نوازشریف، شہباز شریف کسی مغالطے میں نہ رہیں، انکی اجازت کے بغیر
پولیس 12 گھنٹے گولیاں نہیں برسا سکتی
اس سے پہلے پنجاب حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ گم کر دے، ججز اصلی ریکارڈ
اپنے قبضے میں لے لیں
ایئر پورٹ پہنچنے پر جذباتی مناظر، مسافر آبدیدہ، ہر سانس کا مالک اللہ، آخری سانس
تک لڑوں گا، ایئر پورٹ پر گفتگو
ایئر ایمبولینس کی پیشکش ہوتی بھی تو مسترد کر دیتا، رہنماؤں کو شہداء اور زخمیوں کے
لواحقین سے مسلسل رابطہ رکھنے کی ہدایت
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری گزشتہ صبح علاج کیلئے لاہور سے امریکہ روانہ ہو گئے، روانگی سے قبل اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علاج کے بعد بلا تاخیر اپنے عوام کے درمیان ہونگا اور انقلاب کا سفر واپس آ کر وہی سے شروع کرونگا جہاں سے چھوڑ کر جا رہا ہوں، کارکن حوصلے بلند رکھیں اور قوم مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک جس جدوجہد میں شامل نہیں ہو گی کوئی جدوجہد اس نظام کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی، اس کیلئے تمام پارٹیز اور تمام قوتوں کو ملکر مشترکہ پلیٹ فارم سے کوششیں کرنا ہوں گی، انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن اور حکومتی رویے کے حو الے سے تفصیل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کسی مغالطے میں نہ رہیں ہم یہ بات تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ ان کے حکم اور اجازت کے بغیر پولیس 12 گھنٹے تک نہتے اور معصوم شہریوں پر گولیاں برسا سکتی ہے یا لاشیں گرا سکتی ہے؟ 17 جون کے سانحہ کے حوالے سے کسی قسم کے کمپرومائز کے تصور کو بھی شہداء کے خون سے بے وفائی اور غداری سمجھتے ہیں، ڈیل کی افواہیں اپنی موت آپ مر چکیں، یہ افواہیں پھیلانے والے اللہ سے معافی مانگیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل کمیشن کی انکوائری رپورٹ شائع نہیں ہوتی اور مقتولین کے ورثاء کی تائید والی جے آئی ٹی نہیں بنتی حکومت کے کسی تحقیقاتی تماشے کا حصہ نہیں بنیں گے، ہم پنجاب حکومت کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار اور قاتل سمجھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اسی لیے اس رپورٹ کو پہلے دبایا گیا اور پھر دباؤ سے بچنے کیلئے سٹے آرڈر لے لیا گیا، اس کیس کی سماعت کرنے والے ججز کے بنچ سے استدعا اور مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا تمام ریکارڈ حکومت سے لیکر اپنے قبضے میں لے اور حکومت سے لیے جانے والے ریکارڈ کی جسٹس باقر نجفی سے تصدیق کروائی جائے کہ آیا کہیں پنجاب حکومت نے رد و بدل یا ٹمپرنگ تو نہیں کی؟ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے 1990 میں مجھ پر ہونیوالے قاتلانہ حملے کی رپورٹ کو گم کیا گیا اس سے پہلے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ بھی گم کر دی جائے عدالت یہ سارا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ کرے۔ انہوں نے 1990 کے قاتلانہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی کہا گیا کہ یہ بکرے کا خون ہے اگر یہ بکرے کا خون تھا تو پھر رپورٹ کو ہمارے خلاف استعمال کیوں نہیں کیا گیا، ہمیں بدنام کرنے کا حکومت کے پاس اس سے زیادہ اچھا موقع اور کونسا ہو سکتا تھا ، اگر وہ واقعی بکرے کا خون تھا تو رپورٹ کی کاپیاں میڈیا کو کیوں نہیں بانٹی گئیں، اگر یہ بکرے کا خون تھا تو آخر کسی نے اس بکرے کا گوشت بھی کھایا ہو گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈین شہریت میرے پاؤں کی زنجیر نہیں جب وقت آئے گا تو فیصلہ کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگے گا۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت کی طرف سے ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کی خبر دیگر افواہوں کی طرح ایک افواہ ہے، ایسی پیشکش ہوتی بھی تو کبھی قبول نہ کرتا، ڈاکٹر طاہرالقادری پرواز میں تاخیر کے باعث 9:15 بجے گھر سے ایئرپورٹ کیلئے روانہ ہوئے، ایئرپورٹ لاؤنج میں داخل ہوئے تو مسافروں کی ایک بڑی تعداد ان کے گرد جمع ہو گئی، اہلکار ڈیوٹی چھوڑ کر ان سے مصافحہ کرتے رہے، ڈاکٹر طاہرالقادری کو وہیل چیئرپر بیٹھے دیکھ کر بیشتر مسافر آبدیدہ ہو گئے، اس موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ہر سانس کا مالک اللہ ہے جب تک یہ سانس چل رہی ہے غریب عوام کو ظلم کے نظام سے نجات دلانے کیلئے لڑتا رہوں گا، پاکستان کے غریب عوام میرا حوصلہ ہیں، کارکن حوصلے بلند رکھیں میں بہت جلد صحت یاب ہو کر ان کے درمیان ہوں گا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے طیارے میں سوار ہونے سے قبل دعا کروائی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں ڈاکٹر حسن محی الدین، ڈاکٹر حسین محی الدین اور خرم نواز گنڈا پور کو شہداء اور زخمیوں کے لواحقین سے رابطہ رکھنے اور ان سے ہر طرح کا تعاون کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ جیلوں، حوالاتوں میں قید کارکنوں کی رہائی اور جھوٹے مقدمات کا شکار کارکنان کی قانونی مدد کرنے میں کسی قسم کی کوئی سستی اور کوتاہی نہ برتی جائے، انہوں نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایئر ایمبولینس دینے کی خبر دیگر افواہوں کی طرح ایک افواہ تھی حکومت ایسی پیشکش کرتی بھی تو قبول نہ کرتا، دھرنے کے دوران حکومت سے جتنے بھی مذاکرات کے دور ہوئے ڈیل کرنا تو دور کی بات کسی ایک موقع پر بھی کسی حکومتی ممبر کو ڈیل یا دیت پر بات کرنے کی جرات بھی نہ ہو سکی۔ ایئرپورٹ پر انہیں ڈاکٹر حسن محی الدین، ڈاکٹر حسین محی الدین، خرم نواز گنڈاپور، شاکر مزاری، مخدوم ندیم سمیت عہدیداروں اور کارکنوں نے الوداع کیا۔
تبصرہ