Pur aman Inqalab bhi mumkin - Fazal Hussain Awan (Nawa-i-Waqt)

کسی کی بھی غلطی دور کرانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو باور کرایا جائے کہ وہ واقعی کچھ غلط کر رہا ہے۔ جب تک وہ تسلیم نہ کرے آپ لاکھ کوشش کر لیں اس کی سوئی وہیں پر اٹکی رہے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے آصف علی زرداری کے ”پارسائی“ کے دور میں ان کے ساتھ مفاہمت کی۔ یہ سلسلہ فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد کئی ماہ بڑی کامیابی سے چلا۔ پھر حالات بدلتے‘ الجھتے اور گنجلک ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر دشنام اور اتہام تک جا پہنچے۔ میاں شہباز شریف کا ٹارگٹ فریق مخالف کی دو شخصیات زرداری اور رحمن ملک بنی ہوئی ہیں۔ رحمن ملک کو وہ جھوٹوں کا آئی جی اور زرداری صاحب کو ڈاکو لٹیرا اور بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے ہمنواؤں کے کیا کہنے۔ اسی سر اور تال میں کان پر ایک ہاتھ رکھ کر نمک خواری اور وفاداری کا حق کر دیتے ہیں۔ مرکزی حکمرانوں کو مجموعی طور پر علی بابا اور چالیس چور کہہ کر پکارتے رہے۔ ”علی بابا“ ان کے نزدیک ڈاکوؤں کا سردار تھا۔ میاں صاحب کئی سال سے یہی کہتے چلے آرہے ہیں۔ میڈیا میں کئی بار یہ صورت حال واضح کی گئی کہ علی بابا نے تو ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا تھا لیکن میاں صاحب کی سوئی جہاں اٹکی تھی وہی لٹکی اور بھٹکی رہی۔ البتہ چند روز سے انہوں نے علی بابا کو معاف کر دیا ہے۔ اب وہ ”زر بابا اور چالیس چوروں“ کے پیچھے پڑے ہیں۔ انہوں نے ایک غلطی کو ماننے اور اپنا موقف سدھارنے میں کئی سال لے لئے۔ دیر آید درست آید۔ غور فکر کی ضرورت ہے۔ ہم جن لوگوں کو کرپٹ‘ ڈاکو لٹیرے حرام خور وغیرہ وغیرہ قرار دیتے ہیں کیا ان کو معلوم ہے کہ واقعی وہ ایسے ہیں جیسا ہم ان کو سمجھتے ہیں؟ ہم نے ان کو سمجھانے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے کیا وہ اس سے بھڑکتے ہیں یا اپنی اصلاح پر مائل ہوتے ہیں؟ ان کی نظر میں محض اپنا سیاسی مستقبل ہی سب سے اہم ہے یا ان کو اپنی عاقبت کا بھی فکر ہے؟ بہرحال معاملہ جو بھی ہے حقیقت یہ ہے کہ مسائل‘ مصائب اور بحرانوں کی وجہ سے ہر روح پریشان ہی نہیں اذیت میں بھی مبتلا ہے۔ مشکلات شمار کرانے کی ضرورت نہیں ان سے ہر ذی شعور آگاہ بلکہ ان میں مبتلا بھی ہے۔ گڈگورننس دور کی بات گورننس کا بھی کوئی نشان نہیں ہے۔ افسوس تو یہ جن کے ذمے سب کچھ کرنا ہے ان کا اس طرف دھیان ہی نہیں ہے۔ وہ سمجھانے والوں کی بات ہی سنتے جس طرح میاں شہباز شریف نے علی بابا والی کئی سال نہیں سنی۔ وہ بھی شاید خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور دوسروں کو مورکھ۔ گو ان کی حکمرانی کے بظاہر چند ماہ رہ گئے ہیں۔ اپنی بساط اور اوقات کے مطابق سمجھانے والوں کو اپنا فرض ادا کرتے رہنا چاہئے۔ جو باتوں سے سمجھا سکتے ہیں وہ باتوں سے سمجھانے کی کوشش جو لاتوں سے سمجھانے کی طاقت رکھتے ہیں وہ....

”روم ایک رات میں تعمیر نہیں ہوا‘ گرانے میں صرف ایک رات لگتی ہے“ یہ مقولہ روم کی عملی تعمیر کے حوالے سے تو درست ہو سکتا ہے اس سے ہم انسانی کردار اور قوم و معاشرہ کی تعمیر و تشکیل کا استدلال نہیں لے سکتے۔ اس کے لئے ایک رات بھی زیادہ ہے عزم راسخ اور کٹمنٹ ہو تو یہ کام لمحوں میں ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے معاشرے کے ساتھ چلنے کی چاہئے اور نہ لمبی چوڑی ٹیم کی۔ صرف ایک مرد خدا‘ جسے مسیحا کہہ لیں یا قائد و رہنما کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس ریاست ہے‘ آئین اور قانون ہے سب سے بڑھ کر ضابطہ حیات موجود ہے۔ تمام ادارے اور وسائل ہیں۔ اگر نہیں ہے تو کوئی قائد نہیں ہے رہنما نہیں اور جو ہیں ان کے پاس وژن نہیں۔ جن سے قوم کو امیدیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ 6 ماہ میں بحرانوں پر قابو پانے کے دعوے باطل ہیں۔ جن لوگوں نے ایوب دور دیکھا وہ راتوں رات انقلاب برپا ہونے کے گواہ ہیں۔ غلام مصطفیٰ کھر کو 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کا گورنر بنایا تو چند دن میں چوروں‘ ڈاکوؤں‘ رسہ گیروں اور منافع خوروں کا برق رفتاری سے خاتمہ ہو گیا تھا۔ آج سیاسی و انتظامی اختیارات کا منبع آصف علی زرداری کی ذات میں ہے ان کے اوصاف اوپر سے نیچے تک ساتھی سیاستدانوں اور بیورو کریسی تک میں محسوس ہو رہے ہیں۔

ایوب خان آیا تو انتظامیہ ان کے رنگ میں رنگ گئی۔ کھر کا رنگ بھی پولیس پر چڑھا۔ جنرل ضیاءالحق کا بہت سے حلقوں میں نمازی اور پرہیزگار کے طور پر امیج ابھرا۔ وہ تجربے کی بنیاد پر کہا کرتے تھے اشارہ کروں تو سیاستدان دم ہلاتے چلے آئیں۔ ضیاءدور میں ان کے ساتھی سیاست دان‘ جرنیل اور بڑے افسران جیب میں ٹوپی رکھا کرتے تھے۔ ضیاءصاحب کی معیت میں بوقت قیام وضو کی پروا کئے بغیر صف میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔ آپ آج ہی جنرل کی خواہش کے مطابق اس بیوروکریسی‘ کابینہ اور انتظامیہ کی موجودگی میں زمام اقتدار الماس بوبی کے حوالے کر دیں تو یہی انتظامیہ ٹھمکے لگاتے اور لوری لگاتے نظر آئے گی۔ اوپر آپ صرف ایک بندہ بدل دیں۔ نواز شریف کو بٹھا دیں‘ عمران خان کو اقتدار کی لگام تھما دیں۔ پورے ملک میں ان کی طبیعت کے مطابق تبدیلی واضح طور پر دکھائے دے گی۔ آج ہمیں ضرورت ایسی لیڈر شپ کی ہے جو برسوں میں تبدیلی کی امید کا دیپ نہ جلائے بلکہ راتوں رات انقلاب برپا کرنے کا عزم رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ ایسا بالکل ممکن ہے اور اسی کو انقلاب کہتے ہیں۔ خونیں نہیں پُرامن انقلاب‘ جس کی آج اشد ضرورت ہے۔

Comments