ابھی تو علامہ طاہر القادری نے پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے ابھی تو وہ آئے نہیں اور پنجاب پولیس نے لاہور میں لہولہان منظرنامہ پیش کر دیا اب تو انہیں ضرور آنا پڑے گا۔ وہ آئیں گے اور ان کے آنے سے پہلے ایسی قتل وغارت اور خونی سیاست کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ کیا یہ صورتحال حکومت کے لئے مناسب ہے جسے جمہوریت کہا جاتا ہے یہ محاذ آرائی کیا ہے۔ میرے خیال میں سرکاری سیاست دانوں نے یہ نہیں چاہا ہو گا تو پھر اس سازش کے پیچھے کون ہے اگر پولیس والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا تو معاملہ زیادہ سنجیدہ ہو جائے گا۔ برادرم رانا ثناءاللہ اس موقع پر تو بیان دینے میں احتیاط کریں۔ وہ سیاسی مخالفوں کو دشمنوں کی طرح سمجھ کر بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں شہر میں نوگو ایریا نہیں بننے دیں گے۔ بیرئیرز کو اٹھانے کا معاملہ تھا تو یہ کئی مہینوں بلکہ برسوں سے یہاں موجود ہیں۔ نہ انتظامیہ کو خیال آیا نہ پولیس کو۔ اس موقع پر ہنگامہ کیوں ضروری تھا۔ ان لوگوں سے مذاکرات کئے جاتے۔ طالبان سے تو مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ پرویز رشید اب تک مذاکرات کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ منہاج سیکرٹریٹ کے لئے رکاوٹوں سے پولیس کو کیا تکلیف تھی۔ پولیس نے اپنی نگرانی میں یہ بیرئیر لگوائے تھے۔ وہ خود سڑکوں پر بیرسٹر لگاتے خلق خدا کو ذلیل کرتے ہیں۔ عورتوں کو بھی معاف نہیں کرتے۔ وہ دہشت گردی تو نہیں روک سکے ان کے ناکوں سے گزر کر وہ اپنا ٹارگٹ حاصل کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے سی سی پی او کے دفتر کے سامنے آدھی سڑک پر رکاوٹیں نظر نہیں آتیں۔ سامنے نوائے وقت کا دفتر تھا اور لوگوں نے ہم سے شکایت کی۔ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا مگر سی سی پی او پرویز راٹھور نے پرواہ نہ کی۔ اب نوائے وقت کا دفتر گنگا رام ہسپتال کے پاس منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈی پی او کے دفتر کی سکیورٹی کے لئے بیرئیر موجود ہیں۔ آدھی سڑک بلاک کر دی گئی ہے۔ سامنے اسلامیہ کالج سول لائنز ہے جس کے لئے کسی سکیورٹی کی ضرورت نہیں۔ خدا کی قسم کالج کے پرنسپل اور اساتذہ، ڈی پی او اور سب پولیس افسران سے زیادہ مرتبے کے لوگ ہیں۔ کیا طالب علم پولیس کے جوانوں سے کم تر ہیں؟ جنہیں سکیورٹی کی ضرورت نہیں۔ شہر کے سب تھانوں کے دروازہ پر رکاوٹیں موجود ہیں۔ گارڈ اور سنتری صاحبان تلاشی کے توہین آمیز مظاہرے کے بغیر تھانے کے اندر نہیں جانے دیتے۔ تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد پرویز راٹھور کی خدمات نواز شریف کو نہیں بھولیں۔ انہیں پیمرا کا چیئرمین بنایا گیا۔ انہوں نے پرویز رشید کی ہدایت پر مخصوص میڈیا کو صرف 15 دن کے لئے معطل کیا۔ جنہوں نے پاک فوج کی توہین میں حد کر دی تھی اب بھی پرویز دلیل والوں کے ساتھ ہے۔ اس کے آقاومولا غلیل والوں کے ساتھ ہیں۔
ساری رات پولیس والے منہاج القرآن کے کارکنوں سے جھگڑتے رہے۔ بالآخر پولیس نے سیدھی گولیاں چلائیں سروں پر گردن پیٹ اور سینے میں گولیاں نشانہ لے کر ماری گئیں میڈیا نے دکھایا کہ ایک شخص کو سڑک پر لٹا کے مارا گیا گرفتار لوگوں کو تھپڑوں اور ٹھڈوں سے مارا گیا ایک سفید داڑھی والے خوبصورت بزرگ کو داڑھی کے بالوں سے پکڑ کے گھیسٹ کے لایا گیا۔ یہ پولیس کیا ہے۔ یہ لوگوں کی حفاظت اور عزت کے لئے ہوتی ہے اور یہی ان کی عزت اور زندگی کو تار تار کرتے ہیں۔
آج ہی مشتاق سکھیرا نے آئی جی پنجاب کے طور پر چارج سنبھالا ہے۔ انہیں آٹھ دس لاشوں کی سلامی دی گئی ہے۔ ان کے بارے میں محکمہ پولیس کی سرگرم ڈی پی آر نبیلہ غضنفر نے بتایا کہ وہ اہل افسر ہیں۔ سخت گیر ہیں۔ توقع تھی کہ وہ سٹریٹ کرائم کو روکیں گے۔ ان کے پہلے دن لاہور میں ان کی پولیس نے بغیر کسی ایشو کے خواہ مخواہ آٹھ دس آدمیوں کو قتل کیا جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے لئے پولیس مبارکباد کی مستحق ہے۔ عورتوں پر ہاتھ اٹھانا اور قتل کرنا ”بہادری“ ہے جو ہماری پولیس کا شیوہ اور کردار ہے۔ ان کی معرکہ آرائیوں سے پورا ملک تڑپ رہا ہے۔
علامہ طاہر القادری نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سارا وقت درود شریف پڑھنے والوں پر شیشے توڑ کر حملہ کیا گیا۔ انہوں نے شہید ہونے والوں کے لئے دعا کی اور خود بھی شہید ہونے کی آرزو کی۔ انہوں نے پروگرام کے مطابق پاکستان آنے کا اعلان کیا۔
اب جو کچھ ملک میں ہو گا۔ اس کی ذمہ دار لاہور پولیس ہو گی۔ علامہ طاہر القادری نے حکمرانوں اور پولیس افسروں کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کی ہدایت کی۔ الطاف حسین نے شریف برادران کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی بات کی ہے۔ بھٹو کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہوئی تھی جو عدالتی قتل پر منتج ہوئی تھی۔ معاملہ خاصا گھمبیر ہو گیا ہے۔ اس موقع پر یہ سانحہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔
وزیراعلی کے دفتر سے ایک بیان سامنے آیا ہے کہ وہ اس سارے واقعے سے بے خبر تھے۔ یہ سچ ہے تو پھر اس سب کارروائی کا ذمہ دار کون ہے؟ قادری صاحب نے کئی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کی خبر دی ہے۔ یہ بھی کہا کہ وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو ناکام بنانے کے لئے یہ سازش کی گئی۔ ریاستی دہشت گردی کی انتہا کر دی گئی۔ انہوں نے نام لے کر پرویز رشید، عابد شیرعلی، رانا ثنا، چودھری نثار اور شریف برادران کو اس ”ریاستی دہشت گردی“ میں شریک قرار دیا۔ شہید ہونے والوں کے آئینی اور شرعی طور پر قصاص لینے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ایسی قیامت وزیراعلی کے نوٹس میں لائے بغیر کیسے برپا ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلی اس سارے ہنگامے سے لاعلم تھے۔ لاہور شہر کے اندر یہ سانحہ رات بھر اور دن بھر ہوتا رہا۔ پولیس افسران نے اپنے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو حالات سے سے آگاہ کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ہماری پولیس اتنی خودمختار ہو گئی ہے اسے فری ہینڈ مل گیا ہے۔ یہ اگر واقعی سچ ہے تو ہمیں اطمینان ہونا چاہئے کہ ہم پولیس کو فری ہینڈ دینے کی بات کرتے رہتے ہیں مگر فری ہینڈ کا یہ مطلب تو نہیں کہ لوگوں کو جان سے مار دیا جائے۔
الطاف حسین، عمران خان اور دوسرے کئی سیاستدانوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ چودھری پرویزالہی نے پریس کانفرنس کی ہے۔ بہت دکھی دل سے انہوں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1122 کی گاڑیوں پر بھی فائرنگ کی گئی۔ ایک گاڑی کو پنکچر کیا گیا۔ میڈیا نے یہ گاڑی خاص طور پر دکھائی۔ پولیس والے خود کئی گاڑیوں پر بھی لاٹھیاں برسا رہے تھے اور ان کے شیشے توڑ رہے تھے۔ چودھری صاحب نے قادری صاحب کا شایان شان استقبال کرنے کا اعلان کیا ان کے آنے سے پہلے ہی ایسا ماحول بن گیا ہے جو حکمرانوں کے لئے اچھا نہیں ہے۔
سی سی پی او لاہور شفیق گجر کے لئے میرا خیال اچھا ہے مگر انہوں نے پریس کانفرنس میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں اسلحے کی موجودگی کی اطلاع دی ہے۔ وہ اسلحہ اتنی آسانی سے پولیس کے ہاتھ کیسے لگ گیا۔ وہ اسلحہ چلایا کیوں نہ گیا۔ کیا یہ اسلحہ صرف نمائش کے لئے جمع کیا گیا تھا۔ کسی پولیس والے کوگولی نہیں لگی۔ شفیق صاحب کہتے ہیں کہ سارے لوگ اپنوں کی گولیوں سے مرے ہیں۔ تو پولیس والے بندوقیں لہراتے ہوئے کیا کر رہے تھے؟ یہ محاورہ اس موقع پر یاد آ رہا ہے۔ عذر گناہ بدتر از گناہ۔
صدر زرداری کے زمانے میں علامہ طاہر القادری پاکستان آئے تھے۔ لانگ مارچ ہوا۔ اسلام آباد میں دھرنا ہوا مگر سب کچھ بخیروخوبی انجام پذیر ہوا تو پھر نواز شریف کے زمانے میں یہ کیا ہوا ہے۔ وہ امید رکھتے ہیں کہ صدر زرداری کی طرح پانچ سال پورے کر لیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ صدر زرداری بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ منہاج سیکرٹریٹ کے سامنے یہ خونی ڈرامہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ برادرم سہیل وڑائچ کی دیوار قادری صاحب کے گھر کے ساتھ سانجھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بیرئیرز ہم سب محلے والوں نے سکیورٹی کے لئے لگوائے تھے۔ یہ بتایا جائے کہ بیرئیر شہر میں کئی جگہوں پر ہیں تو انہیں کب مسمار کیا جائے گا۔ اس وقت جب وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو کوئی اور فساد ملک میں کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دیکھنا یہ ہے پرویز رشید اس صورتحال پر کیا بیان دیتے ہیں۔ انہیں ہر صورتحال پر بولنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ کچھ دن پہلے شیخ رشید نے کہا تھا کہ نواز شریف پرویز رشید کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ چودھری نثار کا متبادل جنرل عبدالقادر بلوچ ہے تو پرویز رشید کا کون ہے؟
تبصرہ