عمران خان کے ’آزادی مارچ‘ اور طاہر القادری کے ’انقلاب مارچ‘ نے جی ٹی روڑ پر ہی اس منظر نامےکی جھلک دکھا دی ہے جو وہ اسلام آباد میں پیش کرنے جا رہے ہیں۔ دونوں جلوسوں میں سب سے اہم فرق کارکنوں کے موڈ اور رویے کا نظر آیا۔ جوش و خروش تو دونوں جلوسوں کے ورکرز میں تھا لیکن تحریک انصاف کے کارکن جہاں ہلہ گلہ اور شور شرابہ کرتے دکھائی دیے وہیں عوامی تحریک کے کارکن بہت ڈسپلن، سنجیدہ قبلہ صاحب کے لیے بے حد مودب دکھائی دیے جبکہ تناؤ شرکاء کے چہروں سے نمایاں تھا۔
پہلے ذکر عمران خان کی آزادی مارچ کا ہی کرتے ہیں کیونکہ ہماری بنیادی ڈیوٹی ان ہی کی کوریج پر تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب کا مرکزی نکتہ بھی عمران کی آزادی مارچ تھا اور بعض مبصرین کا یہ خیال تھا کہ اصل شو تو آزادی مارچ ہے اور طاہر القادری اپنے چند سو یا ہزار افراد پر مشتمل ’انقلاب مارچ‘ کو ’آزادی مارچ‘ میں ضم کر کے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن یہ تجزیہ سو فی صد درست ثابت نہیں ہوا۔
عمران خان کا احتجاجی جلوس جب سارا دن مال روڈ پر رینگ رہا تھا تو باقی پورا شہر جشن آزادی منانے والے ایسے لوگوں کے ہجوم سے بھرا ہوا تھا جن کے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے وہ تعداد میں کئی گنا تھے لیکن ٹی وی کیمرے ان کی جانب نہیں بلکہ مال روڈ پر مرکوز رہے۔
عمران خان صبح تین بجے شاہدرہ سے باہر نکلے تو ہم دوبارہ جلوس میں شامل ہونے کے لیے بھاگے اور صبح پانچ بجے انھیں مریدکے کے آگے جا لیا۔ جلوس لاہور سے نکلنے کے بعد حیرت انگیز طور پر سکڑ چکا تھا۔
کامونکی پر ان کا استقبال کیا گیا جہاں عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا وہ ایک لمحے کو بھی نہیں سوئے اور نہ ہی اس وقت تک نہیں سوئیں گے جب تک عوام کو آزادی لیکر نہیں دیتے۔
علی الصبح گوجرانوالہ کے باہر ان کے کارکن پانی کی بوتلیں، کھانا پھولوں کی بتیاں اور جھنڈے لیے ان کے منتظر تھے جبکہ گوجرانوالہ کے اندر بھی ایک دو ٹولیاں ان کی منتظر نظر آئیں۔
گوجرانوالہ میں عمران خان کے جلوس پر پانچ مقامات پر مسلم لیگ نون کے جوشیلے کارکنوں نے حملہ کیا اور دوطرفہ پتھراؤ ہوا۔ عمران خان نے پستول چلانے کا الزام بھی عائد کیا اور یہ بھی کہا کہ پولیس کی گاڑیوں سے ان پر حملہ کیا گیا۔
عمران خان نے گوجرانوالہ میں کئی گھنٹے گزار دینے کے بعد کنٹینر چھوڑ دیا ہے اور اب وہ ایک تیز رفتار گاڑی میں سوار ہیں جس کی قیادت میں ریلی نسبتاً تیزی سے منزلیں مار رہی ہے۔
گوجرانوالہ میں تصادم نے آزادی مارچ کے شرکاء کو ٹی وی چینلز پر ایک نئی زندگی دے دی اور طاہر القادری کی انقلاب مارچ پس منظر میں چلی گئی۔
ہم آزادی مارچ چھوڑ کر تیز رفتاری سے جہلم کی جانب روانہ ہوئے تو کھاریاں کے نزدیک طاہر القادری کا جلوس ملا۔ اس جلوس کو عبور کرتے کافی وقت لگا اور یہ احساس ہوا کہ صبح کے عمران کے جلوس سے یہ جلوس بہت بڑا ہے۔
ابھی یہ حیرت کم نہیں ہوئی تھی کہ ہماری تیز رفتار شاہ عالمگیر پر ایک اور جلوس سے جا ملی یہ جلوس بھی عوامی تحریک کا ایک حصہ تھا اور تیز رفتاری کی وجہ سے الگ ہو چکا تھا۔یہ جلوس بھی بڑا نکلا۔یہ لوگ گاڑیاں کھڑی کر کے طاہر القادری کے انتظار میں تھے۔گرمی اور حبس سے لوگوں کا برا حال تھا۔ ایک لڑکی نے ساتھی کارکن سے پانی کا گلاس مانگا دو گھونٹ پیے اور باقی گلاس اپنے پسینہ بھرے منہ پر انڈیل لیا۔
ایک کارکن نے بتایا کہ وہ سیالکوٹ کے رہائشی ہیں اور 10 اگست سے لاہور میں موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ کبھی انھیں کھانا ملتا ہے اور کبھی وہ بازار سے خرید کر کھا لیتے ہیں۔اس کارکن نے اس شدیدگرمی میں قافلے کو روکنے کا مقصد بتایا کہ ’قبلہ صاحب کی گاڑی پیچھے رہ گئی ہے ان کا انتظار ہے۔‘
جہلم کے نزدیک پھر بسوں گاڑیوں اور لوگوں کا ایک ہجوم ملا معلوم ہوا کہ یہ طاہر القادری کے جلوس کا تیسرا حصہ ہے یہ بھی کافی بڑا تھا۔
جہلم میں طاہر القادری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ملک میں مارشل لا نہیں لگے گا۔انھوں نے کہا کہ وہ اپنے حتمی مطالبات اسلام آباد پہنچ کر بتائیں گے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف اورعوامی تحریک کے کارکنوں کو اپنے قائدین کا انتظار کرتے ہوئے آج دوسرا روز ہے۔
ذرائع: بی بی سی اردو
تبصرہ