Weldon Chief Justest - Weldon Qadri - Bisharat Ali

ویل ڈن۔ ۔۔چیف جسٹس۔ ویل ڈن۔ ۔قادری

تحریر:بشارت علی چوہدری

چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری صاحب نے الیکشن کمیشن کی آئینی تشکیل کے خلاف ڈاکٹر قادری کی پٹیشن کو پہلے سماعت کے لیے قبول کیا اور پھر ڈاکٹر قادری کی ایک نہ سنی اور اُسے خارج کر دیا۔ کچھ لوگوں نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ قادری کا زعم ٹوٹ گیا۔ حالانکہ گزشتہ سالوں میں پانچ بالمشافہ ملاقاتوں اور سینکڑوں اجتماعی ملاقاتوں میں مجھے کبھی بھی یہ نہیں لگا کہ ڈاکٹر قادری کوئی زعم و تکبر والا آدمی ہے۔ اس میں ہمیشہ بے نیازی و درویشی پائی۔ لوگوں نے چیف جسٹس کو’’ویل ڈن‘‘ کہا جس میں مسلم لیگ نون پیش پیش تھی۔ یہ ’’ویل ڈن‘‘ اصل میں چیف جسٹس کو نہیں تھا بلکہ نواز شریف کو تھا کیونکہ چیف جسٹس نے وہی ریماکس دیے جوایک دن قبل نواز شریف نے دیے۔ اس فیصلہ کو ’’خاندانی یا سیاسی‘‘ فیصلہ کہا جا رہا ہے جو تقربیا درست دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر اس تاریخی اور مقبول ترین درخواست کے خروج سے جو عوامی تاثر اس سے قبل اُبھر کر آ رہے تھے اُن کا خاتمہ ہوا۔

ایک تاثر تو شاید یہ تھا کہ ڈاکٹر قادری کے پیچھے شاید عدلیہ ہے۔ جس نے پہلے اسے ملکی اور پاکستانی قرار دیا اور اسکے ’’ لانگ مارچ‘‘ کو آئینی اور ہر پاکستانی کا حق قرار دیا اور ’’لانگ مارچ‘‘ کے خلاف دی جانے والی چار مختلف درخواستوں کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا۔ جو لانگ مارچ کرنے کی ایک طرح کی ضمانت اور اجازت نامہ تھا۔ ۔۔بلا شبہ آئینی اعتبار سے ہر پاکستانی کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے پر امن جدو جہد کرے چاہے وہ لانگ مارچ کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔۔۔؟ اگر ڈاکٹر قادری کا لانگ مارچ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہوتا تو عدالت اُسے اجازت کیوں دیتی ہے؟ وہ آئینی اور جمہوری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون اور تیرہ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں نے لانگ مارچ کا عندیہ پھر دھرنے کا اعلان کیا۔ ایک دھرنا ’’ دھرنی‘‘ بنا۔ قادری کا دھرناالیکشن کمیشن کی پہلے سے غیر آئینی تشکیل کو تحلیل کر کے آئینی طریق پر از سر نو تشکیل کیلئے تھا تا کہ ملک میں منصفانہ، عادلانہ، شفاف انتخابات منعقد ہو سکیں جبکہ نواز شریف کی’’دھرنی‘‘ کا مقصد موجودہ الیکشن کمیشن کو خرابیوں کے ساتھ مضبوط بنانا تھا تا کہ نا اہل لوگ بر سر اقتدار آسکیں۔ بہرحال قادری کے دھرنے میں ڈاکٹر قادری بذریعہ عدالت ’’ملکی و پاکستانی‘‘ قرار پائے۔ سپریم کورٹ نے لانگ مارچ کے دوران وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم دیا ڈاکٹر قادری نے فیصلے کو سراہا اور قوم کو آزاد عدلیہ پر مبارک باد دی۔ اُنکی یہ مبارک باد چیف جسٹس کو نہیں تھی۔۔۔۔نہ ہی انہوں نے ’’لانگ مارچ‘‘ میں چیف جسٹس زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اُنہوں نے عدلیہ زندہ باد کے نعرے لگوائے۔ کیونکہ بقول اُنکے وہ آزاد عدلیہ کے خواہاں ہیں۔۔۔۔۔۔جو اسلامی اور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُصول انصاف کی شاید پہلی اور اہم شرط بھی ہے۔ ۔۔۔اور آج بھی اپنے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عدلیہ بطور ادارہ قومی آزاد اور زندہ باد ہی کہتے ہیں عوامی تاثر جو ڈاکٹر قادری کو عدلیہ کے ساتھ جوڑ رہا تھا۔ ۔۔اُسکا تو خاتمہ ہوا اور قوم کو پتہ چلا پہلی بارکہ عدلیہ کو جتنا آزاد کہا جاتا ہے اُتنی وہ آزاد نہیں ہے کیونکہ اگر آزاد ہوتی تو دہری شہریت جسکی آئین میں اجازت ہے اُسکو بنیاد بنا کر درخواست خارج نہ کرتی بلکہ آئینی طریقہ سے ڈاکٹر قادری کے دلائل کو رد کرتی تو زیادہ بہتر اور تادیر امیج عدلیہ کا برقرار رہتا۔ اسکے علاوہ ابھی تک سپریم کورٹ نے جتنے فیصلے کیے ہیں اُن پر عمل درامد نہیں ہو سکا۔ اس سے عدلیہ کی آزادی اور اختیار کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے۔ مجھے وہ چوہدری سعید خان یاد آگیا جو 13 فروری کو انگلینڈ واپس چلا گیا جس نے کہا کہ چیف جسٹس صرف عدالت کی عمارت کا چیف جسٹس ہے جس کے فیصلے کو کوئی نہیں مانتا۔ ۔۔۔نہ اُس پر عمل درامد ہوتا ہے۔ اس پر تو چیف جسٹس کو ’’از خود مستعفی‘‘ ہو جانا چاہیے جسکی بات کا اور قانونی وآئینی فیصلے کا کوئی پاس ہی نہیں رکھتا ہو۔ بقول چو ھدری سعید کہ ارسلان افتخار کیس کے علاوہ کوئی بھی تو کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں حل نہیں ہو سکا۔ ایک فرد مر جائے با اثر خاندان کا تو سوموٹو تو ایکشن لیا جاتا ہے۔ ہزارہ قبیلہ کی سینکڑوں لاشیں ’’ لانگ مارچ ‘‘ کے آغاز سے پہلے سخت سردی میں پڑی رہیں۔ جسٹس صاحب خاموشی کی چادر لیے پڑے رہے۔۔۔ بہرحال۔ ۔۔ چیف جسٹس صاحب نے اصل درخواست کی بجائے ڈاکٹر قادری کی ’’دوہری شہریت‘‘ پر ہی تین دن بحث کی۔ اُنہیں غیر ملکی کہہ کر بدنیت ثابت کیے بغیر اور سما عت سنے بغیر ہی کیس کو خارج کر دیا۔ 80 لاکھ دیار غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کے جذبات تو مجروح ہوئے ہی۔ ۔۔۔لیکن چیف جسٹس او ر بالخصوص عدلیہ کا کردار مشکوک ہو گیا۔ کیونکہ لانگ مارچ کے آغاز سے پہلے ہی عدلیہ ڈاکٹر قادری کو پاکستانی قرار دے کر اُسکے لانگ مارچ کو جمہوری اور آئینی ضمانت دے چکی تھی۔ ابھی ایک دم ’’غیر ملکی ‘‘ قرار دیا جانا۔۔۔۔۔خود عدلیہ کے مابین بھی تضادات کو جنم دے چکا ہے۔ ۔۔۔جسکا بہر حال بیرون دنیا میں آزاد عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے۔ ۔۔اور اسکے غیر جانبدار ہونے پر اعتراضات اور سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ ۔۔؟ لوگوں کو تو تعجب اس بات پر ہوا کہ اسی عدلیہ نے میموگیٹ سکینڈل میں منصور اعجاز جو پاکستانی شہریت ترک بھی کر چکا تھا کی درخواست کو منظور کیا۔ اُسکی سماعت بھی ہوتی رہی بلکہ اعلیٰ عدلیہ کا وفد بیرون ملک بھی منصور اعجاز کے بیان کی ریکارڈنگ کیلئے گیا۔ وہ غیر ملکی ہو کر بھی پاکستانی ٹھہرا اور ڈاکٹر قادری بقول عدلیہ کے پاکستانی ہو کر غیر ملکی ٹھہرا اور اُسکی درخواست کو کیوں نہ سنا گیا۔ ۔۔؟ دوہری شہریت کے حامل سابق وزیر اعظم معین قریشی اور شوکت عزیز اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں اور ابھی بھی بقول الیکشن کمیشن بیسوں افراد ممبران پارلیمنٹ دوہری شہریت کے حامل ہیں یا حزب اقتدار میں ہیں۔ سپریم کورٹ اُنکی نیک نیتی پر نہ شک کر رہی ہے نہ اُنہیں غیر ملکی کہہ رہی ہے۔ پھر جو اربوں روپیہ لوٹ کر باہر منتقل کر چکے ہوں وہ نیک نیت اور محب وطن ٹھہر یں اور جو اپنے ملک کو اور 90 دوسرے ملکوں کو علمی درس گاہیں فلاحی پروجیکٹس، یونیورسٹیاں، کالجز، سکولز، ڈسپنسریاں، ہسپتال دے وہ غیر ملکی ٹھہرے۔ سپریم کورٹ کے اس رویے پر جہاں عالمی اداروں نے تشویش کا اظہار کیا وہیں پر بیرون دنیا میں مقیم پاکستانیوں نے بڑے بڑے احتجاج کیے اور بعض نے اپنے پاکستانی پاسپورٹ جلا دیے۔ اُن کا یہ ردِ عمل بڑا فطری تھا۔ ملک کے اندر بھی آئینی ماہرین نے اس رویے کو غیر آئینی قرار دیا کیونکہ پاکستانی قانون کے مطابق 16ایسے ممالک ہیں جن کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ ہو چکا تھا کہ وہ دوہری شہریت حاصل کر سکتے ہیں کینیڈا بھی اُن میں سے ایک تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ڈاکٹر قادری پاکستان میں قیام کی صورت میں پاکستانی قرار پاتے ہیں اور پاکستانی قانون کے پابند ٹھہرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے چیف جسٹس کو ڈاکٹر قادری کے استحقاق کے بارے میں آئینی دفعات بھی پڑھ کر سنائیں وہ بھی سعی لاحاصل ثابت ہوئیں۔ ۔۔۔

عوام یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل کراچی کے نازک حالات کے حوالے سے ڈاکٹر قادری نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تب بھی وہ دوہری شہریت کے حامل تھے۔ تب تو چیف جسٹس نے سووموٹو ایکشن لیا۔ کراچی کی خطرناک صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات اُٹھائے تب چیف جسٹس کو ایک ’’غیر ملکی‘‘ کی درخواست آئینی و جمہوری کیوں لگی۔ ۔؟ اور تب استحقاق تھا تو آج استحقاق سے محروم کیسے ہو گئے۔۔۔؟ یہ سوال اُٹھائے جا رہے ہیں کہ ڈاکٹر قادری تو ’’غیر ملکی‘‘ ٹھہرے لیکن جو درخواست اُنھوں نے دائر کی وہ تو پاکستان کے لیے تھی اُس پر ازخود نوٹس کیوں نہ لیا۔ ۔۔؟ جبکہ حکومتی افراد اور آئینی ماہرین الیکشن کمیشن کی تشکیل کے غیر آئینی ہونے کا پتہ دے رہے ہیں اور تشکیل میں آئینی سقم کا وویلہ کر رہے ہیں۔ حتی کہ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک اور اپوزیشن لیڈر چوھدری نثار بھی جس الیکشن کمیشن کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اُس پر تنقید کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ۔۔۔؟یہ سوال اُٹھا یا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس کا ’’ دوہری شہریت ‘‘ بارے فیصلہ خاندانی اور سیاسی تھا کیونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں کرپشن تو کئی دوسری پارٹیوں جس میں مسلم لیگ نون بھی شامل ہے اُس نے بھی کی ہو گی۔ لیکن کیسز صرف پیپلز پارٹی کے کھولے۔ ۔۔دوہری شہریت کے حامل افراد مسلم لیگ کے بھی تھے اور ہیں لیکن ’’نااہلیت‘‘ صرف ppp کے ذمے میں کیوں آئی۔ ۔۔۔کچھ عدلیہ کے اس رویے کو ’’ججز بحالی‘‘ جدوجہد میں نوازشریف کی کوششوں سے جوڑتے ہیں۔ ۔۔کچھ اسے رانا ثنا ء اللہ اور شہباز شریف سے وابستہ خاندانی تعلقات کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ۔۔۔کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں چیف جسٹس کو اپنی ملازمت میں توسیع کا عندیہ بھی دیا گیا ہے یہ تو سب قیاس آرائیاں ہیں آنے والا وقت بتائے گا۔ کہ کیا ہوتا ہے۔۔۔لیکن عدلیہ کی جانبداری کے حوالے سے عوامی زور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔۔۔

ایک سوال یہ بھی منظر عام پر آیا ہے کہ اگر ڈاکٹر قادری غیر ملکی ہونے کی بنیاد پر درخواست دینے کا استحقاق نہیں رکھتا اور ملکی نظام سیاست میں داخل نہیں ہو سکتا۔ لیکن وہ ’’ انقلاب مارچ‘‘ کے نام سے پورے ملک میں سیاسی جدوجہد کرتے بڑے بڑے عوامی جلسے کرنے کا مجاز ٹھہرتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ بھلا۔ ۔۔ایک غیر ملکی کو اتنی بڑی اجازت کیسے دی سکتی ہے کہ وہ ان جلسوں کے ذریعے عوام کو انتخابی سسٹم کے خلاف بغاوت پر اکسائے اور کرپشنوں کو بے نقاب کرئے۔ تعجب تو اس بات پر بھی ہے کہ ایک غیر ملکی فرد کی قیادت میں بڑے عوامی جلسوں کی ابھی تک مذمت بھی نہیں کی جس سے ایک دفعہ پھر ثابت ہوا کہ ڈاکٹر قادری ملکی ہے اور وہ بڑے عوامی جلسے کرنے کا استحقاق بھی رکھتا ہے اور عدلیہ کا اس کے خلاف فیصلہ صرف چوروں، لٹیروں اور’’ مک مکا‘‘ کے نتیجے میں بننے والے الیکشن کمیشن کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔۔۔اور لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کو ’’ویل ڈن‘‘ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اُس نے آکر انقلاب تو نہیں لایا۔ ۔۔لیکن شرافت و عدالت کے مکروہ چہرے بے نقاب ضرور کئے ہیں جمہوریت کے پردے میں چھپی’’ شخصی آمریت‘‘ کے بت ضرور توڑے ہیں۔ ۔۔عوام کو آئین کی ضروری شقوں سے راہنمائی ضرور بخشی ہے کون درست تھا کون غلط۔ اسکا فیصلہ یا تاریخ کرے گی یا بارگاہ خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!۔۔ انتظار کرنا پڑے گا۔

Comments