اسلام آباد میں پاکستان عوامی تحریک کا انقلاب مارچ جاری ہے۔ شعوروآگہی کے چراغ روشن ہورہے ہیں۔ خوابیدہ پاکستانی قوم بیدار ہورہی ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے فرعون اپنی خاندانی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں۔ مردہ ضمیر، مردہ دل حکمران عوام الناس کی بیداری کی لہرسے خوف زدہ ہیں۔ اس انقلاب مارچ نے مظلوموں کوظالموں سے اورممولوں کو مغرب زدہ شہبازوں سے لڑنے کا سلیقہ دیاہے۔ اسمبلیاں جس قسم کے ہنگامہ عمل سے معمور تھیں ان کا پردہ پوری قوم کے سامنے چاک ہو چکا ہے۔ قوم فروش حکمران اوران کے مفادپرست حامی تلملا رہے ہیں۔ نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور ان کے منہ سے جھاگ بہنے لگ گیاہے۔ ان کی روحیں اور ضمیر تو پہلے ہی مردہ تھے اب عقلیں بھی مفلوج ہو چکی ہیں۔ یہ جومکرکرتے ہیں، اللہ رب العزت اس کی کوئی بہترتدبیر مظلوموں کے حق میں پیدا فرمادیتاہے۔ ان کو وہاں سے چوٹ پڑتی ہے کہ ان کی عقول دنگ رہ جاتی ہیں، پھر یہ کھمبا نوچنے لگتے ہیں۔ مقدس ایوان کی تقدیس کی چادر کذب و بہتان سے تار تار کرنے کے بعد یہ شیطان پھر نئے مکرکے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ پھر سازشوں کے جال بنتے ہیں، نئے بہتانوں کے تانے بانے ملاتے ہیں، جھوٹ، کذب اور فساد کی نئی تاریخ رقم کرتے ہیں، مکرکا ایک نیا تیر چلاتے ہیں مگر پھر منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ اللہ رب العزت ان کو پھر رسوا کردیتا ہے اور ان کے تمام مکر چاہے وہ پہاڑوں سے بلندتر کیوں نہ ہوں، ناکام ہوجاتے ہیں۔ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر46 میں ہے:
’’اور انھوں نے (دولت واقتدارکے نشہ میںبدمست ہوکر)اپنی طرف سے بڑی فریب کاریاں کیں جبکہ اللہ کے پاس ان کے ہر فریب کا توڑ تھا، اگرچہ ان کی مکارانہ تدبیریں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اکھڑ جائیں‘‘۔
دیکھ لیں ان حرام خور فرعون صفت حکمرانوں کے مکر کو اللہ رب العزت نے بھی اتنا شدید کہا ہے کہ ـ ’’ان سے پہاڑ بھی اکھڑ جائیں‘‘ کیوں کہ لوگ ہمیشہ کی طرح ان کے جھوٹ میں آجائیں گے اور ہمیشہ کی طرح نقصان اٹھائیں گے۔ یہ تو اب پاکستانی قوم کا امتحان ہے کہ وہ اپنے اندر انقلاب پیدا کرتی ہے یا ایک مرتبہ پھر خود کو ان سانپوں سے ڈسواتی ہے؟ کئی پڑھے لکھے لوگ بھی ان کے جعلی نعروں کا شکار ہو رہے ہیں، کیونکہ جب پہاڑ اکھڑ سکتے ہیں تو وہ کیا چیز ہیں؟ اس لیے اکھڑے اکھڑے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ ان کی زبانیں اور قلم ان ظالموں کے قصیدے ہی گارہے ہوں گے۔ اور جمہوریت کی آڑ میں جمہورکش درندوں کاتحفظ ہی ان کا مقصد ہوگا۔ جب آپ حقیقی جمہوریت کی بات کریں گے تووہ اس کے حامی نظرآئیں گے۔ جب آپ سانحہ ماڈل کے ظلم وبربریت کا تذکرہ کریں گے تو کہیں بہت ظلم ہوا، مظلوموں کی داد رسی ہو نی چاہیے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، ایف آئی آر درج ہونا چاہیے تھی، یومِ شہداء پر ہونے والاظلم بھی قابلِ مذمت ہے اور اسلام آباد کاقتلِ عام بھی مگر۔۔۔۔ نواز شریف کا استعفیٰ غلط ہے۔ جب آدھا سچ قبول کیا جائے تو بات کا یہی انداز ہو تاہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس طرح وہ ظالم کی اعانت کررہے ہوتے ہیں، جس کی اللہ رب العزت نے بہت سخت سزا بیان فرمائی ہے۔ سورہ ھود کی آیت نمبر 113 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور تم ایسے لوگوں کی طرف مت جھکنا جوظلم کررہے ہیں ورنہ تمھیں آتشِ (دوزخ) آ چھوئے گی اور تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی مدد گار نہ ہوگا پھر تمھاری مدد بھی نہیں کی جائے گی‘‘
یہاں پرقرآنِ مجید نے لفظ ’’ رکون‘‘ استعمال کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی کی طرف مائل ہونا یا جھکنا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ گفتگو اور دوستی کے ذریعے کسی کی طرف میلان اختیار کرنا‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا دل، زبان یا قلم اگر ظالم کی طرف معمولی سا مائل ہوگیا، آپ نے اس کے حق میں کچھ بول دیا یا لکھ دیا تویہ آپ نے اتنابڑا ظلم کردیا کہ جس کی سزا حتمی طور پر جھنم ہے۔ یہ الفاظ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ لوگ انجانے میں ظالموں اور قاتلوں کے حق میں بھی کچھ نہ کچھ لکھ جاتے ہیں، تو ان کو یہ حکمِ قرآن ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ اور ظلم اور ظالم کی حمایت میں بھول کر بھی کچھ نہیں کہنا چاہیے بلکہ اس قبیح عمل سے ہمیشہ نفرت کرنی چاہیے۔ سورہ الصف کی آیت نمبر 22 کے مطابق ظالموں اور ان کے حمایتوں کو قیامت کے دن ایک ہی جگہ (جہنم میں) اکٹھا کیا جائے گا۔
موجودہ جعلی اسمبلیوں کو دیکھتا ہوں تو آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا یہ ارشادِ گرامی یاد آجاتا ہے، جسے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ
’’ عنقریب تمھارے اوپر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جن کو ان کے چاپلوس لوگوں نے گھیر رکھا ہوگا، وہ ظلم کریں گے اور جھوٹ بولیں گے۔ پس جو شخص ان کے پاس جائے، ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے اس کا مجھ سے اور میرااس سے کوئی تعلق نہیں۔ اور جوآدمی ان کے پاس نہ جائے(یعنی ان کی طرفداری نہ کرے) اور ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں‘‘ ( مسنداحمد بن حنبل، صحیح ابنِ حبان)
ظالم حکمرانوں اور ان کے حامیوں کی توصیف میں کچھ کہنا، لکھنا تو دور کی بات ہے، آقا علیہ السلام نے تو محبت بھری نظروں کے ساتھ ان کی طرف دیکھنے سے بھی منع فرمایاہے۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ اپنی آنکھوں کو ظالموں کے مددگاروں سے نہ بھرو(یعنی ان کی طرف نہ دیکھو) مگر اس حال میں کہ تمھارے دل ان کا انکار کررہے ہوں، ورنہ تمھارے نیک اعمال ضائع ہو جائیں گے‘‘
یعنی اگر تم نے ظالموں اور ان کے حامیوں کو نفرت اور قلبی انکار کی نظر سے نہ دیکھا تو تمھارے اعمال ضائع کردیے جائیں گے۔ اسی طرح امام ذھبی نے ’’ کتاب الکبائر‘‘ میں لکھا ہے کہ :
’’ ایک درزی حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں بادشاہ کے کپڑے سیتا ہوں، کیا میں بھی ظالموں کے مدد گاروں میں شامل ہوں؟ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ نے فرمایا کہ تو خود ظالموں میں سے ہے۔ ظالموں کے مدد گار تو وہ ہیں جو تجھے سوئی اور دھاگہ بیچتے ہیں‘‘۔
اسی طرح ان پولیس والوں کی نظر بھی ایک حدیثِ مبارکہ کرتاچلوں جو اپنی عاقبت بھول کر فرعون صفت حکمرانوں کے کتے بن کر نہتے عوام پر، بوڑھوں پر، بچوں اور عورتوں پر ظلم کررہے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
’’ظالموں کے مدد گار اور پولیس والے (جوظلم کرتے ہیں) قیامت کے دن جہنم کے کتے ہوں گے‘‘۔
سانحہ ماڈل ٹائون، اسلام آبادمیں ہونے والااقتلِ عام، کراچی میں ہونے والی دہشتگردی، ہر روز لٹتی عصمتیں، اجڑتے گھر اور پامال ہوتی عزتیں پاکستانی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ کہ اے قوم! توکب تک کبوتر کی طرح ظلم و جبر اور دہشت گردی دیکھ کر آنکھیں بند رکھے گی؟ اپناحقوق لینے کے لیے کب ریاستی جبرکے خلاف آواز بلند کرے گی؟ اے قوم! اٹھ، کچھ کر گزر، یہی وقت ہے اپنے حقوق چھین لینے کا، اور یہی وقت ہے انقلاب برپا کرنے، انقلابیوں کاساتھ دے، ظالموں کو پچھاڑ، مظلوم کے حقوق کی بات کر، کیوں کہ یہی وقت ہے، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ بقوم علامہ ڈاکٹرمحمد اقبالرحمۃ اللہ علیہکہ
یہ گھڑی محشر کی ہے اور تُو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر اے
غافل گر عمل کوئی دفتر میں ہے
آقا علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ہے کہ ایک شخص کو قبرمیں اس وجہ سے عذاب دیا گیا کہ اس نے ایک مظلوم کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کی مدد نہیں کی تھی۔ ظالم ہونا، ظلم کرنا یا ظالم کی طرفداری کرنا تو دور کی بات ہے۔ محض مظلوم کو دیکھ کر اس کی مدد نہ کرنا بھی باعثِ عذاب ہے۔ اس لیے قوم کو اب اٹھنا ہوگا۔ اسلام آباد میں انقلاب مارچ کے شرکاء نے تو اپنا حق ادا کردیا ہے، شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہر القادری مدظلہ العالیٰ نے اپنا وعدہ نبھا دیا، اب ہماری باری ہے۔
جس میں نہ ہوانقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات،
کشمکشِ انقلاب
تبصرہ