندلیاں بھی بجا مگر حکومت کے پاس عوامی مینڈیٹ کا اخلاقی جواز بہر حال موجود ہے۔
ثانیاً نواز حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کئی بڑے منصوبوں پر کام شروع کرچکی ہے اور میڈیا حکومتی سرمائے سے شائع ہونے والے اشتہارات کے ذریعے عوام کو حکومتی کارناموں سے آگاہ بھی کررہا ہے۔ بہر حال مقابلہ جاری ہے اور عمران خان کے سونامی سمیت ڈاکٹر طاہرالقادری اور انکے انقلابی کارکنان کا غیظ و غضب بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ گذشتہ 11 مئی سے سے شروع ہونیوالے یہ احتجاجی جلسے ریلیاں اور سونامیاں عوام کا لہو گرمارہی ہیں۔ عمران خان، جاوید ہاشمی اور سیاسی مفتی شیخ رشید کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کی مدلل شعلہ بیانیوں نے عوام کے غصے کو کئی گنا بھڑکا دیا ہے۔ ادھر ق لیگ کا درماندہ قافلہ بھی از سر نو پرفشاں نظر آرہا ہے۔ چوہدری برادران نے لندن جاکر عوامی تحریک کے سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ نہ صرف احتجاج میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا بلکہ باقاعدہ تحریری معاہدے کے تحت حکومت مخالف فضاؤں میں طوفان بپا کرنے کا عزم کیا۔ مگر ان احتجاجی سرگرمیوں کی مؤثریت میں فیصلہ کن مرحلہ اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک PTI ،PAT اور ق لیگ ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوجاتے‘ البتہ اسلام آباد ڈی چوک سے شروع ہونے والی تازہ سونامی کی لہریں فیصل آباد کے بعد سیالکوٹ میں بپھری ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ عمران خان نے بہاولپور میں سونامی کے اگلے پڑاؤ کا اعلان کردیا ہے۔ سیالکوٹ کے لوگوں نے شدید گرمی میں جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اسے دیکھ کر حکومتی حلقے گھبرا گئے ہیں اسی لئے رانا ثناء اللہ یا خواجہ آصف نے اسے ’’جلسی‘‘ قرار دینے کی جرات نہیں کی۔ PTI کی مقبولیت میں عوامی مسائل اضافہ کررہے ہیں، اب بہاولپور میں جنوبی پنجاب کے باسیوں کے جذبوں کا امتحان ہوگا کہ وہ گرمی کی شدت میں کس قدر موثر احتجاجی شدت کا مظاہرہ کرپاتے ہیں؟ اکثر تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ عمران کے اس سونامی نے 1973ء کا زمانہ یاد دلادیا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کی طوفانی سیاست عروج پر تھی اور عوامی سمندر ہر جگہ اس سے اظہار یکجہتی کررہا تھا۔
وطن عزیز میں شدت کا تیسرا محاذ دہشت گردوں نے گرم کیا ہوا ہے۔ ’’کے پی کے‘‘ سے لیکر ایران پاکستان بارڈر تفتان تک اور افغان سرحد سے لیکر کراچی ایئر پورٹ پر حملوں تک ایک شدید مزاحمتی لہر ہے جس نے سر اٹھالیا ہے۔ یہ ایک نہایت منظم اور تباہ کن حملہ تھا۔ حملہ آور دہشت گرد اگر اپنی کاروائیوں میں پوری طرح کامیاب ہوجاتے تو یہ اب تک کے تمام واقعات میں سب سے سنگین واقعہ قرار پاچکا ہوتا‘ اس لئے کہ ان کا ہدف بہت خطرناک تھا وہ اگر تیل کے ڈپو میں خدانخواستہ آگ بھڑکانے کے منصوبے میں کامیاب ہوجاتے تو تباہی کا سلسلہ غیر متناہی ہوجاتا۔ کیونکہ PIA سمیت کئی غیر ملکی ایئر لائنز کے طیارے بھی اپنے اپنے ٹرمینلز پر موجود تھے۔ علاوہ ازیں ہزاروں اہلکار اور مسافر بھی انکے نشانے پر تھے۔ خدانخواستہ سیکیورٹی اہلکار اور پولیس والوں سے معمولی سستی کا مظاہرہ بھی ہوجاتا تو کئی طیارے تباہ ہوجاتے جن سے بے پناہ مالی نقصان کے ساتھ عالمی سطح پر پاکستانی تاثر تباہ ہوجاتا۔ اس کا فوری اثر یہ ہوتا کہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی آمدورفت کا سلسلہ ختم ہوجاتا۔ یہ تو بھلا ہو ان جانثاروں کا جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر وطن عزیز کے ایک اہم ترین اور حساس پوائنٹ کو آگ کے شعلوں سے بھی بچالیا اور بدنامی کی دلدل میں گرنے سے بھی حتی المقدور محفوظ رکھا۔ اسی نوعیت کا ایک خطرناک حملہ 2011ء میں کراچی کے مہران نیول ایئر بیس پر بھی ہوچکا ہے جس میں نہایت قیمتی دو جہاز اور کئی جانیں ضائع ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ نے کراچی کے ہوائی اڈے کو بڑی تباہی سے بچاکر پاکستان کی عزت رکھ لی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ ازبک نوجوان کراچی جیسے حساس شہر میں کیسے داخل ہوئے، کہاں رہتے رہے اور انہوں نے کیسے اتنا خطرناک منصوبہ بنایا؟ کیا یہ اکیلے ہی اس کاروائی میں ملوث تھے یا انہیں مقامی اور داخلی سپورٹ بھی میسر تھی؟ ان سے ملنے والا اسلحہ اگر بھارت سے بن کر آیا تھا تو پاکستان کے دفتر خارجہ سمیت سیاستدان ابھی تک اس ملک کیساتھ امن کی آشا کو کیوں پروان چڑھا رہے ہیں؟ انہیں اب تک مذمتی بیان تو دینا چاہئے تھا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بمبئی حملوں میں ملوث اجمل قصاب زندہ پکڑ لیا گیا اور پھر اسے پھانسی بھی ہوگئی مگر اب تک بھارت اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتا آرہا ہے لیکن پاکستان میں بمبئی حملے سے بڑے بڑے سینکڑوں حملے ہوچکے ہیں جن میں بھارتی اسلحہ برآمد ہوا ہے لیکن حکومت کو آج تک بھارتی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کا حوصلہ نہیں ہوا۔ بہر کیف پاکستان کی سلامتی پر ہونیوالے یہ حملے نہایت خطرناک ہیں۔ اس نازک موقع پر ملک کے تمام سیاستدانوں اور حکومتی اداروں کو سرجوڑ کر وطن عزیز کے دفاع کی فکر کرنی چاہئے۔ یہ ملک ہوگا تو اقتدار کی چھینا جھپٹی کا جواز بھی ہوگا۔ حالات و واقعات کی یہ شدت پاکستان کی سیاسی عسکری اور دینی قیادت کا امتحان ہے۔ خدا کرے اس امتحان میں یہ لوگ کامیاب ہوجائیں۔
ذرائع: رونامہ نوائے وقت
تبصرہ