کل
رات ایک قابل اعتماد شخص نے مجھے دو گھنٹے سامنے بیٹھا کر لمبا چوڑا لیکچر دیا۔ اس
کا کہنا تھا کہ ہمارے تجزیئے اسلام آباد کے حالات کا حقیقی انداز سے احاطہ نہیں کر
رہے۔ انھوں نے کہا کہ جو بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ معاملہ بات چیت کے ساتھ طے ہو جائے
گا وہ احمق بھی ہے اور نئی معلومات سے نا آشنا بھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ خود یہ سوچیے
کہ عمران خان اپنے تمام سیاسی کیریر کو داؤ پر کیسے لگا سکتا ہے کہ استعفے حاصل کیے
بغیر اس کی سیاست مکمل طور پر ختم ہو جائے، کیا وہ اتنا ہی بے وقوف اور سادہ لوح ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پارٹی کی حالیہ تمام میٹنگز میں وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے عمل
کو تحقیر آمیز انداز سے غیر ضروری قرار دیتا اور اصرار کرتا ہے کہ نواز شریف اور شہباز
شریف دونوں کے استعفے عیدالاضحی سے پہلے حاصل کر لیے جائیں گے۔ میں نے جواباً اپنی
نا کافی معلومات کا رونا پیٹا اور کہا کہ عمران خان کا اعتماد معروضی حالات کے ساتھ
مطابقت نہیں رکھتا مگر میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ یہ سب کچھ ضد میں نہیں کر رہا۔
اس پر انھوں نے فرمایا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر میں جا کر دیکھیں وہاں پر خود
اعتمادی کی فضا عمران خان کے کنٹینر سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ قادری صاحب اپنے قریبی ساتھیوں
کے ساتھ مل کر روزانہ نواز شریف کے بعد کے حالات پر لمبی چوڑی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے
کنٹینر سے کان لگا کر سنیں تو یوں محسوس ہو گا جیسے موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد کے
زمانے میں ابھی سے موجود ہوں۔
میں نے ان صاحب سے جب یہ استفسار کیا کہ عمران قادری ٹیگ ٹیم کیا کر سکتی ہے تو اس
پر مسکرا کر انھوں نے نیم طنزیہ انداز اپنایا اور بولے ’’ ارے بھائی کرنا کیا ہے، پہلی
اننگز کے بعد دوسری اننگز کھیلیں گے۔ اس مرتبہ پہلے سے زیادہ جم کر بیٹنگ کریں گے۔
پنجاب بالخصوص راولپنڈی، اسلام آباد کے گرد و نواح سے افرادی قوت لانے کا بندوبست ہو
چکا ہے۔ کسی ایک دن یہ سب اکٹھے ہو کر کئی گنا زیادہ طاقت میں پر جوش ہجوم کی شکل اختیار
کر جائے گا۔ طاہر القادری مذاکرات کی ناکامی کو جواز بنا کر اپنے کارکنان کے جذبہ قربانی
کو اجاگر کریں گے اور پھر پارلیمان اور وزیراعظم ہاؤس پر چڑھ دوڑیں گے۔
چونکہ حکومت کے تعلقات فوج کے ساتھ انتہائی سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں، لہٰذا اس
مرتبہ واجبی سی مدد بھی موصول نہیں ہو گی۔ حکومت کی طرف سے پولیس پہ انحصار بڑھے گا،
گولی چلے گی یا چلوائی جائے گی، دونوں صورتوں میں لاشیں گریں گی۔ شاہراہ دستور پر بہتا
ہوا یہ خون آئینی اور قانونی نظام پر چھینٹے ڈال کر اس کو مفلوج کر دے گا۔ غیر معمولی
حالات اور عوامی انقلاب کے پیش نظر ریاستی ادارے سرخ بتی جلا کر سب کچھ روک دیں گے۔
بالکل ویسے جیسے فلموں میں نازک اور اہم موقعوں پر تمام کردار ساکت کر دیے جاتے ہیں۔
پھر کہانی کو تھوڑا سا تبدیل کر کے ان میں جان ڈال دی جاتی ہے اور زندگی کا آغاز کچھ
تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سے ہو جاتاہے‘‘۔
میں نے ان صاحب سے گزارش کی کہ ان کی اس ناقابل یقین کہانی کا آخری حصہ میرے سر کے
اوپر سے گزر گیا ہے۔ لہٰذا مہربانی سمجھ کر اس کی تفصیل بیان کریں تو نا سمجھ تھوڑا
بہت جان پائے گا۔ اس پر انھوں نے فرمایا ’’اس میں نہ سمجھنے کی کیا بات ہے، دھرنے کے
ٹی ٹونٹی میچ میں تو یہی کچھ ہونا تھا۔ زیادہ تماشائی نہ آنے کی وجہ سے اس کو ٹیسٹ
میچ میں تبدیل کرنا پڑا۔ امپائر کی قلعی کھل گئی وہ ہڑ بڑا کر کچھ دنوں کے لیے خاموش
ہوگیا۔ اب اسٹیڈیم میں لوگ بھر جائیں گے۔
ٹی ٹونٹی کا میچ پہلی اننگز اور اب کھیلا جانے والا کھیل دوسری اننگز تصور ہو گا۔ اس
مرتبہ حکومت اور پارلیمنٹ کو سانس لینے کا موقع نہیں ملے گا۔ پہلا دوسرا اور تیسرا
امپائر مل کر اس میچ کا فیصلہ کریں گے۔ کیونکہ اگر انھوں نے دیر کر دی تو دو ہفتے کے
بعد ان کی ذمے داریاں تبدیل ہو جائیں گی۔ انھوں نے یہ کھیل ہر حال میں جیتنا ہے۔ آپ
کے اس بڑے سر میں کیوں نہیں آ رہی اسلام آباد میں کیا ایسا ہو رہا ہے کہ جس سے آپ یہ
نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ اب یہ میچ دوستانہ انداز اختیار کر گیا ہے‘‘۔
طنز کے ان تیروں سے بچتے ہوئے میں نے ان سے ایک اور سوال کیا کہ پارلیمان کے اندر اعتماد
اور عدالت کی طرف سے کسی غیر آئینی اقدام کی مکمل مخالفت کے بعد نظام کو مکمل ساکت
کرنے کی عملیت پر مجھے شدید شک ہے۔ یہ آئینی اور قانونی طور پر نہیں ہو پائے گا، اس
پر وہ فرمانے لگے ’’کیوں کہ آپ کو آئین و قانون پر عبور حاصل نہیں ہے لہٰذا آپ اس ڈھنگ
سے واقف نہیں جس کے امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس حفیظ پیر زادہ کی
عقل و دانش کا خزانہ موجود ہو جس نے اس آئین کو اپنے سامنے بنتے دیکھا بلکہ اس میں
حصہ بھی ڈالا تو آپ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے۔ اور اگر آپ کو عبوری وزیر اعظم
بننے کا خواب بھی مل جاتا تو آپ دن رات کی عرق ریزی کو ایسے تیل میں تبدیل کر دیتے
جس سے زنگ آلود بندوقیں چستی کے ساتھ حملہ کرنے کی کھوئی ہوئی صلاحیت پا لیتی ہیں۔
پاکستان میں اس وقت ایک خاموش مگر بہت بڑے سیاسی زلزلے کے تمام امکانات موجود ہیں۔
نواز شریف اور موجودہ پارلیمان شاید اس ارتعاش کو محسوس نہیں کر رہے جس کی سن گن مجھے
ہے۔ آپ جیسے لوگوں کے تجزیئے آسمان پر کٹی پتنگ کی طرح ہیں۔ خیالات کی ہواؤں کو ادھر
ادھر گھما رہے ہیں۔ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ ہم تبدیلی کے کتنے قریب کھڑے ہیں۔ عمران
کو اور قادری کو سرخرو ہونے کی خبر مل چکی ہے۔ شیخ رشید خورشید شاہ کے چبھتے ہوئے جملوں
سے وقتی طور پر پریشان تو ہوسکتے ہیں مگر ان کا ستارہ بلند ہو کر رہے گا‘‘
چونکہ میں اپنے تجزیئے کے بارے میں ڈھیٹ ہونے کی حد تک مستقل مزاج ہوں۔ لہٰذا میں نے
اس صاحب کی بہت سی باتوں کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر ذہن سے نکالنے کی بڑی کوشش کی۔ مگر
سچی بات ہے کہ میں ان کے اس افسانے میں حقائق کے عنصر کو یکسر نظر انداز کرنے میں کامیاب
نہیں ہو سکا۔ عمران خان، طاہر القادری،چوہدری شجاعت،پرویز الٰہی، شیخ رشید، ذرایع ابلاغ
میں ان سب کی تشہیر اور تعریف پر مامور گروپ یہ سب لوگ ایسے ہی اڑی نہیں کر سکتے۔ پارلیمان
کے اندر کا غصہ اور وہاں کی یگانگت کے باوجود جس عزم کے ساتھ یہ سب لوگ موجودہ حکومت
کے ’فارغ ‘ ہونے سے متعلق بات کرتے ہیں وہ مکمل طور پر مصنوعی نہیں ہو سکتا۔
مجھے یہ ماننا پڑے گا کہ جس کھیل کو کھیلنے کے لیے عمران خان اور طاہر القادری کے کنٹینر
کھڑے کیے ہیں وہ پانچ نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے سے کہیں بڑا ہے۔ یہ اتنی جلدی ختم نہیں
ہو گا۔ اس ملک میں ہونے والے تجربے ابھی بھی جاری ہیں۔ حالات کشیدہ ہیں، ان کے پیچھے
پوشیدہ حقائق چند دنوں میں منکشف ہو جائیں گے۔ اس کے بعد کیا ہو گا، اس کی فکر کسی
کو نہیں ہے۔ فی الحال معاملہ اس حکومت کو گرانے اور اس کے بدلے نظام لانے کا ہے۔ جس
کے لیے کی جانے والی کوشش بتدریج مضبوط ہو رہی ہے۔ کم از کم وہ صاحب تو مجھے یہی بتا
رہے تھے۔
ذرائع: ایکسپریس نیوز
تبصرہ