اسلام آباد ائیرپورٹ پر 23 جون کو رونما ہونے والے سنسنی خیز ڈرامے کے حوالے سے جاری بیشتر مباحثوں میں لوگوں کی توجہ مسلم لیگ نواز کی حکومت پر اثر انداز ہونے والے سیاسی نتائج پر مرکوز ہے۔ مگر اس موقع پر پولیس کی کارکردگی پر تجزیہ کاروں یا حکومت میں سے کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔
لاہور میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی ) اور ڈاکٹر طاہر القادری کے حامیوں کے خلاف مظالم کے بعد راولپنڈی پولیس کو احتیاط کے مظاہرے کی ہدایات دی گئی تھیں۔
یقیناً ان احکامات یہ مراد نہیں تھی کہ راولپنڈی پولیس ائیرپورٹ پر اپنے قائد کے استقبال کے لیے جمع ہونے والے پی اے ٹی کے کارکنوں کے ہجوم سے ڈر جائے، جنہوں نے ایئرپورٹ کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، مگر ہوا کچھ ایسا ہی۔
ائیرپورٹ پر بھاری تعداد میں پولیس کی نفری کو تعینات کیا گیا تھا، تاہم پولیس اہلکاروں نے اپنی پوزیشنز خالی کردیں، اور بیشتر سنیئر عہدیداران بھی ان کی قیادت کرتے نظر آئے، کیونکہ انہیں پی اے ٹی کے مشتعل کارکنوں کا نشانہ بن جانے کا ڈر تھا۔
کہا جارہا ہے کہ تشدد کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا، جب سٹی پولیس آفیسر ہمایوں بشیر تارڑ نے ائیرپورٹ کے قریبی علاقے گلزار قائد میں پی اے ٹی کے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے اپنے اہلکاروں کو آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کے مبینہ احکامات دیے، واضح رہے کہ اس وقت وہ کارکن نماز فجر کی ادائیگی میں مصروف تھے۔
یہ بات ڈاکٹر طاہر القادری کے ماننے والوں کے جذبات بھڑکانے کے لیے کافی ثابت ہوئی، چونکہ پولیس اہلکاروں کی تعداد مظاہرین کے مقابلے میں کم تھی، اس لیے وہ مشتعل افراد کے ائیرپورٹ کی عمارت کی جانب چل پڑے۔
ڈی ایس پی سردار بابر اور ایس پی راول ملک کرامت، جو ائیرپورٹ کی شاہراہ پر تعینات تھے، ایک گھر میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، جبکہ سی پی او ہمایوں بشیر تارڑ کو ان کے محافظوں نے مظاہرین کے ہجوم سے بچایا اور انہیں بحفاظت ایئرپورٹ پہنچا دیا۔
ایس ہارون جوئیہ اور اے ایس پی ہارون الرشید بھی ان کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔
جب تمام پولیس اہلکار چلے گئے تو پی اے ٹی کے مظاہرین نے ایئرپورٹ کے سامنے موجود سڑک کا کنٹرول سنبھال لیا، جبکہ رینجرز اور ائیرپورٹ سیکیورٹی اسٹاف نے ایئرپورٹ کے احاطے سے ان کا جائزہ لیتا رہا۔
تین گھنٹوں تک وہ سڑک کا کنٹرول سنبھالے رہے، عینی شاہدین نے اس موقع پر دیکھا کہ پی اے ٹی کے ورکرز مسافروں کی چیکنگ کرکے انہیں آگے جانے کی اجازت دیتے رہے، اور یہ پولیس کے کنٹرول سے زیادہ بہتر تھا۔
ایک عینی شاہد نے بتایا " اگرچہ انہوں نے کیلوں والے ڈنڈے اٹھا رکھے تھے مگر کسی کارکن نے ایئرپورٹ میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی"۔
اس وقت ضلعی پولیس آفیسر راولپنڈی اختر عمر حیات لالیکا کمشنر راولپنڈی زاہد سعید کے ساتھ سی ایس او، اے ایس ایف کے دفتر میں بیٹھ کر صورتحال کی مانیٹرنگ کرتے رہے۔
ائیرپورٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ عمر حیات لالیکا نے دو سے تین مرتبہ وزیراعلٰی شہباز شریف سے رابطے کی کوشش کی تاکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی پرواز کو نہ اترنے کی اجازت سے متعلق ہدایات لے سکیں، مگر رابطہ نہیں ہوسکا۔
یہ راولپنڈی پولیس کی سب سے بڑی تعیناتی تھی مگر فورس پی اے ٹی کارکنوں کے سامنے مکمل طور پر بے بس نظر آئی اور کئی جگہ جھڑپوں میں انہیں مارپیٹ کا سامنا کرنا پڑا۔
پولیس اہلکاروں کو انسپکٹر جنرل کی جانب سے ربڑ کی گولیاں چلانے کی اجازت تھی مگر اس کی تربیت نہ ہونے کے باعث وہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج تک ہی محدود رہ گئے۔
ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نے بتایا کہ ہمیں پی اے ٹی کے کارکنوں کے تشدد کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا کیونکہ حکومت سانحہ لاہور جیسے واقعے بچنا چاہتی تھی۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ مظاہروں کی روک تھام کرنے والی پولیس نے زیادہ تربیت نہ ہونے کے باعث ربڑ کی گولیاں فائر نہیں کیں، حالانکہ اہلکاروں کے اسٹاک میں پندرہ ہزار ربڑ کی گولیاں موجود تھیں۔
اس ایونٹ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا ماننا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد پولیس کے اعلٰی افسران کے رابطے میں کمی کے باعث طاہر القادری کے حامیوں کے لیے سیکیورٹی اقدامات کو درہم برہم کرنا ممکن ہوسکا۔
ذریعہ: http://urdu.dawn.com/news/1006407
تبصرہ