انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں استعمال ہونے والے کردار کردار گلو بٹ کو جرم ثابت ہونے پر11 سال 3 ماہ قید اورایک لاکھ گیارہ ہزارروپے جرمانے کی سزا سنادی۔ اگر میں اِس فیصلے کی تعریف نہ کروں تو شاید یہ زیادتی کے مترادف ہوگا کہ لوگوں کہ ذہن سے غلط فہمی دور ہوگئی کہ گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرنے والا مجرم تو ہوسکتا ہے مگر ہیرو ہرگز نہیں۔
لیکن سوال یہ کہ کیا گلوبٹ کو سزا دینے سے انصاف کا عمل مکمل ہوگیا ؟ قانون پڑھنے والے طالبعلم جانتے ہیں کہ سزا دینے کا مقصد مجرم کو اذیت دینا نہیں ہوتا بلکہ سزا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کرکے اس جرم سے دور رہیں۔ سب نے ٹی وی سکرینوں پہ دیکھا کہ گلو بٹ ڈنڈا اٹھائے بھاگ رہا تھا اور اسکے پیچھے پولیس کے بڑے افسران اور جوان یوں بھاگ رہے تھے جیسے گلوبٹ ان تمام کا لیڈر ہو تو اُن سب پولیس والوں کو سزا کب ملے گی؟
گلو بٹ کو سزا اس لیے ملی کیونکہ اسنے گاڑیوں کے شیشے توڑے مگر اب سوال یہ ہے کہ بے جان گاڑیوں کے شیشے توڑنے کی سزا گیارہ سال قید ہے تو جنہوں نے اُس دن جاندار افراد کو نقصان پہنچایا انکی کیا سزا ہے ؟یہ سوال نہیں بلکہ انصاف سے عاری معاشرے کے منہ پہ زور دار تماچہ ہے۔ اگر گلوبٹ مجرم ہے تو وہ کیسے بے قصور ہو گئے؟
معاشرے کفر کے ساتھ تو چل سکتے ہیں مگر ظلم کے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ مشہور واقعہ کہ جب ایک بڑے قبیلے کی عورت نے چوری کی اور کچھ لوگ اسکی سفارش کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم میری بیٹی بھی چوری کرتی تو اسکو بھی سزا ملتی اور مزید یہ فرمایا کہ تم سے پہلے قومیں اس لیے برباد ہوگئیں کہ انکے بڑے ظلم کرتے تو انکو چھوڑ دیا جاتے اور جب کوئی کم حیثیت یا چھوٹے افراد جرم کرتے تو انکو سزا دی جاتی۔
یہ میں یا آپ نہیں کہہ رہے بلکہ خادم اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاون درحقیقت رانا ثنااللہ کے حکم پر ہوا ہے اور اُن کو عہدے سے ہٹانے کی وجہ بھی یہی بتائی جارہی ہے۔ اب میرے جیسے عام آدمی کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ جس فرد کے احکامات کی بنیاد پر ایک سانحہ رونما ہوجاتا ہے اور اُس سانحہ میں چودہ افراد قتل ہوجاتے ہیں اور اُس غلطی کے عوض ان کو وزارت سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ لیکن بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ گاڑیوں کو نقصان پہنچانے والا تو اپنی زندگی کے 11 سال جیل میں کاٹے مگر جس کے احکامات کی وجہ سے 14 لوگ اپنی جانوں سے جائے اُس کی سزا محض وزارت کا جانا ہو؟
نہیں نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہوگا کہ اب ادھورا انصاف نہیں پورا انصاف ہوگا کہ جن کے ساتھ ناانصافی ہوئی جن کے اس دن بازواور ٹانگیں ٹوٹیں سر پھٹے جن کے گھر سے جنازے اٹھے وہ اب لوگوں کو بھی کٹہرے میں جاتے دیکھنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے وہ عظیم سانحہ رونما ہوا۔ اگرچہ ہمارے اس انصاف کے ستون کو دیمک لگ چکی ہے ہمارے ہاں امیر اور غریب کے لیے الگ قانون ہیں اول تو فیصلے ہی نا انصافی کی بنیاد پہ ہوتے ہیں یا پھر فیصلے اتنی دیر سے ہوتے ہیں کہ تب تک سزاکی اہمیت اور مقصد فوت ہو چکا ہوتا ہے مگر گلو بٹ کی سزا نے کچھ اُمیدیں پیدا کی ہیں اور ہم اب یہ اُمید کررہے ہیں کہ محض عمل کرنے والے کو سزا نہ دی جائے بلکہ جن کے کہنے پر عمل ہوا ہے اُن کو اُس سے بھی زیادہ سزا ملنی چاہیے۔
لہذا ایسے وقت میں ہماری آزاد عدلیہ کو آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ اس عدلیہ کو پاکستانی قوم نے بڑے ارمانوں سے آزاد عدلیہ بنایا تھا ۔ ہماری اعلی عدلیہ کو فوری طورپر پاکستان کے عدالتی نظام میں ایسی اصلاحات لانی ہوں گی کہ ہر شخص کو اسکے گھر کی دہلیز پہ فوری اور سستا انصاف ملے۔ قتل کے مقدموں کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر ہو۔ کوئی جرم چاہے گلوبٹ کرے چاہے پھرکوئی بڑا آدمی، دونوں کے لیے سزا ایک ہونی چاہیے۔ اگرایسا نہ ہوسکا تو پھر لوگوں کو ہر چوک میں اپنی عدالت لگانے سے روکنا مشکل ہوجائے گا۔
ذرائع: ایکسپریس نیوز
تبصرہ