جمہوریت کا رونا رونے والے حکمران اپنا کاروبار بچانا چاہتے ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری

اسلام آباد: پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ اگر ایوانوں سے کرپٹ لوگ نکال دیئے جائیں تو ملک دبئی اور سنگاپور بن سکتا ہے جب کہ حکمران جس جمہوریت کا رونا روتے ہیں اس کا مقصد صرف اپنا کاروبار بچانا ہے۔

ڈی چوک پر انقلاب مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ ملک میں بے شمار ذخائر موجود ہیں اگر کرپٹ لوگ نکل جائیں تو پورا پاکستان ترقی یافتہ بن سکتا ہے مگر بدقسمتی سے آج تک ایسا نہیں ہوا کیونکہ جس جمہوریت کا رونا رویا جاتا ہے وہ اقتدار کے ذریعے اپنے کاروبار کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں صرف ریکوڈک میں ایک لاکھ ارب روپے مالیت کا سونا موجود ہے، وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز ریکوڈک ٹھیکے کروانے والے کون ہوتے ہیں، 26 ستمبر 2013 کو ایک اور میٹنگ ہوئی جسے حسین نواز کے دوست نے ترتیب دی تھی، نواز شریف بتائیں کہ ان کے بیٹے ریکوڈک معاہدہ کے لئے میٹنگز کیوں کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ کے لوگ کیا بہرے گونگے ہیں کہ انہیں اس کا علم تک نہیں جبکہ یہ معلومات میرے پاس موجود ہیں۔

قائد پاکستان عوامی تحریک کا کہنا تھا کہ حکمران پارلیمنٹ کے نام پر کرپشن میں حصہ دار ہیں، ممبران پارلیمنٹ کو عیاشیوں کے لئے سہولت ملتی ہے، قرضے ملتے ہیں اور امیر سے امیر تر بنتے ہیں اور یہ سب کھیل پارلیمنٹ اور جمہوریت کے نام پر کھیلا جارہا ہے، انقلاب سے خوفزدہ پارلیمنٹیرین کو معلوم ہے کہ اگر انقلاب آگیا تو ان کی عیاشیاں ختم ہوجائیں گیں، انہوں نے کہا کہ ہر ممبر ترقیاتی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے لیتا ہے اگر انقلاب آیا تو تمام فنڈ نچلے طبقے کو منتقل ہوگا اور ان کی عیاشیاں نہیں رہیں گیں اسی وجہ سے انقلاب کے دشمن وزیراعظم نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ اطلاع ملی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے غنڈے میری رہائش گاہ پر حملہ کرنے کے لئے اکٹھے ہورہے ہیں، بتانا چاہتا ہوں کہ 17 جون کو بہت کچھ ہوگیا ، اگر صبر کو آزما گیا تو حکومت کے لئے ہی حالات خراب ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکمران نہ گئے تو ملکی آنے والی نسلیں جینے کے قابل نہیں رہیں گی، یہ لوگ پاکستان کی ایک ایک اینٹ لوٹ کر کھا جائیں گے، حکمران غریبوں کے لیے اسپتال،اسکول نہیں بناتے، روٹی کپڑا اورمکان نہیں دیتے کیونکہ وہاں کمیشن نہیں ملتا اور ترقیاتی منصوبوں کا آغاز وہیں کیا جاتا ہے جہاں سے انہیں بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے کا موقع ملتا ہو۔

تبصرہ