حکومتی ایماء پر پولیس کا نہتے و پرامن کارکنوں پر حملہ

16 جون 2014ء سوموار رات تقریباً 1:30 بجے سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے بھاری مشینری کے ہمراہ بغیر پیشگی اطلاع مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن اور رہائش گاہ قائد انقلاب کے اردگرد موجود سیکیورٹی بیریئرز کو ہٹانے کے نام پر دھاوا بول دیا۔ مرکز اور رہائش گاہ پر اس وقت صرف سیکیورٹی اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھے۔ پولیس افسران کو ماڈل ٹاؤن پولیس ہی کی جانب سے جاری کردہ سرکلر دکھایا گیا جس میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر عدالتی احکامات کے مطابق سیکورٹی انتظامات کرنے کا کہا گیا تھا، انہیں بتایا گیا کہ یہ بیریئرز فیصل ٹاؤن تھانے کے آفیسرز کی مشاورت اور رہنمائی میں ہی لگائے گئے ہیں مگر انہوں نے اس سرکلر کو ماننے سے انکار کردیا۔ مرکزی قائدین اور پولیس افسران کی بات چیت ہوئی مگر پولیس والے کسی بھی طور اپنے موقف میں نرمی کرتے دکھائی نہ دیئے بلکہ مزید جارحانہ رویہ اختیار کرلیا اور مرکزی سیکرٹریٹ میں موجود سٹاف ممبران اور طلبہ پر لاٹھی چارج کرنا شروع کردیا۔ یہ نہتے افراد رات بھر پولیس کی طرف سے ہونے والی لاٹھی چارج کا اپنی استطاعت کے مطابق دفاع کرتے رہے۔

17 جون کا سورج طلوع ہوچکا تھا۔ مرکزی سیکرٹریٹ پر اس ریاستی دہشت گردی کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ لاہور اور گردونواح سے عوام الناس، سول سوسائٹی کے افراد اور کارکنان بھی مرکز پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ پولیس ہرگزرتے لمحے کے ساتھ اپنی نفری میں اضافہ کرتی چلی جارہی تھی۔ کارکنوں نے بھرپور دفاع کرتے ہوئے پولیس کو کئی گھنٹوں تک رکاوٹیں ہٹانے سے روکے رکھا اور پولیس کی طرف سے ہونے والے ظلم و ستم کو برداشت کرتے رہے۔ بالآخر پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج، ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کے ساتھ ساتھ سیدھی گولیاں بھی برسانا شروع کردیں۔ لاشیں گرنا شروع ہوئیں، گولیوں سے چھلنی زخمی سڑکوں پر تڑپنا شروع ہوگئے۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت انہیں ہسپتال پہنچانا شروع کردیا اور 15گھنٹے بعد پولیس نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر قبضہ کرلیا۔ سیکرٹریٹ پر قبضہ کے بعد پولیس قائد انقلاب کی رہائش گاہ کی طرف بڑھی اور وہاں موجود بیریئرز کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ گولیوں کی بوچھاڑ سے اپنے راستے میں آنے والے لوگوں کو بھی قتل کرنا شروع کردیا۔ اس افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے رہائش گاہ کے اندر گھسنے کی مکروہ کوشش بھی کی وہاں موجود خواتین کارکنان ان کے آگے ڈھال بن گئیں۔ پولیس نے خواتین کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان پر بھی فائرنگ کردی اور وہاں موجود خواتین میں سے دو کو شہید اور کئی کو زخمی کردیا۔ اس تصادم کے نتیجے میں مردوخواتین سمیت 7 افراد موقع پر جبکہ بعد میں مزید 8 افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے، سینکڑوں کارکنوں کو حراست میں لے کر تھانوں اور نامعلوم مقامات پر منتقل کردیا۔

بظاہر رکاوٹیں ہٹانے کے لئے کئے گئے اس آپریشن کا مقصد ایک طرف قائد انقلاب کی پاکستان آمد سے قبل کارکنان اور عوام الناس کو ہراساں کرنا تھا تاکہ لوگ خوف و دہشت کی وجہ سے گھروں سے باہر نہ نکلیں اور دوسری طرف اس حملہ کے دوران قائد انقلاب کے اہل خانہ کو بھی جانی نقصان پہنچانا تھا۔ اس کے لئے رہائش گاہ کو سنائپرز اور شوٹرز نے بالخصوص اپنا نشانہ بنایا اور گولیوں سے رہائش گاہ کے دروازے، کھڑکیاں اور کمرے چھلنی کردیئے۔ رہائش گاہ پر اس قدر خطرناک حملہ حکام کی بدنیتی کو صاف ظاہر کررہا ہے کہ اگر بیریئرز ہٹانا مقصود تھا تو وہ گھر سے باہر لگے تھے اور جنہیں وہ ہٹا چکے تھے، اس کے بعد گھر اور مرکزی سیکرٹریٹ کے اندر گولیاں مارنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ ایلیٹ فورس اور پولیس سنائپرز اور شوٹرز نے پولیس افسروں کی نگرانی اور معاونت سے سیکرٹریٹ اور قائد انقلاب کی رہائش کے اردگرد یوں محاصرہ کر رکھا اور پوزیشنز سنبھال رکھی تھیں جیسے پاک بھارت جنگ یا دہشت گردوں کے ساتھ ان کا مقابلہ ہورہا ہے۔ آپریشن میں قائم مقام ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز، ایس پی اقبال ٹاون فرخ رضا، ایس پی صدر اویس، ایس پی صفدر معروف واہلہ سمیت تمام ڈویژنوں سے ڈی ایس پی، تھانوں کی نفری اور پولیس لائن کی نفری نے بھی حصہ لیا جبکہ پولیس کی مختلف فورسز نے بھی آپریشن میں حصہ لیا جن میں انوسٹی گیشن ونگ، آپریشن ونگ، کوئیک رسپانس فورس، ایلیٹ فورس شامل ہے۔

پولیس آپریشن کے دوران زخمی ہونیوالے عوامی تحریک کے کارکنوں کو طبی امداد دینے کیلئے آنیوالی ایمبولینس پر پولیس اہلکار لاٹھی چارج کرتے رہے اور ایمبولینس کے ڈرائیوروں کو مسلسل پیچھے رہنے کے احکامات دئیے جاتے رہے۔ مرکزی سیکرٹریٹ کے پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کو توڑا گیا۔ پولیس نے دوران آپریشن میڈیا کی موجودگی کے باوجود بے خوف ہو کر ظلم جاری رکھا۔ کئی گھنٹے مرکزی سیکرٹریٹ کے مرکزی دروازوں پر پولیس کا جبراً قبضہ رہا۔ آنسو گیس کے شیل اور گولیاں مرکزی سیکرٹریٹ کے اندر آکر لگتی رہیں۔ پولیس کی جانب سے عوامی تحریک کی کارکن خواتین، بچوں اور معمر باریش افراد کے ساتھ ظلم و بربریت کے واقعات اس نام نہاد جمہوری نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔ پولیس خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹتی نظر آئی۔ بچوں کو اٹھا اٹھا کر پولیس گاڑیوں میں پھینکنے، باریش بزرگوں کو ڈنڈوں و ٹھڈوں سے تشدد کا نشانہ بنانے اور انکے کپڑے پھاڑنے کے دلخراش منظر وہاں موجود لوگوں نے براہ راست اور پوری قوم نے الیکٹرانک میڈیا کے کیمروں کی آنکھ سے براہ راست دیکھے۔

اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پاکستان بھر میں کارکنان تحریک اور سول سوسائٹی کے افراد نے اپنے اپنے شہروں میں اس بربریت کے خلاف بھرپور پرامن مظاہرے اور احتجاج کئے۔

منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سیکیورٹی بیریئرز چار سال قبل ہائی کورٹ کے حکم سے ماڈل ٹاؤن پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے۔ اس وقت جب طالبان نے حملے کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے، پولیس نے سیکیورٹی بیریئرز کو ہٹا کر دہشت گردوں کو موقع فراہم کیا ہے۔ سیکیورٹی کو بڑھانے کی بجائے ختم کردیا گیا۔ انکے اس اقدام سے یہ واضح ہوگیا کہ سیکیورٹی بیریئرز ہٹانے کے بعد وہ دہشت گردانہ کارروائی کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پرامن کارکنوں پر کئے گئے حملے سے قائد انقلاب کی وہ پیشگی ایف آئی آر درست ثابت ہوگئی جو انہوں نے موجودہ حکمرانوں کے خلاف کٹوانے کا میڈیا پر اعلان کررکھا ہے۔ حکومت نے جو سفاکانہ اقدام کیا ہے وہ دہشت گردی کے فروغ کا راستہ کھولے گا۔ بوکھلاہٹ کے شکار نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ اس ملک کا امن و سکون برباد کرنا چاہتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں پولیس کی جانب سے ایسی بھیانک کارروائی اور دہشت گردانہ اقدامات انقلاب کو روک نہیں سکتے۔ ہم پرامن ہیں اور بدستور پرامن رہنا چاہتے ہیں، لیکن حکمران اپنی بوکھلاہٹ میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا نے اس پورے واقعہ اور آپریشن کی مکمل کاروائی عوام پاکستان تک پہنچاتے ہوئے ان حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کو قوم کے سامنے عیاں کردیا۔ اس واقعہ کی سفاکیت، درندگی، ظلم، بربریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک بھر کی سیاسی، مذہبی، علاقائی، سماجی تنظیمات نے اسے ایک المناک واقعہ قرار دیتے ہوئے دو ٹوک انداز میں موجودہ حکمرانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بڑے معصومانہ انداز میں اس واقعہ سے بے خبری کا اظہار کیا کہ مجھے اس قسم کے کسی بھی آپریشن کی اطلاع نہ تھی اور نہ میرے حکم پر گولیاں چلائی گئیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ 15 گھنٹے سے ایک سفاکانہ واقعہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دکھایا جارہا ہے اور حکمرانوں کو اس کی کوئی خبر نہیں۔ ایسی صورت حال میں انہیں اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بعد ازاں انہوں نے ’’نہتے اور بے گناہ شہریوں پر فائرنگ کسی بھی صورت قبول نہیں‘‘ کے الفاظ ادا کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ لیا۔ وزیراعلیٰ کا یہ بیان ہمارے موقف کی تائید کرتا ہے کہ ہم نہتے اور پرامن تھے، پولیس نے دہشت گردی کی ہے۔ اس لئے کہ پہلے انہوں نے ہم پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگایا تھا۔ لہذا اب خود ہی بے گناہ قرار دے کر ہمارے مؤقف کو درست تسلیم کرلیا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں جب طالبان کے خلا ف اتنا بڑا آپریشن شمالی وزیر ستان میں کیا جا رہا ہے، قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس آپریشن کو جہاد قرار دیا ہے، نیز دہشت گردی کے خلاف تاریخی فتویٰ دینے کی وجہ ان پر یا ان کے کسی ادارے پر حملہ ہوسکتا تھا تو ان کی سکیورٹی کے لئے بنائے گئے حصار کو توڑنے کے لئے کس کی طرف سے احکامات جاری ہوئے؟ لازمی بات ہے کہ اس طرح کی حرکت حکمرانوں کی رضا مندی، آشیر باد اور منصوبہ سازی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ یہ پولیس گردی کی بدترین مثال ہے۔ پولیس جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر کیا صرف تجاوزات ہٹانے پہنچی تھی؟ نہیں بلکہ اس کے درپردہ ان کے مکروہ مقاصد تھے۔ پولیس کی جانب سے ’’معرکہ‘‘ ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے نہتے کارکنوں، خواتین اور بچوں پر ظلم و بربریت اور خون کی ہولی کھیلنے کے واقعہ کو تجاوزات کے خلاف معمول کی کارروائی قرار دینا انتہائی مضحکہ خیز اور ناقابل فہم ہے۔ سیاسی وابستگیوں پر تعینات پولیس افسران کی جانب سے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری سے ریاستی تشدد کا یہ بدترین واقعہ رونما ہوا ہے۔ اس آپریشن میں لاہور کی 6 ڈویژن کے ایس پیز کے علاوہ ایس پی سی آئی اے، ایس پی ہیڈکوارٹر، سمیت درجنوں ڈی ایس پیز، اے ایس پیز، انسپکٹرز اور بھاری نفری نے حصہ لیا۔ تعجب کی بات ہے کہ دہشت گردی سے نپٹنے کیلئے تیار کی گئی کوئیک رسپانس فورس، سنائپرز اور ایلیٹ کمانڈوز کی بڑی تعداد نے بکتربند گاڑیوں سمیت اس خون کی ہولی میں اپنے ہاتھ رنگے۔ پولیس حکام آپریشن کے دوران پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی جھوٹی اطلاع میڈیا کو فراہم کرتے رہے جبکہ کوئی پولیس اہلکار ہلاک نہیں ہوا بلکہ عام شہری ہی مارے گئے۔ یہ واقعہ سیاسی انتقام کے سواء کچھ نہیں، نیز عوام پاکستان کو بھی اس واقعہ کے آڑ میں باور کروادیا گیا کہ ہم حکمران، غیرت، شرم و حیاء کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ریاستی جبر و بربریت کے ذریعے دبادیں گے۔ نام نہاد آپریشن کے نام پر اس کا عملی اظہار سامنے آیا اور زبانی اظہار میڈیا پر آنے والے ان کے بیانات ہیں کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود نہایت ڈھٹائی کے ساتھ حکومتی وزراء اپنے مؤقف پر مؤقف بدلتے جارہے ہیں اور اپنے کئے پر کسی بھی قسم کی ندامت و شرمندگی کا اظہار نہیں ہے۔ وفاتی و صوبائی وزراء جو دراصل ان کے گھریلو ملازم ہیں وہ ابھی تک نہایت بے شرمی کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس بہیمانہ واقعہ کے نتیجہ میں ہونے والی شہادتوں کا مقدمہ شریف برادران اور انکی کابینہ کے اہم وزراء کے خلاف درج کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کی مدعیت میں کسی ایف آئی آر اور انکوائری کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتے، کارکنوں کی شہادت کے بدلے حکومت کا جانا ٹھہر چکا۔ موجودہ حکمران 90ء کی دہائی سے فوج کیخلاف ہیں اور اب وزیرستان میں آپریشن کو ناکام بنانے کیلئے ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ شہباز شریف ڈھونگ رچا رہے ہیں کہ انہیں کچھ معلوم نہیں، یہ سب انکی مرضی پر ہی پولیس نے کیا ہے۔ پولیس نے میرے گھر کے دروازوں پر فائرنگ کیوں کی، بیریئر تو گھر کے باہر لگے ہوئے تھے۔ حکمران انقلاب کو نہیں روک سکتے، انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہمارے گارڈز کے پاس بھی لائسنسی اسلحہ تھا، اگر وہ چاہتے تو پولیس کو نشانہ بناسکتے تھے، لیکن ہم نے صبر اور تحمل سے کام لیا۔ ہم نے اچھے مقاصد کیلئے فوج کی حمایت کی ہے جس کی ہمیں سزا دی جارہی ہے۔

پولیس نے جس طرح نہتے کارکنوں پر ریاستی جبر اور دہشت گردی کی اسکی پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں یہاں حکومتیں رہیں مگر کسی نے ایسی دہشت گردی نہیں کی۔ جہاں تک بیرئیر لگانے کا تعلق ہے تو یہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر لگائے گئے اور اسوقت کے پولیس افسران خود یہاں آکر یہ بیرئیر لگواتے رہے، اگر یہ بیرئیر غلط تھے تو چار برس سے پنجاب کے حکمرانوں کو کیوں نظر نہیں آئے اور یہاں پر مسلم لیگ (ن) کی ہی حکومت رہی ہے لیکن اصل مسئلہ بیرئیر نہیں بلکہ وہ انقلاب ہے جو عنقریب آنے والا ہے۔ حکمرانوں نے بوکھلاہٹ میں تحریک منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ پر حملہ کیا ہے۔ ہم کارکنوں کی شہادت کا مقدمہ وزیراعظم نواز شریف‘ وزیراعلیٰ شہباز شریف‘ وفاقی وزراء چوہدری نثار، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، عابد شیر علی، سابقہ وزیر قانون رانا ثنااللہ ‘ آئی جی، ڈی آئی جی اور ایس پی اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کیخلاف درج کرائیں گے۔ ہم جوڈیشل کمیشن کو مسترد کرتے ہیں، حکمران جو چاہیں کرلیں ظالموں کی حکومت کا خاتمہ کروں گا۔ حکمرانوں کا مقصد میری رہائش گاہ اور منہاج القرآن کے باہر سے بیرئیر ہٹانا نہیں بلکہ ان کے چار مقاصد تھے:

  1. وہ اس کاروائی کے ذریعے ملک میں افراتفری پید اکرنا چاہتے تھے۔
  2. شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔
  3. میری آمد کے موقع پر لوگوں کو خوفزدہ کرکے جمع ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔
  4. میرے اہل خانہ کو جانی نقصان پہنچانا چاہتے تھے تاکہ میں اور میرے کارکنان ڈر کر انقلاب کے لئے باہر نہ نکلیں۔

ان کے اس مذموم منصوبہ کے سامنے میرے کارکن رکاوٹ بنے تو انہوں نے وہاں موجود خواتین پر بھی گولیاں چلادیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے پولیس حکام کی سرزنش اور وزیر قانون سے استعفیٰ لینا اور انکوائریوں کے احکامات جھوٹا ڈرامہ ہیں، وہ خود قاتل ہیں یہ سب کچھ ان کے حکم پر ہوا۔ لہذا وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور وہ وزراء جن کو میں پہلے ہی نامزدکرچکا ہوں سب استعفیٰ دیں۔ حکمرانوں کے اس اقدام سے انقلاب کی منزل اور قریب آگئی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی موجودگی میں انصاف کی توقع نہیں۔ اس حکومت کے خاتمے اور انقلاب کی صورت میں شہید کارکنان کا قصاص لیں گے‘‘۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ تجاوزات کے خلاف کسی بھی مقام پر آپریشن ہوتا ہے تو اس کے لئے پہلے ڈی سی او پولیس کے سربراہ کو لیٹر لکھ کر مدد طلب کرتا ہے جس کی روشنی میں متعلقہ پولیس کو احکامات جاری کئے جاتے ہیں کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی ٹیم کے ساتھ مل کر آپریشن کیا جائے اور کار سرکار میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ ڈی سی او کی طرف سے ٹی ایم او کی نگرانی میں ٹیم تشکیل دی جاتی ہے اور انہیں سرکاری مشینری دے کر متعلقہ تھانے بھیجا جاتا ہے۔ متعلقہ افسر آمد کی رپٹ درج کراتا ہے جس میں پولیس سے معاونت کا کہا جاتا ہے۔ پولیس تب بروئے کار آتی ہے جب سرکاری عملے پر تشدد یا مزاحمت کی جائے۔ یہاں اس تمام کے برعکس ہوا کہ رات کے 1:30 بجے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے پہنچ گئے اور پھر عدالتی سرکلر دکھانے کے باوجود پولیس نے مارکٹائی شروع کردی۔ ڈی آئی جی آپریشن کی موجودگی میں بزرگ شہریوں، خواتین کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور انہوں نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ اہلکاروں کو احکامات دینے کے بجائے وہ ن لیگی کارکن گلو بٹ کی لوٹ مار سے لائے ہوئے ٹھنڈے مشروبات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پوری قوم نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ایک نہیں بلکہ سادہ لباس میں ملبوس کئی گلو بٹوں کو نہتی عوام پر سیدھی گولیاں مارتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

قائد انقلاب کی طرف سے شہید کارکنان کے لئے ’’شہید انقلاب ایوارڈ‘‘ اور ورثاء کی تاحیات مالی کفالت کا اعلان بھی کیا گیا۔

قائد انقلاب کے ملک پاکستان میں واپسی کو روکنے کے لئے اسلام آباد و راولپنڈی میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم حکمرانوں نے جس ریاستی جبرو دہشت گردی کا مظاہرہ کیا، ملک پاکستان کی تمام سیاسی، مذہبی، سماجی تنظیمات اور ہر طبقہ فکر کے نمائندوں نے بھرپور مذمت کی۔ قائد انقلاب کے طیارے کو اسلام آباد کے بجائے لاہور اتارنے کو حکومت کی ایک بھونڈی، شرمناک اور مذموم حرکت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’حکومتی جارحانہ ہتھکنڈوں سے معاملات کو بگاڑ رہی ہے۔ حکومت کی اپنی صفوں سے اسے نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے پے در پے غلطیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، اب یہ ڈری ہوئی حکومت کسی بھی صورت سنبھل نہیں سکتی، حکمران اپنے سائے سے بھی ڈر رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا وطن واپس آنا ان کا جمہوری اور قانونی حق ہے۔ حکومت نے طیارے کا رخ موڑ کر اور کارکنوں کو استقبال سے روک کر غیر جمہوری اقدام کیا۔ دو تہائی اکثریت رکھنے والا وزیراعظم اگر ایک لیڈر کے استقبال سے خوفزدہ ہے تو پھر اس حکومت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ملک میں قیادت کا فقدان ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ طیارے کا رخ موڑنے پر یہ مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہو گیا کیونکہ بین الاقوامی فضائی کمپنی کے پرواز کو موڑا گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرے اور پاکستان عوامی تحریک کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کرے۔ نواز شریف نے 1999ء کی تاریخ دہرائی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ حکومت اپنے ہاتھوں کا کیا بھگتے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف کارروائی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خوفزدہ ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت پنجاب پولیس کے مسلح ونگ کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ طیارہ اسلام آباد میں اتر جاتا تو کوئی قیامت برپا نہ ہو جاتی۔ حکومت نے غیر ملکی ائیر لائن کے طیارے کا رخ موڑ کر طیارہ’’ہائی جیکنگ‘‘ کی ابتدا کی ہے۔ نواز شریف طیاروں کا رخ موڑنے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے جہاز کا رخ موڑنے والوں پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ چلنا چاہیے، طیارے کا رخ موڑنا غیرقانونی آمرانہ عمل ہے۔ حکومت کے چھاپوں، گرفتاریوں اور رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں کارکنان کا اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچ جانا حکومت کی شکست ہے۔ طاہرالقادری کی پاکستان آمد سے انقلاب کی جدوجہد تیز ہو گی۔ حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے استقبال میں رکاوٹیں ڈال کر آمرانہ سوچ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو گھنٹوں یرغمال بنائے رکھنے عوامی تحریک کے کارکنان اور عوام الناس کو دن بھر ملک کی سڑکوں اور چوراہوں پر ہراساں کرنے کا عمل موجودہ حکمرانوں کی سیاسی خودکشی ہے۔ جلسے، جلوس اور ریلیاں عوام کا جمہوری حق ہے‘‘۔

یہ بات طے ہے کہ ان حکمرانوں کے تمام تر اوچھے ہتھکنڈے اللہ رب العزت کی غیبی مددونصرت سے خود ہی بے نقاب ہوں گے اور ناکامی و ذلت ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ اللہ رب العزت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھوں عوامی جمہوری مصطفوی انقلاب اس دھرتی کا مقدر کردیا ہے جسے آکر ہی رہنا ہے۔ نام نہاد حکمران اس کو روکنے کے لئے جتنے بھی اقدامات کرلیں اب اس فرسودہ سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ ان حکمرانوں کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔ ان حکمرانوں سے لوٹ مار، کرپشن، عوام کے حقوق کی پامالی کا حساب لیا جائے گا۔ اب نظام بدلا جائے گا۔ سر عام بدلا جائے گا۔

تبصرہ