ہر نیا گلو بٹ ہر پرانے گلو بٹ سے بڑا گلو بٹ ثابت ہوا

کارروائی کے دوران عمروں کا لحاظ بھی نہیں رکھا گیا

کراچی میں دن کا اختتام اگر اوسطاً آٹھ لوگوں کی غیر فطری پرتشدد موت پر نہ ہو تو مقامی باشندے گھبرا جاتے ہیں کہ یا خدا خیر آج کا دن پرامن کیسے گزر گیا ضرور کل کچھ نہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

شاید کراچی کی خونی فضا میں مسلسل سانس لینے کے سبب لاہور میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر میں خود کو اتنا افسردہ محسوس نہیں کر پا رہا جتنا باقی ملک بالعموم اور سوشل میڈیا بالخصوص ہے۔

البتہ مجھ جیسے کراچویوں کے لیے لاہور کے خونی واقعات کے تناظر میں اگر کوئی شے نئی اور حیران کن ہے تو وہ ہے ظہورِ گلو بٹ۔

ویسے تو میرے شہر میں ایک سے ایک گلو پڑا ہے اور میرے صوبے میں گلو گورنمنٹ آف مٹیاری نامی ڈاکو بھی گزرا ہے، پر کمی ہے تو گلو بٹ لاہوری جیسے کی۔

جو کام سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی پانچ پانچ سو فلموں میں ہنہناتے گھوڑوں پر گنڈاسے لہراتے نہ کر سکے وہ تنِ تنہا گلو بٹ نے صرف ایک ڈنڈے سے سینکڑوں پولیس والوں اور بیسیوں کیمروں کے سامنے ٹیک ٹو دیے بغیر کر ڈالا۔

پچھلے دو روز سے پھولدار قمیض اور پتلون میں ملبوس گلو بٹ نے مقامی میڈیا کی ریٹنگ اتنی اوپر پہنچا دی ہے کہ شیخ رشید جیسے ٹی وی فن کاروں کو بھی تشویش ہو چلی ہے۔ کیمرے کی آنکھ ہر زاویے سے گلو کو ہی دکھا رہی ہے۔

پہلے اس شیر جوان نے منہاج القرآن کے دفتر کے باہر کھڑے بیسیوں مسلح پولیس والوں کے ایک افسر سے پرتپاک مصافحہ کیا۔ پھر ایک پولیس ٹولی کے ساتھ گپ شپ فرمائی۔ بعد ازاں جہادی جوش اور جہازی ڈنڈے سے پارک ہوئی کاروں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے۔

اس بے مثال کارنامے کے بعد ہمارے ہیرو نے ایک پولیس افسر سے گلے مل کر شاباشی لی اور زخمی گاڑیوں کی جانب دیکھتے ہوئے ہلکا سا فاتحانہ رقص فرمایا۔

قبلہ گلو بٹ کا شجرہ

"جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔ جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی"

پھر دیگر پولیس والوں کی معیت میں ایک ہکا بکا کولڈ ڈرنک والے کا ڈیپ فریزر کھول کے سوڈے کی ٹھنڈی ٹھار بوتلیں لہراتے ہوئے اجتماعی جشنِ فتح کا خم لنڈھایا اور پھر کیمروں کے سامنے سے فخریہ انداز میں نوکیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے دیتے جنابِ گلو بٹ استہزائیہ چال چلتے آگے بڑھ گئے اور افق پارگم ہوگئے۔

اس دوران میڈیائی تیتروں نے قبلہ گلو بٹ کا شجرہ کھود نکالا۔ جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینیئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔

جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی۔

واقعے کے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد کلفیہ لباس میں ملبوس جنابِ گلو بٹ نے ایک مقامی تھانے میں نہایت اطمینان سے ایسےگرفتاری پیش کی جیسے وزرائے کرام زیرِ مونچھ ترسیلی مسکراہٹ سجائے بیواؤں کو سلائی مشین پیش کرتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت بٹ صاحب اس سمے پولیس سجنوں کی تحویل میں ایک بے جان ایف آئی آر کی چادر اوڑھے گئے دن کی تھکن اتار رہے ہیں اور نشریاتی گرد و غبار بیٹھنے کے منتظر ہیں۔

اس مرحلے پر آپ میرا گریبان پکڑ سکتے ہیں کہ اے سفاک لکھاری تجھے آٹھ لاشیں اور سو سے زائد زخمی کیوں نظر نہیں آرہے، صرف گلو پر ہی کیوں تیرے قلم کی نب اٹک گئی ہے۔

عرض یہ ہے کہ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو مرتے ہی رہتے ہیں اور مرتے ہی رہیں گے، پر آدمی جیئے تو گلو شیر کی طرح جیئے۔ دھڑلے کے ساتھ چاروں خانے چوکس ۔۔۔قانونی و غیر قانونی، اخلاقی و غیر اخلاقی بکواسیات میں الجھے بغیر۔

بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دراصل یہ گلو پرور نظام ہی ایک گلو بٹ نے دوسرے گلو بٹ کی مدد سے تیسرے گلو بٹ کے لیے بنایا تا کہ وہ اسے چوتھے گلو بٹ کے حوالے کر سکے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہر نیا گلو بٹ ہر پرانے گلو بٹ سے بڑا گلو بٹ ثابت ہوا۔

ارے کس کس گلو بٹ کی بات کیجیے گا حضور۔ اس گلو بٹ کی جس نے ڈنڈے مار مار کے اس ملک کی گاڑی کی چھت بٹھا دی یا اس گلو بٹ کی جس نے آئین کی اوریجنل ونڈ سکرین کرچی کرچی کر دی۔

یا وہ گلو بٹ جس نے ڈنڈے پر نظریے کا تیل مل کے اسے سائلنسر پائپ میں دے دیا یا پھر وہ گلو بٹ جس نے وفاقی گاڑی کو اینٹوں پر کھڑا کر کے معاشی انجن، جمالیاتی وائپرز، سماجی ڈیش بورڈ، نفسیاتی بیک مرر اور وسائل کی ہیڈ لائٹس بڑے بڑے خلیجی و غیر خلیجی گلو بٹس کو لوہے کے بھاؤ تلوا دیں اور کیا اس وقت ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں گلو بٹ اپنے سے مختلف انسانوں کے سرگاڑیاں سمجھ کے نہیں توڑ رہے۔

فیض صاحب نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ،
گلو میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

جب آپ ایسے ایسے چیتےگلو بٹوں کے بٹ سہہ رہے ہیں تو پھر لاہور کے ایک معمولی سے گلو بٹ کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ تئیس تاریخ کو ایک اور گلو بٹ معافی چاہتا ہوں، گلوِ اعظم لینڈ کرنے والے ہیں۔لگ پتہ جائے گا۔

Source: www.bbc.co.uk

تبصرہ