عوام آخر عوام ہے کر بھی کیا سکتی ہے ؟؟؟۔ پانچ سال کیلئے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے پانچ سال تک عوام پر ہی حکمرانی کر کے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ آخر کیوں؟؟۔ میمو کمیشن کی تحقیقات تو مکمل ہوگئی۔ رپورٹ میں حسین حقانی کو غداروطن قرار دیا گیا۔ بڑے بڑے دعوے کئے گئے، حسین حقانی کو بیرون ملک نہیں جانے دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ اور میموکمیشن کے سامنے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کا بیان دینا کہ میمو ایک حقیقت ہے پھر بھی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ پس پردہ حقائق کیا ہیں کیوں عوام کو پاگل بنایا جارہاہے۔ یہ تحریر لکھتے ہوئے میں ذرہ بھر بھی مایوس نہیں ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ اگر دیگچی اپنی ہے تو اس میں پڑی دال/گوشت بھی تو اپنا ہی ہوگا ناں۔ اس حمام میں سب ہی تو ننگے ہیں، ایک دوسرے کے عیب بتانے کی بجائے، مل بیٹھ کر کھانا زیادہ بہتر ہے۔ میمو کمیشن بنایا گیا، پیسہ تو مفت کا ہے ناں۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے تو پھر کمیشن پر کمیشن بنائیں، ’’مال اندر، چوہا جلندر‘‘۔
عوام کا احساس اُس کو ہوتاہے جو خود کو عوام سمجھتاہو۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو ہی وہ شخص تھا جس نے خود کو عوام سمجھا اور عوام بن کر جیا اور عوام بن کر اس دُنیا سے گیا۔ آج تاریخ نے اس شخص کو اپنے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھا ہواہے۔ اس کے جانے کے بعد آج تک پیپلز پارٹی’’ پیپلز پارٹی‘‘ نہیں بن سکی۔ اس لئے نہیں بن سکی کیونکہ اب جاگیردار اس پارٹی کا اثاثہ ہیں۔ ایک وہ شخص جو اپنی جوانی کا زیادہ عرصہ جیلوں میں گزار کر آیا ہے وہ آج ملک کا صدر ہے، قصور کس کا ہے؟ مظلوم پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر بینظیر بھٹو (شہید ) سے اظہار یکجہتی کر کے عوام نے کون سا بڑا گناہ کیا ہے؟۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا تھاکہ پاکستانی عوام 100روپے لیٹر پٹرول خرید سکتی ہے۔ سابق صدر نے تو عوام پر بم نہ گرایا لیکن عوام کی بنائی گئی موجودہ حکومت نے اس عظیم شخص کے قول پر عمل کر کے دکھایا۔ 100روپے لٹر پٹرول جس میں 45فیصد حکومتی ٹیکس موجود ہے یہ کس کے کھاتے میں جاتاہے؟ یہ منافع کون لیتاہے؟ کاش کہ اس قوم کو ہوش آ جائے۔ ۔ !!!۔ پاکستان کے میڈیا نے آج تک اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا۔ پچھلے دنوں ایک اینکر پرسن نے ٹی وی پر کہا تھا کہ خبر کیا ہے یہ ’’کہ آپ کے گھر 24گھنٹے بجلی موجود ہے یا یہ کہ آپ کے گھر 24گھنٹے سے بجلی نہیں ہے‘‘۔ یہ تو بجا ہے کہ خبر یہ ہے کہ گھر میں 24گھنٹے بجلی نہیں ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے صاحب کہ پچھلے دنوں جو عظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریلیاں نکالی گئیں تو ان میں خبر یہ تھی کہ’’ توڑ پھوڑ کتنی ہوئی‘‘ یا یہ خبر تھی کہ ’’مسلمان کس طرح اس گستاخانہ فلم پر سراپا احتجاج ہیں‘‘۔
چند شرپسند عناصر نے اس طرح کی گری ہوئی حرکتیں کیں تو اس کا الزام پوری قوم پر نہ تھوپا جائے‘‘۔ پلیز۔ !! سوچئے گا ضرور۔ ۔ مزید یہ کہ ارسلان افتخار چیف جسٹس آف پاکستان کا بیٹا ہونے کے ناطے اب تک ٹرائل سے محفوظ ہے۔ کچھ دن کے مسلسل ٹاک شوز کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا کو تو ایشو چاہئے ہوتا ہے بات کو بتنگڑ بنانے کا۔ اب تو جناب ملک ریاض صاحب بھی روپوش ہیں، کوئی بیان نہیں کوئی ٹاک شو نہیں۔ آخر کیوں؟؟؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟؟ تین سال تک قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا کہ حکومت سوئس حکام کو خط لکھے تو عوام کا بھلا ہوگا۔ آخر کیا بھلا ہوا۔ ؟ ایک وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا دوسرا وزیراعظم اقتدار کی کرسی پر براجمان ہے۔ حکومت نے بالآخر خط بھی لکھنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن صدر کا استثنیٰ وہیں پر قائم ہے۔ آخر کوئی ایسی عدالت بھی ہوگی جس میں صدر اور چیف جسٹس آف پاکستان کا ٹرائل بھی ہوسکے۔ آخر ایسا کیوںنہیں ہے؟؟ اور اب تو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا مستقبل بھی خطرے میں دکھائی دے رہاہے۔ خط لکھنا تو کوئی بڑی بات تو نہ تھی، اب جو لکھا جائے گا تو یوسف رضا گیلانی کی موجودگی میں پس پردہ کیا حقیقت تھی؟ ڈور ہے ہاتھ میں صدر پاکستان کے اور آگے ہیں میدان میں بھاگنے والے گھوڑے۔ جن کو جس جانب صدر صاحب موڑنا چاہیں گے موڑ لیں گے۔ خط لکھنا ہے یا نہیں لکھنا یہ بات تو بہت پہلے ایوان صدر میں طے ہو چکی ہوگی۔ اب سپریم کورٹ اور حکومت کی ملی بھگت عروج پر ہے۔
یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو سپریم کورٹ کے گیٹ سے گرفتار کس نے کروایا۔ سپریم کورٹ نے تو ان کی ضمانت منظور کر لی، پھر کون سی طاقت تھی جس نے ضمانت منظور ہوجانے کے بعد بھی ان کی گرفتاری میں بجا طور پر مدد کی ؟؟؟ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کے خلاف آج تک عدالت میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جاسکے۔ آخرحج کیس میں وہ کیا پروپیگنڈے ہیں جو پس پردہ کئے جاتے رہے ہیں۔ آج بہ بانگ دہل حامد سعید کاظمی سب کو چیلنج کر رہے ہیں کہ میرے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کریں میں آج بھی ٹرائل کیلئے خود کو پیش کرتاہوں۔ لیکن آخر کیوں۔ ان سب حقائق سے عوام کو بے خبر رکھا جارہاہے۔ ؟؟؟ بات پھر عوام الناس پر آتی ہے، قصور پھر کس کا ہے ؟؟ منتخب ہونے والوں کا یا منتخب کرنے والوں کا؟؟ پاکستانی عوام ہوش کے ناخن لے اور صحیح قیادت کا انتخاب کرنے میں جرآت سے کام لے۔ سونامی ہمیشہ لوگوں کو بہا لے جاتا ہے عوام کو سونامی سے فائدہ نہیں پہنچتا۔ !!!!۔ اپنا بہت خیال رکھئے گا۔ اللہ حافظ۔
Comments