مجھے آج بمبئی حملے کی وہ فوٹیج ذہن میں آ رہی ہے جس کو بنیاد بنا کر بھارت نے عالمی سطح پر ہمارا ناطقہ بند کیا ہوا ہے مگر اس سے پہلے کیوں نہ پیمرا کے متناظر فیصلے کا ذکر ہو جائے جس نے ملک کے 20 کروڑ شہریوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہماری قابل فخر فوج اور عظمتوں کا نشان آئی ایس آئی جس پر ایک ٹی وی اینکر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد ایک عالمی سازش کے تحت کردار کشی مہم شروع کی گئی تھی اور جس کے ردعمل میں پچھلے 50 دنوں سے پوری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور پھر اسی نجی چینل کی طرف سے صحابہ رضی اللہ عنہم و اہل بیت کی توہین کی جو جسارت کی گئی اس نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانوں اور عاشقوں کو لرزا کر رکھ دیا۔ پھر جب عسکری قیادت کے دباؤ پر چاروناچار وزیر دفاع نے پیمرا کے سرکاری اور غیر سرکاری اراکین میں پھوٹ ڈال کر اس ادارے کا غیر قانونی طور پر ایک ایسے شخص کو چیئرمین لگا دیا گیا کہ جس کی ساری عمر کی سروس کارکردگی یہ ہے کہ وہ رائے ونڈ والوں کا ذاتی ملازم متصور کیا جاتا ہے ۔ اپنی تعیناتی کے چند گھنٹوں بعد پیمرا کے پرائیویٹ اراکین کو نظرانداز کرکے سرکاری اراکین کو بلوا کر ایک مضحکہ خیز فیصلہ نشر کروا دیا جاتا ہے کہ پاک فوج اور اسلامی دنیا کی عظیم انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے پر ’’جیونیوز‘‘ کو ایک کروڑ جرمانہ اور پندرہ دن کی بندش کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ خود جیو نے افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف 50ارب روپے کا ہرجانہ دائر کر رکھا ہے۔ پیمرا کے فیصلے نے جہاں پوری قوم کو ششدر کرکر رکھ دیا ہے وہیں اور دشمنانِ پاکستان کو یہ ترغیب دی ہے کہ ان کا جب دل چاہے وہ ہماری پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرے، تہمت لگائیں اور عالمی سطح پر بدنام کریں تو اس سب پیکج کی سزا یا جرمانہ صرف ایک کروڑ روپیہ اور چند دنوں کی بندش ہو گی۔ قومی اداروں پی آئی اے، سٹیل مل اور ریلوے کی نیشنلائزکرنے کا پلان بنانے والوں نے قومی اداروں کی ساکھ کی قیمت بھی مقرر کر دی ہے۔ دشمنانِ پاکستان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اس دھماکہ خیز آفر اور لوٹ سیل سے فائدہ اٹھا لیں کیونکہ یہ آفر محدود مدت کے لیے جس دن پاک فوج کے سپہ سالار اور قوم بیدار ہو گئی اس دن ایسی لوٹ سیل لگانے والوں کی نہ صرف شامت آ جائے گی بلکہ آئندہ کسی کو ایسی مذموم حرکت کرنے کی جسارت بھی نہ ہو گی۔
قارئین! میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں کہ ٹی وی پر یہ بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئی کہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ یہ دہشت گرد اس سے پہلے جی ایچ کیو، مہران نیوی بیس، اور کامرہ ایئربیس سمیت تمام حساس دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا چکے ہیں لیکن حکمران وقت دہشت گردوں سے مذاکرات کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ آج بھی سروے کروا کر دیکھ لیا جائے تو 2 فیصد سے بھی کم افراد مذاکرات کے حق میں ووٹ دیں گے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا ازلی دشمن جہاں یہ بی جے پی اقتدار میں آئی یہ اور نریندر مودی کے حلف اٹھاتے ہی ہمارے افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر شورش شدت پکڑ گئی ہے۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ اور دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا بھارتی اسلحہ کیا ہمارے سوئے ہوئے حکمرانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں؟ بھارت نے بمبئی حملوں کے اجمل قصاب کے نام نہاد قصے کو جیو کی مدد سے پروان چڑھاکر ہمیں دنیا بھر میں رسوا کیا تھا جبکہ پاکستان کی سالمیت پر بھارتی حملہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ پہلے پاکستان سے کرکٹ سمیت تمام کھیلوں کے ایونٹس متاثر ہوئے اور اب پاکستان میں غیر ملکی ایئر لائنز کے آنے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی چونکہ اس سازش کے محرکات کا فائدہ بھارت اور متحدہ عرب امارات کو ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی تفتیش کرنے سے پہلے بھارت اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر لینی چاہئیں۔ پاکستان کے غیور مگر سوئے ہوئے عوام کو اب خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری نے وطن واپسی اور انقلاب کا اعلان کر دیا ہے لیکن اگر پاکستان کے 20کروڑ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب اور اس کے ثمرات انہیں تھالی میں رکھ کر پیش کر دیئے جائیں گے تو یہ ان کی بڑی بھول ہوگی۔انقلاب نہ تو فاسٹ فوڈ ہوتا ہے اور نہ ہی من و سلوی اور نہ ہی یہ ریڈی میڈ ہوتاہے۔انقلاب ہمیشہ قربانیاں، خون، محنت اور ہمت مانگتا ہے۔ آپ انقلابِ فرانس، انقلابِ روس، انقلاب ایران اور جنگِ آزادی برصغیر کو دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ انقلاب اپنے گھروں میں ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ کر یا محلے کی ’’برگد‘‘ کے نیچے بیٹھے تاش کھیلتے ہوئے یا اپنے خاندان میں بیٹھ کر فقط سیاسی بحث و مباحثے سے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے تو اب پیچھے نہ ہٹنے والا قدم اٹھانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ انقلاب کے رستے میں اگر مجھے جان بھی دینی پڑ گئی تو میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے پاکستانیوں کے لیے یہ سودا پڑا سستا حاصل کر لیا ہے۔ میں نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے کہا کہ 12 جون کو فٹ بال ورلڈ کپ شروع ہو رہا ہے جو پورا ایک مہینہ رہے گا اور اسی دوران رمضان المبارک کے روزے شروع اور سخت گرمی کے ایام ہوں گے تو کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ قوم اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے باہر نکلے گی؟ تو ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں نے تو طبلِ جنگ بجا دیا ہے اب قوم کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہوگی تو انہیں بھی یہ سخت جان او رمشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔
ذرائع: روزنامہ نوائے وقت
تبصرہ