پرامن کارکنوں کو زد و کوب کیا گیا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو پھر دما دم مست قلندر ہو گا
دونوں بھائی انکی فیملی اور کچن کیبنٹ بیٹھ کر یہ فیصلہ کر لے کہ پہلے کس نے جانا ہے
15 شہداء کا قصاص ہو گا یہ قرآن اور قانون کا فیصلہ ہے
روزانہ قرآن خوانی ہو گی اور لاہور کے مین چوکوں پر شمعیں روشن کی جائیں گی
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کا جنرل کونسل کے اجلاس اور میڈیا کانفرنس سے خطاب
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ حکمرانوں پر دو مقدمات ایک ساتھ چل رہے ہیں، ایک’’مقدمہ لاہور‘‘ جس میں 14 شہادتیں اور 90 افراد کو شدید زخمی کرنے پر اقدام قتل کا مقدمہ۔ دوسرا ’’مقدمہ اسلام آباد‘‘ ہے جس میں 18 کروڑ عوام کا معاشی، سماجی اور سیاسی قتل کیا جا رہا ہے۔ پہلے مقدمے پر قصاص لیا جائے گا جبکہ دوسرے مقدمے کا فیصلہ بذریعہ انقلاب ہو گا۔ 10 اگست کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا چہلم ہو گا۔ اگر شہدا کے چہلم میں آنے والوں کو روکا گیا یا بربریت کا نشانہ بنایا گیا تو پھر یوم شہداء ماڈل ٹاؤن کی بجائے جاتی امراء کے رائے ونڈ محل میں منایا جائے گا۔ وہ PAT کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے جس میں ہزاروں عہدیداران اور 25 سیاسی جماعتوں کے قائدین شامل تھے۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین، پرویز الہیٰ، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا، مجلس وحدت المسلمین کے راجہ ناصر عباس، تحریک صوبہ ہزارہ کے بابا حیدر زمان سمیت دیگر سیاسی، مذہبی اور غیر مسلم سیاسی جماعتوں کے سربراہان شریک تھے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ یوم شہداء پرامن رہنے کی ضمانت دیتا ہوں جس طرح میں نے گزشتہ سال اسلام آباد لانگ مارچ کی ضمانت دی تھی نہ پتہ ٹوٹے گا نہ گملا ٹوٹے گا۔ اگر پرامن کارکنوں کو زد و کوب کیا گیا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو پھر دما دم مست قلندر ہو گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے پولیس والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جسم اور کپڑے شہداء کے خون سے لت پت ہیں اگر حکومت پنجاب کے ایما پر انہوں نے قرآن خوانی کیلئے آنے والے لوگوں پر کریک ڈاؤن کیا، پر امن افراد کے گھروں میں گھس کر انہیں زد و کوب کیا اور اگر انہیں گرفتار کیا، اگر انکو روکا گیا تو پھر کارکنان امن کی چوڑیاں پہن کر نہیں آئیں گے۔ میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت اگست سے آگے نہیں جائیگی اسکے بعد پولیس کو بچانے یہ نہیں آ سکیں گے۔ انقلاب کے بعد قانون کے مطابق جبر و بربریت کرنے پر انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک پنڈی بھٹیاں کے صدر کو شہید کر دیا گیا اس طرح کل 15 شہید ہو چکے ہیں۔ یہ قتل بھی حکومتی ایما پر ہوا ہے ان 15 شہداء کا قصاص ہو گا یہ قرآن اور قانون کا فیصلہ ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بد معاش اور دہشت گرد پولیس والوں کی فہرستیں بنانا شروع کر دیں انقلاب کے بعد یہ جیلوں میں ہونگے۔ اگر کوئی پولیس والا تشدد کرے، ٹرانسپورٹ بند کرے اور کارکنوں کو گھروں میں گھس کر گرفتار کرے تو تمام کارکن جتھے کی صورت میں اس پولیس والے کے گھر کا گھیراؤ کر کے اسے پکڑ کر 10 اگست کو یوم شہدا ماڈل ٹاؤن میں لے آئیں، ان سے قرآن خوانی کرائی جائے گی اور جو پولیس والے قانون کے مطابق جمہوری طریق پر راستہ نہ روکیں ان پولیس والوں کو میرا سلام پیش کریں انکی فہرستیں بنا لیں انقلاب کے بعد انکی نوکریاں بھی برقرار رہیں گی اور انکی ترقیاں بھی ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ انقلاب آ رہا ہے یہ پتھر پر لکیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہداء کی قرآن خوانی کیلئے بڑی تعداد میں لوگ آ رہے ہیں اور یوم شہداء تک آمد رہے گی۔ اس آمد پر کسی قسم کی رکاوٹ اگر قاتل حکمرانوں نے ڈالی تو حکمران تازیانہ عبرت بن جائیں گے۔ انہوں نے 4 اگست سے 9 اگست تک کو ہفتہ شہداء قرار دیا ا ور کہا کہ روزانہ قرآن خوانی ہو گی اور لاہور کے مین چوکوں پر شمعیں روشن کی جائیں گی۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور میڈیا پرسنز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ انشا اللہ یہ قوم فتح یاب ہو گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے شریف برادران کو للکارتے ہوئے کہاکہ دونوں بھائی انکی فیملی اور کچن کیبنٹ بیٹھ کر یہ فیصلہ کر لے کہ پہلے کس نے جانا ہے چونکہ یہ مقدمہ لاہور ہے اور اس کے بعد مقدمہ اسلام آباد پیش ہو گا جس میں 18 کروڑ غریب عوام کا استحصال ہو رہا ہے اور وہ غربت کی چکی میں پس کر ختم ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھی طرح سن لیں کہ پاکستان میں کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ تمہارے ملکوں میں کتے اور جانوروں کے حقوق ہیں اگر کوئی حکمران کتے کو گولی مار دے تو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے یہاں 14 افراد کو شہید اور 90 افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا مگر ان کے لواحقین کی FIR تک درج نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ امریکہ ،برطانیہ اور دنیا کے تمام ممالک اس بات کا جائزہ لیں کہ انکے ملکوں میں جانوروں اور کتوں کو جو حقوق حاصل ہیں یہاں غریب عوام ان ملکوں کے کتوں اور جانوروں سے بد تر زندگی گزار رہے ہیں۔
تبصرہ